ایک جولاہے نے عقل لڑا کر ماں کا علاج خود کیا


روایت ہے کہ ایک گاؤں میں ایک سیدھا سادہ جولاہا اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ گاؤں کے زمیندار نے اس کی غربت پر رحم کھا کر اسے ایک کھیت دے دیا لیکن جولاہے کو صرف کپڑا بننا آتا تھا، اسے فصل بونے کاٹنے کا کیا پتہ؟ فصل بیجنے کا موسم آیا تو اس کے ہمسائے نے اسے کہا کہ کھیت میں بیج تو ڈال دو۔ جولاہے نے اپنی جھولی میں بیج بھرا اور ہل چلائے بغیر ہی کھیت میں بکھیر آیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اچھی بارش ہوئی اور چند ماہ میں کچھ نہ کچھ فصل اگ آئی۔ اب سوال اٹھا کہ اسے کاٹے گا کون اور کیسے؟ اسے خود تو کھیتی باڑی کا علم نہیں تھا۔ ہمسائے نے مشورہ دیا کہ پہلے درانتی تو خرید لو، پھر اسے کھیت میں لے جاؤ گے تو فصل کٹ بھی جائے گی۔

جولاہے نے ایک چادر بنی اور اسے لے کر لوہار کے پاس پہنچا۔ چادر دے کر لوہار سے ایک درانتی لی اور اسے لے کر کھیت کی طرف چلا۔ کھیت کے ایک کونے میں وہ درانتی کو رکھ کر کہنے لگا کہ ”درانتی درانتی، میں تمہیں کھیت میں لے آیا ہو، اب فصل کاٹ ڈالو“۔ اس کے بعد وہ سکون سے اپنے گھر واپس گیا اور کھڈی پر کپڑا بننے لگا۔

دوپہر کو کھانے سے فارغ ہو کر وہ کھیت میں پہنچا تو دیکھا کہ فصل ویسے ہی کھڑی ہے اور درانتی ویسے ہی پڑی ہے۔ اس نے غصے میں آ کر درانتی کو اٹھایا تو وہ دھوپ سے تپ رہی تھی۔

جولاہے نے غور کیا ”درانتی کو تیز بخار چڑھ گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ کام نہیں کر رہی ہے ورنہ اب تک ساری فصل کاٹ چکی ہوتی“۔ وہ درانتی کو لے کر علاج کروانے واپس لوہار کے پاس گیا کہ اس درانتی کو بخار چڑھ گیا ہے اور یہ تپ رہی ہے۔

لوہار اس کی بات سن کر ہنسنے لگا۔ پھر کہا ”دیکھو، اس کی گردن پر رسی باندھ کر اسے کنویں میں لٹکا دو۔ پانچ منٹ یہ ٹھنڈے پانی میں رہے گی تو وہ اس کا سارا بخار چوس لے گا اور تمہاری درانتی بھلی چنگی ہو جائے گی“۔
جولاہے نے یہی کیا اور واقعی اس کی درانتی کا بخار پانچ منٹ میں اتر گیا۔ جولاہا بہت خوش ہوا کہ بخار اتارنے کا نسخہ اس کے ہاتھ آ گیا ہے۔

اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اسی رات جولاہے کی ماں کو تیز بخار چڑھ گیا اور وہ نیم بے ہوش ہو گئی۔ جولاہے کو نسخہ تو معلوم تھا، وہ ماں کو اٹھا کر کنویں تک لے کر گیا اور ماں کی گردن سے رسی باندھ کر اسے کنویں کے ٹھنڈے پانی میں ڈبو دیا۔ پانچ منٹ بعد اس نے ماں کو نکالا تو وہ ٹھنڈی پڑ چکی تھی۔

جولاہا بہت خوش ہوا کہ اس کی ماں کا بخار اتر گیا ہے۔ وہ اسے اٹھا کر گھر لایا اور چرخے کے سامنے بٹھا دیا تاکہ وہ روز کی طرح چرخہ کات کر کپاس سے سوت بنائے۔ اس کے بعد وہ اپنی کھڈی پر جا کر کپڑا بننے لگا۔

صبح کو وہ ماں کے کمرے میں آیا تو دیکھا کہ وہ اسی طرح بیٹھی ہے اور اس کے منہ پر مکوڑے چڑھے ہوئے ہیں۔ وہ زور زور سے ہنسنے لگا ”دیکھو میری ماں کتنی بے وقوف ہے کہ کپاس سے چن چن کر کڑوے بنولے کھا رہی ہے“۔

اس کے بے تحاشا ہنسنے کی آوازیں سن کر ہمسائے آئے۔ انہوں نے دیکھا تو اسے کہا ”بے وقوف آدمی، تمہاری ماں نہیں تم بے وقوف ہو۔ تمہاری ماں تو مر چکی ہے؟ وہ کیسے مری ہے؟ کیا بیمار تھی؟ “

جولاہے نے کہا ”کل رات اسے بخار چڑھا تھا، مجھے لوہار نے درانتی کا بخار اتارنے کا نسخہ بتایا تھا کہ اسے کنویں میں ڈبو دیں تو اتر جائے گا۔ میں نے وہی نسخہ اپنی ماں پر لگا دیا۔ بخار تو اتر گیا ہے لیکن پتہ نہیں مر کیوں گئی ہے“۔

تو صاحبو، بات یہ ہے کہ کسی ڈاکٹر  نے کسی مریض کو ایک نسخہ لکھ دیا ہو تو اسے ہر مریض پر خود سے مت لگایا کرو۔ ایک مریض کا بخار اتارنے کا نسخہ دوسرے مریض کے لئے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک قدیم دیسی حکایت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar