میں پتنگ کیوں نہیں اڑاتا


قسم خدا کی، شفیع دلگیر صاحب کو ہم نے کبھی دلگیر نہیں دیکھا۔ تخلص رکھنے والے عموما شاعر ہی ہوتے ہیں اور شاعر نرم دل، نرم خو اور نرم طبعیت ہوتے ہیں پر حرام ہے جو شفیع دلگیر صاحب میں ایسی کسی خاصیت کا کہیں گزر ہوا ہو یا شاید وہ سکول کو رزم گاہ سمجھتے تھے اس لیے اگر کوئی ریشم سی نرمی تھی بھی تو اسے حلقہ یاراں میں چھوڑ کر فولاد صورت استاد کی صورت کمرہ جماعت میں جلوہ گر ہوتے تھے۔ ادھر وہ نمودار ہوتے ادھر بچوں کی روح تقریبا پرواز کر جاتی۔ تیرہ چودہ سال کے بچوں کا دل یوں بھی چڑیا کا سا ہی ہوتا ہے وہ بھی دہلتا رہے تو پڑھائی کیونکر ہو۔ اکثر بچے اسی دہشت نمائی میں سبق بھول جاتے اور شفیع دلگیر صاحب کو خوف و ہراس پھیلانے کے مزید نادر مواقع میسر آ جاتے۔ یوں تو وہ ہمارے کلاس انچارج تھے ساتھ ساتھ اردو اور معاشرتی علوم بھی پڑھاتے تھے پر آج بھی ذہن پر ہزار زور ڈالوں تو ان کا پڑھایا کوئی ایک سبق کہیں حافظے کے کسی کونے کھدرے سے دستیاب نہیں ہوتا ہاں ان کی تشدد پرور طبعیت کے مظاہر آج بھی ذہن پر پوری آب وتاب کے ساتھ نقش ہیں۔ باریک بید کی چھڑی کو ہتھیلی پر برسانا، مرغا بنا کر اوپر چار کتابیں رکھ دینا اور کانوں کی لووں کو انہماک اور مکمل دردمندی کے ساتھ مسلنا عمومی سزائیں تھیں پر دلگیر صاحب کی خصوصیت ہاتھوں کی انگلیوں کے بیچ تین پنسلیں پھنسا کر ہاتھوں کو ایسے دبانا تھا کہ اچھے اچھے سخت جان بچوں کی چیخیں نکل جاتیں۔ تشدد کے ہنر میں حضرت نے کمال رفعت پائی تھی۔ اگر جسمانی تشدد کوئی مضمون ہوتا تو اس کا نصاب یقینا دلگیر صاحب ہی تحریر کرتے۔ میں کہ ایک لائق بچہ تھا۔ عام طور پر کلاس میں پہلی پوزیشن لیتا تھا اور پڑھائی سے قدرتی شغف رکھتا تھا اس لیے کبھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ دلگیر صاحب کا ہاتھ مجھ پر صاف ہو سکے پر دل میں ڈر بہت تھا۔ روز لگتا کہ اب باری آئی کہ آئی۔ اسی خوف سے نہ کبھی ان کے سبق میں کوتاہی برتی نہ کبھی گھر کے لیے دیے گئے کام میں سستی۔

سردیوں کا موسم ختم ہونے کو تھا اور پالا اڑنت، آئی بسنت کے دن تھے۔ لاہور کے آسمان پر رنگ برنگی پتنگیں تیرتی رہتیں۔ ہر لاہوری کی طرح پتنگ بازی پسند تو تھی پر ادھر کچھ ایک دو سال سے پسند جنون میں بدلتی جا رہی تھی۔ سال بھر کا جیب خرچ اکٹھا ہوتا، سودوں سے پیسے بچائے جاتے، گھر کے حساب سے جتنے روپے ادھر ادھر کرنا ممکن تھا، وہ کیے جاتے۔ تقریبات پر ملی رقم جوڑ لی جاتی اور یوں ایک مستقل بسنت فنڈ قائم ہوتا۔ اس کے بعد منصوبہ بندی ہوتی۔ سب سے پہلے سادہ دھاگہ خریدا جاتا۔ اب کا پتہ نہیں پر اس وقت زیادہ تر دھاگہ بھارت سے درآمد ہوتا تھا۔ دھاگے کی مختلف قسمیں تھیں۔ پتنگ اڑانے کے لیے دھاگہ ذرا موٹا ہوتا تھا۔ گڈا اڑانے کے لیے نسبتا باریک دھاگہ استعمال ہوتا تھا پھر انتہائی موٹے دھاگے تھے جو بہت بڑے گڈے اڑانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ مشہور دھاگہ برانڈ وہ تھے جن پر ریچھ یا زنجیر کی تصویر بنی ہوتی تھی۔ دھاگے کی مختلف قسم پر مختلف نمبر ہوتے تھے اور وہ اسی نام سے معروف ہو جاتے تھے جیسے کہ پانچ ریچھ، دو ریچھ ( ریچھ کو رچھ کہا جاتا تھا )، آٹھ چین یا پینتیس نمبر۔ یہ پتہ نہیں لگا کہ زنجیر کو چین کہنے میں کیا حکمت تھی اور ریچھ کا انگریزی ترجمہ کیوں نہیں کیا گیا۔ غریب 35 نمبر دھاگے پر کوئی تصویر نہیں تھی اس لیے یہ بس پینتیس نمبر کہلاتا تھا۔ دھاگے کی موٹی موٹی نلکیاں ملتی تھیں۔ یہ نلکی نڑ کہلاتی تھی۔ چرخیوں کا دور نہیں تھا بلکہ ڈور گولے کی شکل میں لپیٹی جاتی تھی۔ یہ گولہ پنا کہلاتا تھا۔ ہر پنے پر کئی درجن لڑیں ہوتی تھیں۔ پنوں کے بھی مختلف حجم تھے۔ بڑے پنے میں شاید 16 سے 18 نڑیں یا دھاگے کی نلکیاں استعمال ہوتی تھیں۔ درمیانہ پنا کوئی دس بارہ نڑ کا تھا پھر چھ اور آٹھ نڑوں کے چھوٹے پنے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں پنوں کی جگہ چرخیوں نے لے لی لیکن ابھی تو زمانہ قدیم کا ذکر ہے۔ ابھی چرخی کی بدعت متعارف نہیں ہوئی تھی۔ ایک نہ ٹوٹنے والا ریشمی دھاگہ المعروف تندی بھی موجود تھا۔ یہ دھاگہ ایک سے زیادہ دھاگوں کی تہہ پر مشتمل تھا۔ اسے توڑنا قریبا ناممکن تھا ہاں اسے کاٹا جا سکتا تھا۔ تندی ڈور سے مختلف شے تھی اور اس کا مقصد پیچا لگانا نہیں بلکہ کٹی ہوئی پتنگوں کو لپیٹ کر اپنے قابو میں لانا تھا۔ لاہور کی زبان میں اسے چموڑنا کہتے تھے۔ لڑکے بالے پتنگ لوٹنے کے لیے لمبے لمبے بانسوں پر خاردار جھاڑیاں لپیٹ کر سڑکوں پر نکلتے تھے۔ یہ ڈانگھ کہلاتی تھی۔ کٹی ڈور جو کہیں چھتوں چوباروں پر اٹکی ہوتی اس تک دسترس پانے کے لیے ایک پتھر تندی یا ڈور میں باندھ کر پھینکا جاتا۔ اسے گانٹھی مارنا کہتے تھے۔ شرفا یا روایت پسند پتنگ باز چموڑنے، لوٹنے اور گانٹھی مارنے کو قابل اعتراض سمجھتے تھے اور یہ حرکات لڑکے بالوں تک محدود رہتی تھیں۔

خاص بازاروں میں ڈور ساز اڈے تھے۔ سو ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر موٹے بانس گاڑ کر یہ اڈے بنائے جاتے۔ بانسوں میں شگاف کر کے ان میں گول ڈنڈے پروئے جاتے اور پھر ان پر دھاگے ایک بانس سے دوسرے بانس تک لپیٹے جاتے اس کے بعد گوند، سریش اور شیشے سے بنے مانجھے کا لیپ کر کے دھاگے کی ڈور بنائی جاتی۔ کیمیکل ڈور ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ یوں تو ڈور سازی عام تھی پر اچھے کاریگر مخصوص اڈوں پر ہی ہوتے اور وہاں ڈور لگوانے کے لیے کئی ہفتوں کی بکنگ درکار ہوتی۔ ڈور دکانوں پر بھی ملا کرتی پر ایک تو وہ تھوڑی مہنگی پڑتی دوسرا اس میں کوالٹی کنٹرول کے مسائل تھے۔ کچھ مشہور دکانوں کے سوا یہ اعتبار کرنا مشکل ہوتا کہ ڈور واقعی اسی نسل اور معیار کی ہے جس کا دعوی کیا جا رہا ہے اس لیے شوقین حضرات خود ڈور لگوانے کو ترجیح دیتے۔ پنے کے علاوہ گٹھیں بھی دستیاب تھیں۔ جب لوٹی ہوئی ڈور کو ہتھیلی پر آخری انگلی اور انگوٹھے کے بیچ بل دے کر اکٹھا کیا جاتا تو خاص طرز میں لپٹی ہوئی یہ ڈور گٹھ کہلاتی۔ وہ لوگ جن کی استطاعت پنا خریدنے کی نہ ہوتی وہ بازار سے بنی بنائی گٹھ بھی خرید سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ڈور کم ہوتی تھی اور لمبے پیچ کے لیے یہ کارآمد نہیں تھی پر پتنگ بازی کی ٹھرک پوری کرنے کے لیے کافی تھی۔

پتنگوں کا اپنا ایک سلسلہ تھا۔ بے شمار طرح کی پتنگ تھی۔ چھوٹے بچے سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے گڈے اڑاتے۔ ان سے لمبا پیچا ممکن نہ ہوتا۔ بس تیزی سے کھینچ کر دوسرے کا گڈا کاٹنا ممکن تھا۔ اسے ہاتھ مارنا کہتے تھے۔ یہ گڈا شرلا کہلاتا تھا۔ پھر دم لگے گڈے تھے جو کچھ بڑے ہوتے تھے۔ انہیں پری کہتے تھے۔ مونث پری کے ساتھ مذکر گڈے ہوا کرتے جن کے نیچے دم کے بجائے تکونا کاغذ لگا ہوتا۔ چوڑائی کے لحاظ سے گڈا ایک توا، ڈیڑھ توا اور ڈھائی توا کہلاتا۔ ڈھائی توا گڈے بہت بڑے ہوتے تھے اور انہیں صرف پینتیس نمبر ڈور سے اڑانا ممکن تھا۔ ایک عجیب ساخت کا لمبوترا گڈا مچھر کہلاتا۔ پھر دو چشمی ہ کی طرح دکھائی دینے والی پتنگ یا تکل کہلاتی۔ بھانت بھانت کے رنگوں میں یہ پتنگیں انتہائی کم قیمت سے انتہائی بیش قیمت تک موجود تھیں۔

ہمارا پتنگ بازی کا شوق اس زمانے میں جنون کی حدوں کو چھو رہا تھا۔ تمام پیسے جو دستیاب تھے وہ اسی جنون کی نذر ہوتے۔ پرانے شہر جا کر دھاگے کی خریداری ہوتی۔ چھٹی والے دن کئی کئی گھنٹے ڈور ساز کے سر پر کھڑے ہو کر اپنی مرضی کی ڈور لگوائی جاتی۔ مہینوں پتنگیں ذخیرہ کی جاتیں کہ بسنت کے دنوں انہیں اڑایا جا سکے۔ روز چھت پر چڑھ کر نسبتا کم قیمت یا خستہ حال پتنگیں بسنت سے پہلے بھی اڑائی جاتیں۔ پیچوں سے کٹی ہوئی پتنگیں لوٹ کر اکٹھی ہوتیں۔ ڈور کے رنگ برنگے پنے اور گٹھیں جمع ہوتی رہتیں۔ پر ہمارے اس جنون سے گھر میں ایک ہستی بہت پریشان تھی اور وہ تھی میری امی کی۔

گھر میں ابو کا انتہائی رعب تھا۔ سخت گیری اس سے سوا۔ لیکن ابو مصروف رہتے۔ کالج میں پڑھانے کے بعد گھر آ کر کچھ آرام کر کے شام کو اور کاموں سے نکل جاتے۔ امی روایتی خواتین کی طرح نہیں تھیں۔ اتنی ہی تعلیم یافتہ جتنے کہ ابو تھے پر نوکری ان کی سرشت میں نہیں تھی۔ دو تین مختلف کاروبار کرنے کے بعد ایک سکول کی داغ بیل ڈالی اور جلد ہی یہ پودا تناور درخت بنتا چلا گیا۔ امی اتنی ہی مصروف تھیں جتنا کہ ابو لیکن فرق یہ تھا کہ ہمارے ایک ایک پل کی انہیں خبر ہوتی تھی۔ میری پتنگ بازی ان کے لیے سوہان روح تھی۔ ہمارے دو منزلہ گھر کی چھت کی منڈیر پست تھی اور جتنی دیر میں چھت پر ہوتا، امی کو یہی ڈر رہتا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے۔ پتنگ اڑانے اور لوٹنے میں میں پوری چھت پر دوڑتا پھرتا اور امی کی جان حلق میں اٹکی رہتی۔ پھر انہیں یہ بھی لگتا کہ میری پڑھائی سے توجہ ہٹتی جا رہی ہے۔ ہر ماں کی طرح ان کا خیال تھا کہ میرے سے زیادہ ذہین بچہ روئے ارض پر اس سے پہلے نہیں اترا اور ان کے لیے یہ سخت افسوس کا مقام تھا کہ میں پتنگ بازی جیسی بے سود لت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ بچپن سے کتاب سے میرا ایک عجیب محبت کا رشتہ تھا۔ سکول کی روایتی پڑھائی سے ہٹ کر اس چھوٹی عمر میں بھی ادب کی ہر صنف سے میرا تعارف ہو چکا تھا۔ میر سے لے کر فیض تک، رتن ناتھ سرشار سے لے کر ابن صفی تک اور ابن خلدون سے لے کر قاسم فرشتہ تک سب کے لکھے سے میری دوستی تھی پر پتنگ بازی نے کتاب میرے ہاتھ سے چھین لی تھی۔ چھت سے گرنے کی تو نوبت نہیں آئی پر ڈور سے انگلیاں زخمی رہتیں اور انہیں دیکھ دیکھ امی کڑھتی رہتیں۔ کتاب سے دوری پر کبھی ان کی آنکھیں شکایت کرتیں تو کبھی ان کی زبان۔

اس عمر تک ایک ان کہا سا اصول پتہ لگ گیا تھا کہ امی نے کبھی ابو سے میری شکایت نہیں کرنی۔ ابو سے شکایت کا مطلب تھا کہ سخت قسم کی پٹائی اور امی کو یہ گوارا نہیں تھا۔ میں ان کا لاڈلا بچہ تھا۔ ابو سے کچھ نہ کچھ دن بعد ڈانٹ یا مار کی ہلکی پھلکی خوراک ویسے بھی ملتی رہتی اور ہر بار پناہ امی کا دامن ہوتا تھا۔ امی سے کبھی مار نہیں پڑی اور ڈانٹ کا کبھی اثر نہیں ہوا۔ امی پیار کے ہاتھوں بے بس تھیں۔ کیا کرتیں۔ ہاں جب میں قابو آ جاتا تو مجھے سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کرتیں۔ میں ایک کان سے سنتا اور دوسری سے نکال دیتا۔ امی نے ایک دو دفعہ میری پتنگوں اور ڈور کے ذخیرے پر چھاپہ مارا۔ اس کے بعد میں نے گھر کے وہ گوشے ڈھونڈ لیے جہاں تک امی کی رسائی نہیں تھی۔ ایک طویل اندھیری پرچھتی کے آخری کونے میں جہاں امی نے کسی صورت قدم نہیں رکھنا تھا، میری پتنگیں رکھی جاتیں۔ ڈور بھی ایسے ہی مختلف جگہوں پر چھپا دی جاتی۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔

ابو کبھی کبھی اپنے کچھ دوست اساتذہ سے ملنے سکول آ جاتے۔ ایسے ہی ایک دن ان کی ملاقات شفیع دلگیر صاحب سے ہو گئی۔ شفیع صاحب ابو اور امی دونوں کو غائبانہ طور پر جانتے تھے اور کچھ وجوہات کی بنا پر ان سے تھوڑی سی عقیدت رکھتے تھے۔ ملاقات مختصر تھی پر ابو کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ انہوں نے دلگیر صاحب کو گھر پر مدعو کر لیا۔ اگلے دن سکول گیا تو دلگیر صاحب نے بلا بھیجا۔ ایسے وقت ہر برا خیال دل میں آیا۔ سوچا کہ یقینا کوئی خطا ہو گئی ہے اور بس اب میری خیر نہیں۔ ڈرتے کانپتے خدمت میں حاضر ہوا تو قصہ اور نکلا۔ دلگیر صاحب تین دن بعد گھر آنے والے تھے اور میری ذمہ داری لگانی مطلوب تھی کہ گھر والد اور والدہ کو خبر کر دوں۔ خیر سانس میں سانس آئی۔ گھر پہنچا۔ ابو گھر نہیں تھے۔ امی تب تک سکول سے لوٹ آئیں تھیں۔ انہیں خبر کی کہ دلگیر صاحب تین دن بعد تشریف لائیں گے اور سیدھا پھر چھت پر۔ دو ڈھائی گھنٹے پتنگ بازی کر کے نیچے لوٹا تو امی نے پیار سے بٹھا لیا۔ پھر سے سمجھایا کہ یہ شوق برا ہے کچھ وقت گنوانے پر تنبیہہ کی۔ روز کی طرح سنا اور ان سنی کر دی۔ شام گئے ابو لوٹے تو انہیں بھی بتایا کہ دلگیر صاحب تین روز بعد تشریف لائیں گے۔ ابو نے تاریخ پوچھی اور پھر کہا کہ وہ تو اس دن مصروف زیادہ ہیں۔ شاید وقت پر نہ آ سکیں

“ تو۔ میں سر کو منع کر دوں“ میں نے پوچھا کہ باورچی خانے سے امی کی آواز آئی
“ نہیں۔ منع مت کرو۔ اچھا نہیں لگتا۔ آنے دو۔ جب تک ابو لوٹیں گے تب تک تم اور میں ان سے باتیں کر لیں گے“
“ہاں۔ یہ ٹھیک رہے گا“ ابو نے صاد کیا۔

اگلے دن سکول گیا تو دلگیر صاحب کو مطلع کر دیا کہ وہ مقررہ وقت پر تشریف لے آئیں۔ اس کے بعد دو روز گزر گئے۔ معمول وہی تھا۔ دلگیر صاحب کے دورے سے ایک دن قبل میں نے سکول سے آنے کے بعد حسب معمول چھت کا رخ کیا۔ شام تک امی کی کئی آوازوں کے باوجود نیچے نہ آیا تو امی چھت پر چلی آئیں۔ میں پتنگ اڑانے میں ایسا مگن تھا کہ خبر تک نہ ہوئی۔

“ تمہیں کچھ کھانے پینے کا بھی خیال ہے کہ نہیں“ بجائے اس کے کہ بات ڈانٹ سے شروع ہوتی، امی کو پہلی فکر اس بات کی تھی کہ میں نے کچھ کھایا ہے کہ نہیں

“ بس ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں“ مجھے پیچے کی فکر تھی

“کوئی تھوڑی دیر نہیں، ابھی چلو“ امی کو اب غصہ آ رہا تھا

“ امی، ابھی نہیں آ سکتا۔ بس تھوڑی دیر“

“ یہ تو تم کتنے گھنٹوں سے کہہ رہے ہو“

“ امی، آتا ہوں نا۔ آپ چلیں“ میری نظریں ابھی بھی آسمان پر تھیں۔

یہ مکالمہ اسی لے میں کچھ دیر اور چلتا رہا اور پھر شاید امی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے ڈور میرے ہاتھ سے جھپٹی اور توڑ ڈالی۔ آسمان میں تھگلی لگاتی پتنگ سے یکایک میرا رشتہ منقطع ہو گیا۔ چند لمحے تک تو سمجھ ہی نہ آئی کہ ہوا کیا ہے۔ اتنی دیر میں امی پیر پٹختی سیڑھیاں اتر گئیں۔ میں کچھ دیر ہکا بکا کھڑا رہا پھر پورا دن لگا کر لگوائی گئی ڈور اور ایک خوبصورت پتنگ کا غم مجھ پر آشکار ہونا شروع ہوا۔ باقی ڈور چھت پر چھوڑ کر میں امی کے پیچھے لپکا۔ سیڑھیوں کے عین اختتام پر باورچی خانہ تھا جہاں اس وقت ایک ملازمہ تھی اور امی۔ میں دو دو سیڑھیاں پھلانگتا وہاں پہنچا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا۔

میں نے کیا بولا۔ کیا نہیں۔ اب کچھ یاد نہیں۔ ہاں اتنا یاد ہے کہ آواز اتنی اونچی تھی کہ صحن کی دیوار کے پار ساتھ کے گھر میں سے بھی کچھ چہروں نے ادھر جھانک کر دیکھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ میں نے یہ خیال بھی نہیں کیا کہ وہاں ایک ملازمہ بھی موجود ہے۔ امی نے بیچ میں مجھے روکنے، ٹوکنے اور ڈانٹنے کی کوشش کی پر میں غصے میں بالکل بے قابو ہو رہا تھا۔ ادھر میں چیختا رہا ادھر آہستہ آہستہ امی کی آنکھوں میں نمی اترتی رہی۔ اب وہ بالکل خاموش مجھے سن رہی تھیں۔ کتنی دیر بولتا بھلا۔ کچھ دیر بعد بولنے کو کچھ بچا نہیں تو خاموش ہو گیا۔ بس بڑبڑاتا رہا۔ ڈور اور پتنگ کا غم سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ بدتمیزی اور بد تہذیبی کا مظاہرہ جب دھیما پڑ گیا تو امی نے بس ایک شکایتی نظر مجھ پر ڈالی۔ میں نے بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا چاہا پر ان نم آنکھوں میں جانے کیا تھا کہ میں نے فورا ہی نظر چرا لی۔ نظر اٹھائی تو امی جا چکی تھیں۔ اس کے بعد بڑی دیر ان کے کمرے کا دروازہ بند رہا۔ امی کو جب رونا ہوتا تھا تو ہمیشہ وہ کمرے کا دروازہ یوں ہی بند کر لیتی تھیں۔ یہ ہم سب کو پتہ تھا۔ انہوں نے حتی الامکان اپنے آنسو ہمیں نہیں دیکھنے دیے۔ ہمیں صرف ان کی محبت دکھتی تھی۔ کچھ دیر بعد میں بھی بڑبڑاتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

چھوٹی عمر کے ان بچگانہ غموں کی عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ صبح تک میرا غصہ اور تاسف دونوں دھل گئے تھے۔ چھٹی کا دن تھا۔ دوپہر کو دلگیر صاحب کا آنا طے تھا۔ کچھ دیر سے اٹھا۔ امی نے گزری شام کا کوئی حوالہ دیے بغیر ناشتہ دیا اور پھر گھر کے معمول کے کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ مجھے احساس تو تھا کہ کل زیادتی ہو گئی ہے پر معافی مانگنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ دو تین دفعہ سوچا پر اپنی چھوٹی سی انا کی قید میں خاموش ہی رہا۔ تھوڑی دیر تک ابو اپنے کسی کام سے رخصت ہوئے اور امی پھر سے باورچی خانے میں جت گئیں۔ مہمان نوازی میں امی کبھی کوئی کسر نہیں رکھتی تھیں۔ اب ظاہر ہے انہوں نے شفیع دلگیر صاحب کے لیے کچھ کھانے کا اہتمام کرنا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس دن باقی کھانوں کے ہمراہ امی نے خاص بریڈ رول بنائے تھے۔ بریڈ رول کی یہ قسم امی کی اپنی ایجاد تھی اور صرف خاص مواقع پر اس کا دیدار نصیب ہوتا تھا۔ امی باورچی خانے میں مصروف تھیں۔ سیڑھیوں کا راستہ وہیں سے گزرتا تھا۔ ابو کے جانے کے بعد اب کوئی رکاوٹ نہیں تھی اس لیے میں نے چھت پر جانے کے لیے سیڑھیوں کا رخ کیا کہ پیچھے سے آواز نے پاوں پکڑ لیے

“ میں سوچ رہی ہوں کہ آج تمہارے ٹیچر سے بات کروں“
“ کیا بات“ یہ پچھلی شام کے بعد میرا اور امی کا پہلا مکالمہ تھا
“ تمہارے ابو کو شکایت لگائی تو تم جانتے ہو کیا ہوگا۔ وہ میں چاہتی نہیں اور میں تمہیں سمجھا سمجھا کر ہار گئی ہوں تو اب ایک ہی راستہ ہے کہ تمہارے ٹیچر سے کہا جائے کہ تمہیں سمجھائے۔ ماں کی بات تو تم سنتے نہیں شاید استاد کا ہی کوئی اثر ہو جائے“ ہنڈیا میں چمچ چلاتے ہوئے امی نے کہا

“ کیا سمجھانا ہے؟ “ سب کچھ جان کر بھی میں نے ایک موہوم امید کے تحت استفسار کیا

“ تمہیں پتہ ہے کیا سمجھانا ہے۔ تمہاری پتنگ بازی نے تمہیں تباہ کر دیا ہے۔ تمہارے ٹیچر کو ساری کہانی بتاتی ہوں۔ جو کل تم نے بدتمیزی کی ہے وہ بھی ان کو بتانی چاہیے اور پھر ان سے بھی تو پوچھوں کہ تمہیں تمیز سکھانے، بڑوں کا ادب کرنے اور اس منحوس عادت سے باز رکھنے کی کوئی ذمہ داری ان کی بھی ہے یا نہیں۔ استاد صرف پڑھانے کے لیے تو نہیں ہوتا“

میری نگاہوں میں بید کی ایک باریک چھڑی اور تین پنسلیں در آئیں۔ ہاتھ لرزنا شروع ہو گئے اور پیروں سے جیسے جان نکل گئی۔ پچھلے کئی ماہ کا لاشعور میں پلتا خوف اب آنکھوں کے آگے مجسم کھڑا تھا۔

“ امی۔ آئی ایم سوری۔ کل میں زیادہ بول گیا تھا۔ پر آپ نے بھی تو زیادتی کی تھی“ جملہ بولتے ہی احساس ہوا کہ آدھے میں رک جانا چاہیے تھا

“ زیادتی؟ ٹھیک ہے۔ یہ بھی انہی سے پوچھ لوں گی کہ ماں کا سمجھانا زیادتی کیسے ہوتا ہے۔ “

اب میں باقاعدہ لرزاں تھا ” دیکھیں امی، ان سے بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے ان کا کیا لینا دینا۔ وہ سکول میں کلاس کے سامنے بات کریں گے۔ میری سب کے سامنے بے عزتی ہو گی“
اب امی کو کیا بتاتا کہ بے عزتی کے ساتھ بید کی چھڑی اور تین پنسلیں جڑ جائیں تو کیا قیامت بنتی ہے۔

“ چلو۔ اسی بہانے سہی۔ تمہیں عقل تو آجائے گی“ امی کو احساس ہو چلا تھا کہ اندھیرے میں چلایا گیا تیر انتہائی درست نشانے پر ترازو ہوا ہے۔

اس کے بعد چھت پر جانا تو میں بالکل بھول گیا اور اگلے دو گھنٹے امی کے ساتھ مذاکرات میں گزر گئے۔ دونوں جانب سے مذاکرات کا یک نکاتی ایجنڈا تھا۔ میری ہر ممکن کوشش تھی کہ کسی طرح امی کو منا لوں کہ وہ شفیع دلگیر صاحب سے میری شکایت نہ کریں۔ ساتھ ساتھ میں دل میں اس دن کو بھی کوس رہا تھا جب دلگیر صاحب کو ابو نے گھر آنے کی دعوت دی تھی۔ منت، سماجت، پیار، لاڈ، خوشامد اور حتی کہ پھر تھوڑی سی بدتمیزی سمیت میں نے تمام پینترے آزما لیے کہ کسی طرح امی کو منا لوں پر امی کا ارادہ ہر لمحے پہلے سے زیادہ مصمم ہوتا چلا گیا۔ شفیع دلگیر سے کرنے والی باتوں میں اب انہوں نے کل کے علاوہ میری باقی تمام کوتاہیوں اور بدتمیزیوں کا ریکارڈ بھی شامل کر دیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں پہلے شفیع دلگیر اور پھر شاید پورے سکول کے سامنے میرا لائق، تمیز دار اور تہذیب یافتہ ہونے کا بھرم کھلنے کو تھا۔ اس سے زیادہ شرمندگی اور کیا نصیب ہو سکتی تھی۔ چشم تصور سے میں دیکھ رہا تھا کہ کلاس کے سامنے شفیع دلگیر صاحب میرے پول کھول رہے ہیں پھر تین پنسلیں میری انگلیوں میں پھنسا دی جاتیں۔ شفیع دلگیر صاحب کا بھاری ہاتھ اور۔ اس سے آگے سوچنے کا یارا نہیں تھا مجھ میں۔

مذاکرات جاری تھے کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ گھڑی دیکھی تو مردنی سی چھا گئی۔ شفیع دلگیر صاحب آ چکے تھے۔

“ جاؤ۔ اپنے ٹیچر کو ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ۔ میں آتی ہوں“

میں نے شاید انتہائی مردہ آواز میں پھر التجا کرنے کی کوشش کی مگر حلق سے محض لایعنی سی غوں غوں برآمد ہوئی۔ اب وقت ختم تھا۔ کچھ دیر میں میرا میدان حشر سجنے کو تھا۔ شفیع دلگیر صاحب کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ بڑی مشکل سے جو آواز نکل رہی تھی اس میں انہیں بتایا کہ ابو تھوڑی دیر تک آتے ہوں گے۔ اور امی ابھی ان سے ملیں گی۔ اس کے بعد انہی کے پاس ایک صوفے میں میں غرق ہو گیا۔ دل تو تھا کہ کسی طرح سچ مچ ہی غرق ہو جاوں پر وہ وقت خواہش کے پورا ہونے کا نہیں تھا۔

کچھ دیر میں ملازمہ کھانے سے سجی ٹرالی لائی اور پھر پیچھے پیچھے امی کی آمد۔ سردی کے موسم میں اب میں محسوس کر رہا تھا کہ میرے ماتھے پر پسینہ چمک رہا ہے۔ دل کی دھڑکن یا تو بہت تیز تھی یا مکمل طور پر ڈوب چکی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

سلام دعا کے بعد انتہائی خوش خوراک شفیع دلگیر صاحب کی پلیٹ بھری گئی۔ اس دوران ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ شفیع دلگیر صاحب کی نظر خاص بریڈ رول پر تھی۔ ایک کے بعد ایک کھاتے چلے گئے۔ اس دوران مجھے بھی کہا گیا کہ میں بھی کھاوں پر بھوک کدھر تھی۔ ایک تلوار سر پر لٹک رہی تھی۔ اب گری کہ اب گری اور پھر وہ لمحہ آن پہنچا

“ حاشر کے بارے میں تو بتائے۔ کلاس میں بہت اچھا ہے ماشاءاللہ۔ گھر میں کیا حالات ہیں جناب کے۔ اس عمر کے بچے تو ہمیشہ ہی ماں باپ کو تنگ کرتے ہیں۔ یہ بھی کرتا ہے یا نہیں ”

“ اللہ آپ سے پوچھے دلگیر صاحب ” میں نے دل ہی دل میں انہیں کوسا ” سوال پوچھا تو بھی اس ڈھنگ سے کہ میرے بچنے کا کوئی موقع ہی نہ ہو“

اب میری نظریں امی پر ٹکی تھیں۔ جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ صوفے میں مزید دھنسنے کی کوشش کی کہ کسی طرح غائب ہی ہو جاوں۔ امی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا پھر شفیع دلگیر صاحب سے مخاطب ہوئیں

“ حاشر، نہیں۔ ایسا بیٹا تو اللہ سب کو دے۔ مجھے اس نے کبھی تنگ نہیں کیا۔ آج تک کبھی میری ایک بات نہیں ٹالی۔ اسے جو بات کہہ دوں، چاہے اس کی مرضی میں ہو یا اس کے خلاف۔ اس نے کبھی مجھے انکار نہیں کیا۔ اپنا بچہ سب کو پیارا لگتا ہے پر سچ، ایسا بچہ میں نے نہیں دیکھا۔ ماں کہے دن تو دن، ماں کہے رات تو رات“

شفیع دلگیر صاحب نے ایک توصیفی نظر مجھ پر ڈالی۔ کچھ بولے پر اب مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میری آنکھیں امی پر جمی تھیں۔ دل آہستہ آہستہ ٹھکانے پر آ رہا تھا۔ کہیں دور اندر ایک رکا ہوا دریا بہہ نکلا تھا۔ میری آنکھیں بار بار دھندلاتی تھیں پھر میں آستین کے کنارے سے انہیں خشک کرتا۔ ایک چیختا چلاتا جنگلی بچہ اور دو نم ہوتی آنکھیں ایک لوپ کی صورت بار بار ذہن کے پردے پر چلتیں۔ دل میں تھا کہ اپنے چہرے پر کسی طرح زور سے تھپڑ لگا سکوں۔ کسی طرح اس منظر سے آنکھیں چرا لوں پر ہاتھ شل تھے اور نظریں امی کے چہرے سے ہٹتی نہیں تھی جہاں وہی محبت بھری دو نم آنکھیں اب مجھے دیکھتی تھیں اور میں کہتا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اپنی تمام کوتاہیوں، تمام شرمندگیوں اور تمام پچھتاووں کے ساتھ اس میں سما جاوں۔

پتہ نہیں کتنی دیر اس کمرے میں اور کیا بات ہوتی رہی۔ مجھے آج بھی وہ دو جملے یاد ہیں
“ ماں کہے دن تو دن۔ ماں کہے رات تو رات“

کچھ دیر بعد ابو آگئے۔ شفیع دلگیر صاحب اب ابھی بریڈ رول کھا رہے تھے۔ ابو اور شفیع دلگیر نے باتیں شروع کی تو امی اجازت لے کر اٹھ گئیں۔ وہ کمرے سے نکلیں تو میرے بندھے پیر کھل گئے۔ ایک جھٹکے سے اٹھا اور ابو اور دلگیر صاحب کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل آیا۔ لکڑی کی سیڑھی صحن کے کونے میں پڑی ہوتی تھی۔ اسے اٹھا کر پرچھتی سے لگایا اور پیچھے کونے میں گھس کر ساری پتنگیں نکال لایا۔ سب پتنگیں صحن میں ڈھیر کیں اور ایک ایک کر کے سب کو پھاڑ ڈالا۔ اس کے بعد اوپر کی منزل کے ایک اور خفیہ گوشے سے ڈور کے پنے اور گٹھیں نکالیں اور نیچے لے آیا۔ کھانے کی ٹرالی باورچی خانے میں واپس آ گئی تھی اور امی چیزیں سمیٹ رہی تھیں۔ ان کی طرف دیکھے بغیر چولہا جلایا اور ایک ایک کر کے ساری ڈور چولہے میں جھونک دی۔ ڈور جل کر خاکستر ہو گئی تو مڑ کر دیکھا۔ امی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑی تھیں۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ آنکھوں کے گوشے سے دو آنسو نکل کر چہرے پر ٹھہر گئے تھے۔ اور ان کی بانہیں پھیلی ہوئی تھیں میں ان کی طرف لپکا اور ان سے لپٹ کر بلک بلک کر رو دیا۔

امی کو گزرے بیس سال ہو گئے ہیں۔ چھوٹے بچے کے سر میں اب سفیدی آ گئی ہے۔ اس دن کے بعد سے نہ کبھی پتنگ خریدی نہ ڈور۔ کئی دفعہ ان گزرے برسوں میں بسنت کے دنوں میں چھت پر بیٹھا ہوں۔ چھوٹے بھائیوں اور دوستوں سے لے کر کبھی کبھی پتنگ کی ڈور کو ہاتھ پر محسوس بھی کیا ہے لیکن ادھر ڈور انگلی کو چھوتی ہے ادھر کہیں سے ایک چیختا ہوا بچہ چلا آتا ہے۔ دو بھیگی ہوئی آنکھیں آسمان کے پار سے دیکھتی ہیں۔ کوئی سرگوشی کرتا ہے ” ماں کہے دن تو دن، ماں کہے رات تو رات ”۔ وہ بچہ پہلے تو چپ کر جاتا ہے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیتا ہے۔ میری انگلی من من کی ہو جاتی ہے۔ ڈور سنبھلتی نہیں ہے اور میں پتنگ کسی کو تھما کر پیچھے ہٹ جاتا ہوں۔ کہیں سے نرم روئی کے سے بادل چلے آتے ہیں۔ رنگین آسمان یکسر سفید ہو جاتا ہے۔ محبت کی پھوار برستی ہے۔ آج بھی یہ پھوار اتنی تیز ہے کہ اس میں کوئی پتنگ اڑ نہیں پاتی۔ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہے۔ سو میں بھی کوشش نہیں کرتا۔ بس ماں کو یاد کرتا ہوں اور کبھی ہنس دیتا ہوں، کبھی رو دیتا ہوں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad