لودھراں کی سیٹ جیتنے والے این اے 246 عزیز آباد کا حتمی نتیجہ یاد رکھیں


کراچی کی دیواروں پر لکھا ہوتا تھا کہ ”ہم کریں تو غداری ہے ، تم کرو تو سرکاری ہے“۔ سندھ اور بلوچستان کے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ” تو“ بتا کہ اب کہاں گیا تمھارا غداری کا سرٹیفکٹ۔ ہم نے اگر مجیب کا نام لیا ہوتا۔تو اب تک ہمارے گھروں پر اتنے چھاپے پڑ چکے ہوتے کہ ہمارے گھر والے مرنے کی بددعائیں دے رہے ہوتے۔ ہم نے عدالت کے خلاف اگر طبل ِ جنگ تو دور کی بات ہے اگر منہ بند کر کے زبان چلانے کا سوچا بھی ہوتا تو ہماری ساری نیکیاں دھل گئی ہوتی۔ میں یہ باتیں ، یہ طعنے سندھ کی چائے خانوں اور بلوچستان کی بیٹھک میں اکثر ہی سُنتا ہوں۔ اور معلوم نہیں کیوں مجھے ایسے میں شیخ سعدی یاد آجاتے ہیں۔

سینکڑوں سال پہلے شیراز میں پیدا ہونے والے سعدی کی دونوں کتابیں۔ گلستان اور بوستان حکمرانوں کو ضرور پڑنی چاہیے۔ گلستان کا پہلا باب بادشاہوں کے متعلق ہے۔ شیخ سعدی اپنی پہلی حکایت میں لکھتے ہیںکہ ایک بادشاہ نے قیدی کا مقدمہ سننے کے بعد اُسے پھانسی کی سزا سُنا دی۔ اب بادشاہ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج تو نہیں کیا جاسکتا کہ پیشی پر پیشی لگتی رہے اور تاریخ پر تاریخ ملتی جائے۔ اور ملزم روزانہ ٹی وی پر آکر کہتا رہے کہ ”مجھ سا ہو تو سامنے آئے “۔ اب دو ہی طریقے ہو سکتے ہیں کہ بادشاہ سے رحم کی اپیل کی جاسکے یا پھر بادشاہ کو گالیاں دینا شروع کر دی جائے۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ بیچارے نے ناامیدی کی حالت میں بادشاہ کو گالیاں دینا شروع کر دی۔ بادشاہ اُس شخص کی مقامی زبان کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔ لیکن وہ شخص غصے میں بادشاہ کو بہت برا کہہ رہا تھا۔ ایسے موقعہ پر سعدی نے شعر کہیں کہ جب ضرورت کے وقت بھاگنا ناممکن رہے تو پھر کمزور ہاتھ بھی تلوار کی نوک پکڑ لیتے ہیں۔ ا س پر بعد میں بات ہو گی کہ کیا نواز شریف کے پاس بھاگنے کا وقت نہیں تو انھوں نے تلوار کی نوک پکڑی ہے یا پھر فیصلہ سُنانے والوں کو زبان سمجھ نہیں آرہی کہ ملزم کیا کہہ رہا ہے۔سعدی کہتے ہیں کہ جب انسان نا امید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہو جاتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی جیسے دبیِ ہوئی بلی ، کتے پر حملہ کر دیتی ہے۔

بادشاہ کے دربار میں جب قیدی کا شور بڑھ گیا تو بادشاہ نے ایک وزیر سے پوچھا۔ وزیر احترام سے اٹھا اور بادشاہ کے حضور سر جھکاتے ہوئے ادب سے کہا کہ یہ قیدی آپ کی تعریف کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں۔اور لوگوں پر رحم کرتے ہیں۔ سزا ِ موت پانے والا تو گالیاں دے رہا تھا لیکن وزیر نے اس انداز میں کہا کہ بادشاہ کا سارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اور بادشاہ نے مسکراتے ہوئے حکم دیا کہ قیدی کو آزاد کر دیا جائے۔ میڈیا ، کچھ سیاسی دوست اور کچھ کاروباری لوگ بھی ایسے وزیر کی تلاش میں ہےں جو بادشاہ کو محبت سے یہ بتا سکے کہ جناب ملزم تو اصل میں آپ کا خادم ہے لیکن غصے میں بول رہا ہے کہ ”مجھے کیوں نکالا“۔

لیکن آپ کو تو معلوم ہے کہ ہر جگہ حسد کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ”صاحب“ نے بادشاہ کی خوشامد کرنے کی کوشش کی۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ وہ وزیر دوسرے وزیر سے حسد کرتا تھا۔ اسی لیے اُس کے دل میں آگ لگ گئی کہ بادشاہ نے ایک جھوٹی بات کیسے مان لی۔ وہ فورا کھڑا ہوا۔ اور بادشاہ کی خدمت میں اپن سر خم کر کے کہنے لگا کہ ہم جیسے ”ہم پیشہ“ کے لیے یہ بات اچھی نہیں کہ بادشاہ کے دربار میں جھوٹ بولیں یا سچ کے سوا کچھ اور کہیں۔ جس شخص کے سارے گناہ آپ نے معاف کر دیے ہیں یہ تو آپ کو گالیاں دے رہا تھا۔ وزیر صاحب نے آپ کی خدمت میں جھوٹ کہا ہے۔ بادشاہ کا چہرہ ایک دم غصے سے سرُخ ہو گیا۔ وزیر یہ سمجھ رہا تھا کہ اُس نے آج اپنا کام مکمل کر دیا۔ اُس کے دشمن اور بادشاہ کے چہیتے وزیر کا فیصلہ آج ہو جائے گا۔ پورے دربار میں سناٹا چھا گیا۔ بادشاہ کبھی قیدی کو دیکھتا ، کبھی اپنے من پسند وزیر کو اور کبھی اُس وزیر کو جس نے حسد کے مارے سچ تو کہا لیکن دربار کا ماحول خراب ہو چکا تھا۔ بادشاہ کچھ سوچنے لگا۔ اپنے لاڈلے کی طرف دیکھا۔ اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر آگئی۔

شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے حاسد وزیر کی طر ف دیکھ کر کہا کہ وہ جھوٹ جو اس وزیر نے کہا وہ مجھے تمھارے سچ سے زیادہ پسند آیا۔ اس نے جو جھوٹ کہا وہ نیکی کے لیے تھا کہ اس طرح کسی کی جان بچ جائے۔اور میرا غصہ بھی ٹھنڈا ہو جائے۔ جب کہ تو نے جو سچ کہا ہے اُس کی بنیاد خباثت پر ہے۔ اور اس کا مقصد صرف اور صرف فتنہ ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ مصلحت آمیز جھوٹ ، قتنہ پیدا کر دینے والے سچ سے بہتر ہے۔ اگر ایسے میں فتنہ پیدا کر کے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہر جگہ مشہور ہو جائیگا تو یہ ممکن نہیں لگ رہا ہے۔ شیخ سعدی نے اس کے بعد فیصلہ سازوں کے لیے ایک اہم شعر کہا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص فیصلہ سازوں پر اتنا اثر رکھتا ہے کہ وہ جو کہہ دے وہ ہی فیصلہ ساز کر دے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہوگئی کہ وہ شخص نیکی اور بھلائی کے علاوہ کوئی اور بات کرے۔

کہانی کو آج کے دور میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو یہ سمجھ رہا ہے کہ قیدی ، بادشاہ کو جو گالیاں دے رہا ہے وہ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہی تو یہ بہت بڑی بے وقوفی ہے۔ فیصلہ کرنے والے جس قدر ”ٹھنڈا کر کے کھا رہے “ ہیں یہ بات قیدی بھی سمجھ رہا ہے۔ میں شیخ سعدی کی اس بات سے انکار کرنے والا کون ہوتا ہوں کہ ناامیدی میں کمزور ہاتھ بھی تلوار کی نوک پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت حکمران جماعت کو یہ بات معلوم ہے کہ ہم تلوار کی نوک پکڑ کر کیا کر سکتے ہیں۔ میں اس بات کا حمایتی ہر گز نہیں ہوں کہ کہ تلوار کی نوک پکڑنے سے پنجاب میں تمام جلسے کامیاب ہو جائیں گے اور ساری سیٹیں وہ جیت جائیں گے۔ نواز شریف صاحب بھی قائد بن چکے ہیں۔ کراچی میں ایک قائد کے ساتھ کیا ہوا ؟ یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 22 اگست کی تقریر سے پہلے ہی کراچی کے قائد کی تقریر اور خبر پر پابندی لگ چکی تھی۔ کراچی سے اُن کی ساری تصاویر ہٹا لی گئی تھی۔ 22 اگست تو صرف ایک دن تھا۔ قیدی یہ بات جانتا ہے کہ کراچی کی جس فضا پر وہ خوش تھا وہ ہی سزا اُسے سُنائی جارہی ہے۔

پنجاب کے دیہی علاقوں سے جیت کر آنے والے پرندوں نے اڑنا شروع کر دیا ہے۔شیخ سعدی کی حکایت میں موجود قیدی کو آزاد کرانے کے لیے ایک نیک وزیر موجود تھا جس نے بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ ایسے وزیر آج بھی موجود ہےں۔ لیکن انتہائی کمزور ہے۔ کراچی میں بھی ایسے وزیر ”گورنر “ کی صور ت میں موجود تھے۔ لیکن رات کی تاریکی میں ہونے والی میٹھی باتیں ، دن کے اجالے میں فتنہ پیدا کرنے لگتی تھی۔ بالکل اسی طرح کے وزیر آج کل بھی سرگرم ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ رات کی تاریکی میں ماحول ٹھنڈا کر کے آتے ہیں ایک سازشی وزیر سارے معاملے کو بگاڑ دیتا ہے۔ اب ایک اور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح سے وقت کو گزار دیا جائے۔ انگریزی کا محاور time killing پالیسی لیکن کارگر ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

کراچی کے قائد پر تمام تر پابندیوں کے باوجود میڈیا کے کچھ ”گرو “اس بات پر دنگ رہ گئے تھے کہ 24 اپریل 2015 کو عزیز آباد کی سیٹ متحدہ جیت گئی تھی۔ لیکن انجام وہ ہی ہوا جو لکھا جا چکا تھا۔ اسی طرح لودھراں کی نشست پر جیت کو حتمی کامیابی نہ سمجھا جائے۔ شہباز شریف کی صورت میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک نیک دل وزیر آ چکا ہے اور شیخ سعدی کے قیدی کی رہائی پکی ہے۔ وہ غلط فہمی میں ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ آپ بادشاہ نہیں ہیں۔

شیخ سعدی ایک جگہ لکھتے ہیں۔ آپ نے وہ بات سُنی ہے جو ایک دُبلے عقلمند نے موٹے بے وقوف سے کہی۔ کہ عربی گھوڑا چاہے جتنا کمزور ہو لیکن لمبے گدھے سے بہت بہتر ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ جب تک نکلنے کا راستہ معلوم نہ ہو اندر داخل نہ ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے۔ تلوار کی نوک کو پکڑ تو لیا گیا ہے۔ لیکن باہر نکلنے کا راستہ نہیں معلوم۔ اس کے برعکس جو لوگ قیدی کی ساری گالیوں کو سمجھ رہے ہیں و ہ ٹھنڈا کر کے کھانے کی پالیسی پر ہے۔ اور شیخ سعدی کو پڑھنے کا وقت آپ کو ملا نہیں ہوگا اس لیے آپ نے داخل ہونے سے پہلے نکلنے کا راستہ نہیں سوچا اور اب آپ پوچھ رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).