ڈاکٹر عبدالسلام: ڈیش، ڈیش ڈیش نوبیل پرائز ونر


ڈاکٹر عبدالسلام نے ایک مرتبہ کہا کہ میرے پاس دو راستے تھے یا فزکس چھوڑ دوں یا پاکستان۔ میں نے دکھی دل کے ساتھ پاکستان چھوڑ دیا۔

میں نے یہ بات عبدالسلام کی زندگی پر بننے والی غالباً پہلی دستاویزی فلم میں سنی۔ فلم کے پروڈیوسر دو پاکستانی نوجوان عمر ونڈل اور ذاکر مختار ہیں۔ میں کوئی دس سال سے ان نوجوانوں کو ڈاکٹر سلام، ڈاکٹر سلام کہتے سن رہا ہوں۔ یہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ فلم بنانے کی تگ و دو میں تھے۔

مجھے بھی شک تھا کہ کہ جس طرح پوری قوم ڈاکٹر صاحب کو کافر قرار دے کر ان سے جان چھڑا چکی ہے یہ لوگ بھی بور ہو جائیں گے لیکن ان کی کوشش رنگ لائی ہے اور فلم سلام: پہلا۔۔۔نوبیل پرائز ونر، نمائش کے لیے تیار ہے۔

فلم کے ٹائٹل میں جو ڈیش ڈیش ڈیش ہیں وہاں لفظ مسلمان ہونا چاہیے تھا لیکن چونکہ یہ لفظ ربوہ میں ان کی قبر پر لگے کتبے سے مٹا دیا گیا ہے تو اس لیے فلمسازوں نے کسی فتوے سے بچنے کے لیے ڈاکٹر سلام کو ڈیش ڈیش ڈیش کہہ کر متعارف کروایا ہے۔

ہمارے ہاں دستاویزی فلم بنانے اور دیکھنے کا زیادہ رواج نہیں ہے لیکن ڈاکٹر عبدالسلام پر بنی یہ فلم ایک لو سٹوری ہے۔ ان کی پاکستان سے محبت کی کہانی۔ پرانی اردو غزلوں والی محبت جس میں محبوب کھٹور دل ہوتا ہے اور عاشق پرلے درجے کا ڈھیٹ، جس معشوق کی گلی میں دھکے پڑتے ہیں وہیں کے چکر بار بار لگاتا ہے۔ جب محبوب دیس بدر کر دیتا ہے تو پردیس میں بیٹھ کر دیس میں نکلا ہو گا چاند ٹائپ باتیں کرتا ہے اور آہیں بھرتا ہے۔

فلمسازوں نے بہت محنت سے ڈھونڈ کر ڈاکٹر صاحب کی آواز اور ویڈیو کلپس اس فلم میں شامل کیے ہیں جو میں نے تو کم از کم پہلے نہیں دیکھے۔ ان کے بیٹوں، بیویوں اور ساتھ کام کرنے والے سائنسدانوں اور ماتحت عملے کے انٹرویوز کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی جو تصویر بنتی ہے وہ ایک کٹّر پاکستانی کی ہے جو اپنا ملک تو چھوڑ دیتا ہے لیکن کبھی اپنا سبز پاسپورٹ نہیں چھوڑتا۔

جس کی ساری تحقیق، سارا خاندان ملک سے باہر ہے لیکن اس کی آخری خواہش ہے کہ وہ دفن اپنے وطن کی مٹی میں ہو گا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کی قبر کا کتبہ
ربوہ میں ڈاکٹر عبدالسلام کی قبر پر لگے کتبے سے لفظ مسلمان مٹا دیا گیا ہے

جب وہ انڈیا کے پہلے ایٹمی بم دھماکے کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں وہ چمک ہے جو دشمن کو سبق سکھانے کا سوچ کر آتی ہے۔ اس دھماکے کے فوراً بعد وہ ملتان میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ موجود ہیں جہاں طے پایا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن کر رہے گا اور ڈاکٹر صاحب سائنسی مشیر مقرر کیے گئے تھے۔

اس کے چند ماہ بعد ہی احمدی کافر قرار پائے اور ڈاکٹر صاحب ایک مرتبہ پھر دل تڑوا کر استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ لیکن جہاں بھی گیے ایک چھوٹا سا پاکستان ان کے اندر آباد رہا۔

کیمبرج میں ان کی سٹڈی کا منظر دیکھیے، جہاں وہ ایک صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں اور ایک نوٹ بک میں فزکس کے وہ گنجلک مسئلے حل کر رہے ہیں جن کا ذکر سن ہی ہمیں اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے گراموفون پر قرآن کی تلاوت چل رہی ہے۔ پھر وہ اٹھتے ہیں اور کونے میں پڑے ایک ریڈیو پر ریڈیو پاکستان کی بین الاقوامی سروس پر خبریں سننے لگتے ہیں۔

جب وہ انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹکل فزکس بنانے کے مشن پر نکلے تو تمام مغربی ممالک نے حصہ ڈالنے سے انکار کر دیا۔ کسی بڑے نے ان سے کہا کہ فزکس تو سائنس کی رولزرائس ہے تو اور تمہارے ملکوں کو تو بیل گاڑی کی ضرورت ہے۔

یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں وہ شرارت ہے جو پاکستان کے نئے نئے فاسٹ بولروں میں ہوتی ہے کہ سامنے آؤ تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کس مٹی کا بنا ہوں اور جو مجھے چاہیے وہ ضرور لوں گا۔

انھوں نے نہ صرف وہ سنٹر بنایا بلکہ آج یہ انھی کے نام سے قائم ہے اور بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی طرح اور کسی کو فزکس کے لیے اپنا وطن نہ چھوڑنا پڑے۔ سائنسدان تین مہینے کے لیے آئیں، تحقیق کریں اور اپنے اپنے وطن کو لوٹ کر علم پھیلائیں۔

ایک عمر میں پہنچ کر وہ پکّے پاکستانی انکل لگتے ہیں جو انگلی ہلا ہلا کر ہمیں ہماری کوتاہیاں بتاتا ہے۔ کہتے ہیں پنجاب یونیورسٹی میں میتھیمیٹکس کا شعبہ 100 سال سے قائم ہے، میں خود بھی اس کا سربراہ رہا ہوں، ہم کیوں ایک بھی پی ایچ ڈی پیدا نہیں کر سکے؟

آخری عمر میں ایک دل گرفتہ عاشق ہیں۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کا الیکشن لڑتے ہیں اور ان کا اپنا ملک ان کی حمایت سے انکار کر دیتا ہے۔ ایک بار پھر دل تڑوا کر وہ گریہ بھی کرتے ہیں لیکن کام بھی جاری تھا۔

ان کی ایک نائب بتاتی ہیں کہ دفتر میں بلاتے تھے تو میں ایک درجن پینسلیں لے کر جاتی تھی کیونکہ بات پانچ منٹ میں بھی ختم ہو سکتی تھی اور گھنٹوں بھی نوٹس لینے پڑ سکتے تھے۔

جھنگ کے ہائی سکول سے پڑھ کر سائنس کا سب سے بڑا انعام جیتنے والے اس سپوت کو جب نوبیل انعام کے لیے پیش ہونا تھا تو سر پر سفید پگڑی، شیروانی اور پاؤں میں کھسہ پہنا۔ ان کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ اس تقریب میں ہم سب کالے سوٹ پہنے پینگوئن لگ رہے تھے اور ڈاکٹر سلام شہزادہ لگ رہا تھا۔

ڈاکٹر صاحب اتنے پکے پاکستانی تھے کہ شادیاں تو دو کر لیں لیکن پاسپورٹ ایک ہی رکھا اور وہ بھی پاکستانی۔

اس شہزادے نے ایک مرتبہ اپنے کھٹور محبوب وطن کے لیے کہا تھا کہ ہمیں ایک گھر ورثے میں ملا ہے جس میں کھڑکیاں نہیں ہیں اور اس کی دیواریں بہت اونچی ہیں اور ہمیں کبھی کبھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ گھر ہے یا جیل۔

آپ اپنے اردگرد روز بروز بلند ہوتی دیواریں دیکھیں اور اس عاشقِ وطن کو یاد کریں جو اس مٹی میں دفن ہے اور جس کی قبر پر ڈیش ڈیش ڈیش لکھا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).