میری بیوی، موٹر سائیکل اور معاشرتی بے راہ روی


گزشتہ دنوں گھر کے مالی معاملات کو ترتیب دینے اور اپنے فالتو وقت میں کچھ تخلیقی کام کرنے کی غرض سے میں نے اپنے بجٹ کو کمپیوٹرائز کیا جس کے بعد ڈیٹا دیکھ کر جو انکشاف ہوا اس نے مجھے ایک عرصے بعد لکھنے پر مجبور کر دیا۔ تفصیل سے قبل بتاتا چلوں کہ ہم میاں بیوی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، میری بیوی ایک قابل خاتون ہے اور تعلیم کے شعبہ کے ساتھ، ساتھ وہ ریسرچ، فیلڈ ورک، اور طلبہ کی کونسلنگ میں تجربہ رکھتی ہے۔ ہم دونوں کم و بیش ایک جتنا ہی کماتے ہیں۔ جب میں نے ہم دونوں کی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ لگایا تو انکشاف ہوا کہ میرے اخراجات میری بیوی سے تقریباً آدھے ہیں۔ جس کی ایک اہم وجہ ٹرانسپورٹیشن ہے۔ میرے پاس ایک موٹر سائیکل ہونے کی وجہ سے میرے اخراجات صرف پٹرول، موٹر سائیکل کی مرمت، موبل آئل پر مبنی تھے گو کہ موٹر سائکل تھوڑی خستہ حال ہے لیکن کہتے ہیں نہ کہ چلتی کا نام گاڑی جبکہ اس کے برعکس میری بیگم کے اخراجات میں رکشہ اور ٹیکسی کا خرچہ شامل تھا۔ یہ سارے معاملات دیکھ کر میں نے ان کو حل کرنا چاہا اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کا حل کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ میری بیگم کو اپنی ذاتی ٹرانسپورٹ چاہئے، اب جیسا کہ قارئین جانتے ہوں گے کہ گاڑی لینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، اس کے ساتھ، ساتھ اگر آپ درس و تدریس کے شعبےسے وابستہ ہیں تو گاڑی خریدنا آپ کے لئے ناممکن نہ صحیح تو آسان بھی نہیں ہے۔ لیکن اگر گاڑی نہیں تو اس کا علاج موٹر سائیکل کی صورت میں موجود ہےجو کہ متوسط طبقے کی ضروریات کے عین مطابق بنائی گئی تھی۔

موٹر سائیکل کا خیال آتے ہی مجھے کچھ عرصہ قبل ہونے والا ایک واقعہ یاد آیا، میری ایک عزیزہ اپنے شوہر کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہی تھیں کہ ان کا دوپٹہ موٹر سائیکل کے پچھلے ٹائیر میں پھنس گیا جس سے سواری اور سوار گر گئے دونوں کو شدید چوٹیں آئیں اور موٹر سائیکل کا الگ کباڑہ ہو گیا۔ جب یہ واقعہ مجھ ناچیز کے کانوں تک پہنچا تو میں نے بے احتیاطی میں یہ رائے دے ڈالی کہ جب موٹر سائیکل بنائی گئی تھی تو کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ خواتین اس پر “صحیح” طریقے سے بیٹھنے کے بجائے “غلط” طریقے سے بیٹھیں گی جو کہ بیٹھنے اور چلانے والے دونوں کی جان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پر اگر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور وہ لمحات یاد کریں جب آپ نے خواتین کو موٹر سائیکل پر سوار اور ان کے لہراتے دوپٹے یا عبایہ کو موٹر سائیکل کے پچھلے ٹائر کے ارد گرد لہلہاتے دیکھا ہوگا، اکثر اوقات ان کی گود میں بچہ یا ڈھیروں سامان بھی ہوتا ہے۔ بس میری یہ رائے دینے کی دیر تھی کہ بات اسلامی معاشرے کے قیام، اور خواتین کے صحیح طریقے سے بیٹھنے کی وجہ سے ان کی بچہ دانی پر پڑنے والے اثرات تک پہنچ گئی اور تو اور مغربی سماج کی اخلاقی گراوٹ بھی موٹر سائیکل پر لڑکی کے بیٹھنے کے انداز تک آ پہنچی۔

لیکن معما یہی ہے کہ خرچے کم کرنے اور اپنے حالات کو بہتر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ میری بیوی یا عمومی طور پر پاکستانی خواتین موٹر سائیکل استعمال کریں تاکہ ان کی نقل و حرکت کسی کی محتاج نہ رہے اور وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں۔ حالانکہ ہمارا معاشرہ انہی خواتین کے زور بازو پر چلتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس معاشرے میں چند اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں جن کو ہم سب ہی تقریباً سنتے آئے ہیں۔ اب میرے حساب سے تو ان میں سے کسی میں صداقت نہیں ہے۔ ان اعتراضات میں غیرت کا عنصر بہت زیادہ دیکھنے میں آیا، دوسرا اعتراض یہ تھا کہ خواتین ڈرائیونگ نہیں کرسکتیں کیونکہ ان کے اوسان کسی مشکل کیفیت میں خطا ہوجاتے ہیں۔ دراصل یہ بات کافی حد تک درست ہےکہ واقعی خواتین کےاوسان خطا ہوجاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ، کیا آپ اپنے ارد گرد ایسے مردوں کی نشاندہی نہیں کرسکتے؟ کیا پاکستانی مرد حضرات درپیش آنے والے مسائل کے دوران اپنے اوسان بحال رکھ پاتے ہیں؟ کیا پاکستان میں ہونے والے ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ یہاں کے مردوں کی ناقص ڈرائونگ نہیں ہے؟ کیا ہمارے سماج میں قوانین کی پابندی کا رواج ہے؟ دراصل مشکلات میں اوسان کا خطا ہونا ایک سماجی مسئلہ ہے اور اس کی وجہ عمومی طور پر لوگوں میں تربیت کی کمی ہی ہے۔ ہمارے سماج میں بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کے سائے تلے پروش دینا ایک معمول ہے اور یہ چیز ان کی صلاحیتوں پر بہت شدید اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کے ساتھ اگر ہم خواتین یا بچیوں کے ذہن میں ڈالے جانے والے خوف پر دھیان دیں تو ہمیں ان کے نازک مذاج ہونے یا ان کی صلاحیتوں کے مجروح ہونے کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ رہی بات اس امر کے پیچھے کسی بائیولوجیکل یا کوئی فزیالوجیکل عنصرکے ہونے کی تو آپ بہت آرام سے ان خواتین کو دیکھ سکتے ہیں جن کی پرورش ایک بہتر ماحول میں ہوئی ہو۔ رہی بات صرف خاص طور پر ڈرائونگ کی تو ترقی یافتہ ممالک میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ گاڑیاں چلاتی اور شائیں شائیں کرتی نظر آئیں گی۔ سوال یہ نہیں کہ خواتین کے اوسان مردوں کے مقابلے میں کیوں کمزور ہیں، سوال یہ ہے کہ صرف پاکستانی خواتین کے ہی اوسان کیوں خطا ہوتے ہیں؟

ابھی حال ہی میں سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر لگی پابندی اٹھائی گئی اور دیکھا گیا کہ وہاں بھی اس حوالے سے لوگوں کی رائے بٹی ہوئی تھی۔ ایک حلقہ وہ تھا جو قدامت پرست ہونے کے باعث یہ رائے رکھتا تھا کہ یہ سب غلط ہے، جبکہ دوسرے نقطہ نظر کے لوگوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کو مثبت قراردیا۔ شاید یہ ہمارے معاشرے کی محدود سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہم خواتین کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں کیونکہ ایک جاگیردارانہ سماج ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پدرسری نوعیت کا تھا اور اس میں زیادہ فصل پانے کے لئے زیادہ ورک فورس ہو نا ایک فیصلہ کن عنصر ثابت ہوتا تھا، جس کے لئے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا ضروری تھا، پھر اینٹی بائیوٹک یا کسی ہیلتھ کئیر تحقیق اور باضابطہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات عام تھیں اور یہ بھی ایک اہم وجہ تھی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرتے تھے اور خواتین کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ہی ان کا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔ اس وجہ سے جتنی جلدی بچی کی شادی ہو، اتنا ہی زیادہ عرصے تک وہ بچے پیدا کرنے کے قابل رہے گی۔ ہمارے معاشرے کے بڑے بڑے مفکرین اس امر اور سوچ کے آگے پست ہو گئے اور انہوں نے اس تبدیل ہوتے سماج کی طرف نہیں دیکھا جس نے پرانے پیداواری نظام کو تبدیل کر دینا تھا۔ اب جسمانی مشقت سے زیادہ ذہنی مشقت کی قدر کی جاتی ہے یعنی کہ ڈاکٹر، وکلاء، وغیرہ۔ لیکن یہاں کے مفکرین انیسویں صدی کی ابتداء تک خواتین کے کردار کو گھر کی چاردیواری اور بچے پیدا کرنے تک ہی محدود سمجھتے رہے اور ان کی تعلیم کو غیر ضروری قرار دیتے تھے، ماسوائے اسلامی تعلیم کے۔ اس چیز نے ہمارے معاشرے کی خواتین کو عمومی طور پر ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا، لیکن اس کے باوجود آپ کو ہر شعبہ زندگی میں ایسی خواتین ملیں گی جنہوں نے اپنا لوہا منوایا۔

دنیا اور پاکستان میں خواتین کی آبادی کا تناسب پہلے کی نسبت بہت تبدیل ہوگیا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2016 تک خواتین کی آبادی کا کل آبادی میں حصہ تقریباً پچاس فیصد تک پہنچ چکا تھا جبکہ پاکستان میں شرح تھوڑی کم 48.8 فیصد تھی۔ یہ ہماری ورک فورس کا آدھا حصہ بنتا ہے۔ ذرا سوچیے ایک ایسا آدھا حصہ جس کو ہم ڈرائیونگ تو درکنار اپنی مرضی سے جینے کا حق بھی نہیں دیتے، جو اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں پیدائیش سے لے کر موت تک دوسروں کی محتاج ہے۔ پھر نہ تو تعلیم ان کی پہنچ میں ہے نہ کوئی سماجی ادارے جو ان کی تربیت کرسکیں اس کے علاوہ ہمارا معاشرہ خود کفیل خاتون کے وجود سے خوف کھاتا ہے جیسے پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ انہی سے ہو، آپ اس کی مثال اس طرح لے سکتے ہیں کہ حال ہی میں سینسر بورڈ نےایک ایسی بھارتی فلم کی نمائش پر پابندی عائد کی جو خواتین کےسینٹری پیڈز پر بنائی گئی ہے یعنی کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک عورت کے وجود اور اس سے جڑے مسائل سے ایسے خوف کھاتا ہےجیسے اس کی نرم ونازک باگ ڈور خواتین کی ماہواری پر بات کرنے سے ٹوٹ جائے گی، لیکن شائد ایسا ہی ہے۔

اب اگر ہم ان عناصر کی طرف توجہ دیں جو ایک فرد کی upper mobilityکا تعین کرتے ہیں، تو ان میں ٹرانسپورٹیشن تک رسائی ایک اہم نقطہ ٹہرایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ تک آبادی کے ایک محدود حصے کی رسائی ہے اور اگر ہے بھی تو کچھ عرصہ پہلے سینٹر فار اکنامک ریسرچ فار پاکستان کی طرف سے کئے جانے والے سروے میں یہ انکشاف کیا گیا کہ خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ پر جنسی ہراسانی اور جگہ کی کمی سے درپیش مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سروے میں پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں خود مرد حضرات کا یہ کہنا تھا کہ وہ اپنی عزیز رشتہ دار خواتین کا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا پسند نہیں کرتے، پھر پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال نچلے درجے کے سٹیٹس سے وابستگی کی علامت بن چکا ہے۔ ان سب چیزوں کی وجہ سے خواتین کے کام کرنے کی صلاحیت بہت شدید متاثر ہو رہی ہے، اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو اس کا حل سکوٹی یا موٹر سائیکل کی صورت میں موجود ہے۔ لیکن میں کون ہوں خواتین سے جڑے معاملات کا فیصلہ لینے والا؟ میری بیوی قابل بھی ہے، ہنرمند بھی اور معاشی و سماجی طور پر خود مختار بھی لیکن میری بیوی جیسی خواتین آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ منٹو نے اپنے ایک افسانے میں لکھا تھا کہ ہم کسی خاتون کو ٹانگہ چلاتے نہیں دیکھ سکتے لیکن اس کو کوٹھے پر بٹھا سکتے ہیں۔ یہ جو نام نہاد غیرت کے رکھوالے ہیں جو خود مختار خواتین کے تصور سے ڈرتے ہیں اور اس تصور کے خلاف چہ مگوئیاں کرتے ہیں ان سے کوئی یہ پوچھے کہ آج کے معاشرے میں ایک ڈری سہمی خاتون جس کے پاس کوئی ہنر اور تعلیمی قابلیت نہ ہو تو اس کو زندگی گزارنے کے لیےیہ معاشرہ کس طرح کے مواقع دے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).