نوشی گیلانی سے مکالمہ۔۔۔۔ (1)


س۔ نوشی گیلانی صاحبہ آپ کا ریڈیو پاکستان آمد کا بے حد شکریہ۔ کیسا محسوس ہو رہا ہے؟

ج۔ بہت شکریہ مجھے اس ادارے میں مدعو کرنے کا کہ یہاں سے میرے سفر کا ایک طرح سے آغاز ہوا تھا اور اپنی یادوں کا تسلسل دیکھوں تو وہاں پہنچ گئی ہوں کہ جو میری ادبی زندگی کا پہلا سنگِ میل تھا۔ ریڈیو پاکستان بہاولپور۔

س۔ آج کتنے عرصے بعد ریڈیو پاکستان بہاولپور آپ کا آنا ہوا ہے؟

ج۔ تقریباَ پندرہ سال گزر گئے ہیں یہاں ریڈیو پاکستان بہاولپور آئے بغیر کافی لمبا عرصہ تھا کچھ بھی وجہ بن جاتی تھی اور پھر آنا رہ جاتا تھا لیکن اس بار میرا خیال ہے کہ جس طرح سے آپ نے Invite کیا ہے تو بڑا مشکل تھا کہ کوئی عُذر نکالا جائے لیکن بہت اچھا لگ رہا ہے یہاں آکر۔

س۔ جب آپ نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تو بہاولپور کی ادبی فضا کیسی تھی؟ دنیائے ادب کی کہکشاں میں کون کون سے ستارے جگمگا رہے تھے؟

ج۔ میں اگرماضی میں جھانکوں تو مجھے لگتا ہے کہ بہاولپور کی جو ادبی فضا تھی جب ہم یہاں پر شعور کی منزلیں طے کر رہے تھے وہ آج کی ادبی فضا سے کہیں زیادہ با رونق اور با معنی تھی۔ ظہور نظر موجود تھے یہاں محمد خالد اختر موجود تھے۔ تو ہمارے لئے ایک شعری اور ادبی فضا پہلے سے موجود تھی اور شعری فضا کے جتنے بھی لوازمات ہوتے ہیں یعنی ادبی مباحث اور تنقیدی نشستیں وہ سب موجود تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ پریس کلب میں ہر ہفتے مجید گِل ایک تنقیدی نشست کا اہتمام کرتے تھے اس کے علاوہ شہر کی دیگر مختلف تنظیمیں بھی تنقیدی نشست کرتی تھیں اُن دنوں میں۔ تو اس لئے جب میں پیچھے مڑ کر دیکھوں تو مجھے لگتا ہے کہ اگر میں بہاولپور کی فضاؤں میں نہ ہوتی تو شائد میری شاعری کا سفر اتنے تسلسل سے تین دہائیوں تک جاری نہ رہ سکتا تھا کیونکہ میری ابتدائی تربیت اس انداز سے ہوئی ایسے لوگوں کے ذریعے ہوئی والدین تو کرتے ہی ہیں۔ والدین تو میرا حوصلہ بھی تھے۔ میرا وقار بھی تھے اور ان کی جو تربیت تھی وہ تو شامل ہی تھی لیکن شہر کی جو ادبی فضا تھی وہ بھی مستحکم تھی اگرچہ تب خواتین بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ لیکن پھر بھی خواتین میں بشریٰ رحمان کا نام تھا اور فن کے حوالے سے عظمٰی گیلانی کا نام موجود تھا تو ہمارے لئے یہاں پر رول ماڈلز موجود تھے۔

س۔ آپ نے ابھی ظہور نظر اور محمد خالد اختر کا ذکر کیا جن میں سے ایک کا شمارشاعری کے اور دوسرے کا نثر کے میدان کے درخشندہ ستاروں میں ہوتا ہے تو ان دونوں بڑی ادبی شخصیات کی موجودگی میں آپ نے یہ کیسے فیصلہ کیا کہ نثر کی بجائے شاعری کو مشقِ سخن بنانا ہے؟

ج۔ دیکھیں یہ شاعری اصل میں خود فیصلہ کرتی ہے کہ اس نے کسے منتخب کرنا ہے۔ فن کا کوئی بھی شعبہ ہو ہم فیصلہ نہیں کر سکتے مجھے لگتا ہے کہ میری جبلت میں یا مجھ میں فطری طور پر شاعرانہ بہاؤ موجود تھا یا میرا شاعرانہ مزاج زیادہ تھا اور آپ یقین کریں کہ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہم دوزانو ہو کر بیٹھتے تھے ان کی باتیں سنتے تھے۔ تب محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ شہاب دہلوی تھے جوادبی سہ ماہی پرچہ ”الزبیر“ نکالا کرتے تھے تھا اورپھر ہم محمد خالد اختر کے پاس جایا کرتے تھے اور تب یہ فضا تھی کہ نوجوان کسی طرح کی نرگسیت کا شکار نہیں ہوا کرتے تھے کہ دو شعر کہے اور اس کے بعد اپنے آپ کو یہ سمجھا کہ بس جی ہم مکمل ہوئے ہمارا کام ہو گیا۔ ایسے نہیں تھا پھر ہم یہاں ریڈیو پاکستان آتے تھے، بیٹھتے تھے۔ ریڈیو پاکستان کا جو سب سے بڑا Contribution تھا کہ یہاں ریڈیو پر نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ہر ہفتے ایک ادبی محفل ہوتی تھی۔

س۔ اس وقت آپ ریڈیو پاکستان بہاولپور کے اسٹوڈیوز میں تشریف فرما ہیں، تو کن کن ساتھیوں کا خیال آ رہا ہے؟

ج۔ مجھے بتول رحمانی کا خیال آرہا ہے پھر مسّرت کلانچوی جن کی تخلیق تھی”ڈکھن نمانیاں“ اور پھر ان کے خاوند اسلم ملک بھی ہوا کرتے تھے حالانکہ ”امروز“ سے ان کی وابستگی تھی مگر ان کا بھی ریڈیو پر باقاعدگی سے آنا جانا ہوتا تھا۔ تو ایک طرح سے چوپال تھی یہ ادبی چوپال بھی بنی ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ ظہور نظر اگرچہ ان کے مزاج میں ذرا تیزی اورشدت پسندی تھی مگر کیونکہ میرے والد صاحب اور وہ آپس میں دوست تھے تو ابتدا میں جب میں نے غزلیں کہیں بہت ہی میں چھوٹی تھی تو میرے ابو نے یہ محسوس کیا کہ اس کو تھوڑی رہنمائی کی ضرورت ہے تو انہوں نے ظہور نظر صاحب سے کہا اور ظہور صاحب نے مجھے کہا کہ نہیں نہیں رہنے دو تمھارے کرنے کا کام نہیں ہے۔ لیکن جب تھوڑا وقت گذر گیا تو انہوں نے مسکرا کر آمادگی ظاہر کی۔ اس زمانے میں یہ بہت ہوتا تھا کہ اگر آپ کے جو مشاہیر ہیں جو آپ کی بزرگ ہیں اگر وہ مسکرا بھی دیتے تھے تو ہمیں لگتا تھا کہ لو جی یہ ہمارا بہت بڑا انعام ہے۔

س۔ آپ نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ اردو میں درس و تدریس کے فرائض بھی سر انجام دیئے وہ تجربہ کیسا رہا؟

ج۔ میں اگر شاعری کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھوں تو مجھے لگتا ہے کہ میرا پڑھانے کا، تدریس کا جو شعبہ تھا اس سے بہتر کوئی پروفیشن نہیں تھا اور وہ Passion بھی تھا۔ یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے کہ جو آپکا پروفیشن ہو وہ آپ کا Passion بھی ہو تو وہ ایک بہت ہی خوبصورت تجربہ رہا۔ اور اب بھی کبھی میں ایک دو دن کے لئے بہاولپورآؤں تو کیمپس ضرور جاتی ہوں۔ اور وہ جو میری ایک Spirtual Knot اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ہے وہ اتنی گہری ہے کہ شہر بہاولپور کا مطلب ہے کہ ہماری یونیورسٹی اور وہ بہت ہی اچھا تجربہ تھا جس نے مجھے مزید علم حاصل کرنے پر، اسے سمجھنے، ادب کی فہم و تفہیم اور پھر اس کے فروغ کے لئے بہت کچھ کرنے میں ایک طرح سے میری تربیت کی۔

س۔ کتنا عرصہ آپ بطور استاد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے منسلک رہیں؟ تو بعد میں بھی یہ تسلسل رہا؟

ج۔ میں نے تقریباَ سات برس پڑھایا اور پھر اس کے بعد میں امریکہ چلی گئی تو امریکہ میں جو ساؤتھ ایشین اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ ہے مختلف یونیورسٹیز کے اور پھر ان کے سب اسکولز میں تو وہاں پر Encourage کیا جاتا ہے اور ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والوں کو تو وہاں پھر طلبہ کو میں مختلف صورتوں میں پڑھاتی رہی ہوں۔ اگرچہ وہ بڑا پرائمری لیول ہوتا ہے لیکن کسی نہ کسی طرح سے وہ تسلسل قائم رہا۔

س۔ جب آپ نے شاعری کا آغاز کیا تو اس زمانے میں خواتین شاعرات کی تعداد کم لیکن ان کی شاعری کا معیار نہایت عمدہ تھا جبکہ اب خواتین شاعرات کی تعداد زیادہ اور ان کی شاعری کا معیار کچھ کم ہوا ہے؟ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

ج۔ دیکھیں میرا یہ خیال ہے کہ ہر عہد کے کچھ آشوب ہوتے ہیں اور کچھ اس کے روشن پہلو ہوتے ہیں اب یہ عہد ہی زوال کا ہے۔ آپ معاشی سطح دیکھ لیں، آپ معاشرتی سطح دیکھ لیں، آپ کسی بھی سطح پر دیکھ لیں معاشرہ ایک طرح کے زوال کا شکار ہے اور ادیب اور شاعر تو بہت حساس ہے تو وہ بھی تو اسی معاشرے کی عکاسی کرے گا نا۔ ایک وجہ یہ ہے جبکہ دوسری وجہ وہی ہے کہ یہ جو فن ہے یوں تو ہر طرح کا فن اور بالخصوص شاعری آسمانوں سے ودیعت کی گئی طاقت ہے اور شاعری سے عشق کے بغیر اس کا تسلسل نہیں ہو سکتا۔ اور یہ آپکی زندگی کا اگر سب سے بڑا عشق نہیں ہے تو پھر کچھ عرصے میں چیزیں تھکنے لگ جائیں گی آپ کے لئے سفر مشکل ہو جائے گا ترجیحات بدل جائیں گی یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

س۔ جب آپ پر آمد ہوتی ہے تو اس وقت کیا کیفیت ہوتی ہے؟

ج۔ اس حوالے سے میں آمد کے معاملے میں بڑی خوش قسمت ہوں۔ میں سفر کر رہی ہوں شعر کہہ رہی ہوں، کھانا بنا رہی ہوں شعر کہہ رہی ہوں، باتیں کر رہی ہوں شعر کہہ رہی ہوں تو میری آمد کے لئے ضروری نہیں ہے کہ میں کوئی خیمہ الگ سے لگاؤں ایسا ہو جائے تو بہت اچھا ہے لیکن مجھے متحرک رہنا ہوتا ہے اگر مجھے شعر کہنا ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ لوگ بیٹھ جاتے ہیں پرے اور پھر اس کے بعد باقاعدہ لکھتے ہیں اور میں اگر بیٹھی بھی ہوں تو مجھے قیام نہیں ہے اگر میں شعر کہنے کی کیفیت میں ہوں تو مجھے تحرک میں رہنا ہے اور اس کے لئے مجھے لگتا ہے کہ سفر میرا سب سے پسندیدہ موسم ہے۔

س۔ یہ سفر اردو والا ہے یا انگریزی والا؟

ج۔ (قہقہ لگاتے ہوئے )اردو والا۔ انگریزی والا تو میں Acknowlege ہی نہیں کرتی۔

س۔ آپ پردیس میں رہتی ہیں اور عالمی مشاعروں میں مسلسل شرکت کے باعث ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے شعرا سے رابطے میں رہتی ہیں تو آپکی نظر میں اچھی شاعری ہندوستان میں ہو رہی ہے یا پاکستان میں؟

ج۔ دیکھیں اگر معیار کی بات ہے نا تو شعر پاکستان میں بہت مستحکم، بہت با معنی اور سنجیدگی سے کہا جا رہا ہے۔ اگرشاعری کے حوالے سے معیار کی بات کریں کیونکہ اللٰہ تعالٰی شاعری کے حوالے سے بہت ساری دنیا دیکھنے کا موقع دے رہا ہے ایک طرح سے تو بھارت میں خاص طور پر ایسا ہے کہ وہاں پر شاعری انٹرٹینمنٹ ہے وہاں معیار متاثر ہوا ہے وہاں وہ ایک سنجیدہ عمل ہوتے ہوئے بھی غیر سنجیدہ عمل ہے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پاکستان میں اور بالخصوص پاکستان کے مضافات میں بہت ہی عمدہ شعر کہا جا رہا ہے۔

س۔ کیا شہرت کے حصول کے لئے بڑے شہروں میں سکونت اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ چھوٹے شہروں اور مضافات میں رہنے والے شعرا اور ادبا کا یہ شکوہ ہوتا ہے کہ ان کو مضافات میں رہنے کے باعث ان کا جائز مقام نہیں ملتا؟

ج۔ دیکھیں اس میں سجاد ایسا ہے کہ ہر ایک بندے کی نا اپنی ایک رائے ہوتی ہے اس حوالے سے۔ میرے نزدیک نام آوری جو ہے نا وہ اللٰہ کا ایک کرشمہ ہے ایک مصرعہ بھی نام آور کر دیتا ہے عمر بھر کی ریاضت بھی کہیں شمار نہیں ہوتی تو خدا نے اگر آپ کے مقدر کا ستارہ ایسا رکھا ہے تو وہ آپ کہیں بھی ہیں آپ کی آواز نام آور ہو گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ آپ کام کتنی سنجیدگی سے کر رہے ہیں آپCommitted  کتنے ہیں؟ آپ کا Commitment کیا ہے؟ اور اگر ادبی فضا بنی ہوئی ہے پورا ماحول ہے اگر ہم لوگ اس حوالے سے دیکھیں کہ جی اگر ہم لاہور میں ہوتے تو لاہور میں بھی بہت سے ادیب ہیں جن کو کوئی نہیں جانتا اُس حوالے سے۔ مگر وہ بہت اچھا شعر کہہ رہے ہیں ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مواقع کے حوالے سے ہم Definately  جو مضافات کے ادیب ہیں وہ نظر انداز ہوتے ہیں مگر اس سے ان کا شعر چھوٹا نہیں ہوتا ان کا کام چھوٹا نہیں ہوتا،نا ہونا چاہیے اور یہ اندر کا اطمینان ہے کہ اگر کوئی شعر آپ کے اندر ایک اطمینان چھوڑ جاتا ہے نا تو یہ پہلی کامیابی یہ ہے اور یہ کوئی ضروری نہیں۔ لاہور میں کتنے لوگ ہیں ؟آپ زیادہ سے زیادہ 50 لوگ نکال لیں گے جو نام آور ہوں گے لیکن وہاں تو بہت سے لوگ شعر کہہ رہے ہیں تو یہ تو کوئی اہم بات نہیں ہے۔

س۔ آج کل ہندوستان اور پاکستان میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ خصوصاََ خواتین شاعرات اپنی شاعری کو مقبول بنانے کے لئے اس کے معیار کی بجائے دیگر لوازمات کا سہارا لے کر راتوں رات مقبول ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

ج۔ میں اسی کی بات کر رہی تھی کہ دیکھیں نا کیونکہ میں تو ظاہر ہے کہ عمر کے اُس حصے میں بھی ہوں اور جس روایت کے ساتھ منسلک ہوں ہم تو اب اولڈ فیشن لوگ ہیں قدیم روایت کے لوگ ہیں کیونکہ اب تو ہمارا شمار بھی ان ہی میں ہوتا ہے مگر شاعری کی اصل روایت بھی تو وہ ہی ہے یہ جو ہے شاعری کا نمائشی انداز یہ کسی طرح بھی شاعری کے لئے کچھ اعلٰی و ارفع ماحول نہیں پیدا کر رہا نا اس سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے اور اگر کوئی بھی شخص مرد یا عورت وہ اپنی شاعری کو اپنی نمائش کے لئے استعمال کر رہا ہے تو وہ کوئی اور کام بے شک کر رہا ہو وہ اچھا شاعر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ بغیر ظرف اور وقار کے شعر و ادب کا لہجہ مکمل نہیں ہوتا۔

س۔ ایک زمانہ تھا کہ شاعر تمام عمر معیاری شاعری کرنے کے باوجود اپنا مجموعہ کلام شائع کرانے کی ہمت نہیں کر پاتا تھا جبکہ آج کل لوگ دھڑا دھڑ اپنے غیر معیاری کلام کو کتابی صورت میں شائع کروا کر ردی کے وزن میں اضافہ کرتے رہتے ہیں؟اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گی؟

ج۔ دیکھیں وہ جو ہمارا زمانہ تھا نا اس وقت تو پیسے ویسے اتنے ہوتے نہیں تھے ہم لوگوں کے پاس۔ چھوٹی چھوٹی تنخواہیں ہوتی تھیں اس میں تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہم جیسے بھی اپنا مجموعہ شائع کروا سکیں گے۔ لیکن اب بہت عرصے سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ لوگ اپنے پیسوں سے مجموعے چھپوا لیتے ہیں جو مفت تقسیم بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ میری کتاب دو تین پبلشرز میں سے ایک پبلشر نے چھاپی۔ اُنہوں نے انتخاب کیا میری کتاب کا اور پھر مجموعہ دیکھا تو بہت ہی اچھا لگا کہ بھئی مجموعہ آگیا ہے اور اسے خود چھاپنا ممکن ہی نہیں تھا اور وہ ایک اپنی پہلی تخلیق کو اس طرح کتابی صورت میں دیکھنا بہت ہی خوبصورت تجربہ تھا۔ مجھے اب تک یاد ہے جب مجھے وہ پیکٹ ملا میں اپنی کتاب لے کر اپنے والد صاحب کے پاس گئی۔ اگرچہ میری ماں کا بہت بڑا کردار ہے میری شخصیت سازی میں مگر میں سمجھتی ہوں کہ میری شاعری میں جو بھی اللٰہ تعالٰی نے مجھے قدوقامت دیا وہ میرے والد کے حوصلے کے بغیر ممکن نہیں تھا تو ابو جی کے پاس میں جب اپنی کتاب لے کر گئی اور میں نے کہا کہ ابو یہ کتاب ہے اور جس طرح ان کا چہرہ چمکا وہ میرے لئے سب سے بڑا Pride Of Performance تھا اور وہ ایک ایسا لمحہ ہے کہ جس کو لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جس طرح روشنی کا خزانہ آپ کے ہاتھ میں آگیا اور اس زمانے میں کتاب کی یہ اہمیت تھی یہ 90ء یا 91ء کی بات ہے۔

س۔ اب تک آپ کے کتنے مجموعہ کلام آ چکے ہیں؟َ

ج۔ میرے اب تک چار مجموعے آ چکے ہیں پانچواں جو ہے نا وہ ابھی زیرِ ترتیب ہے۔ مجھے ابھی تک نا ڈر لگتا ہے کہ کوئی کچی پکی بات نہ ہو جائے تو مجموعے بہت سوچ کر شائع کرانے کی ہمت کرتی ہوں یعنی تقریباَ آٹھ سال میں ایک مجموعہ۔

س۔ اُف آٹھ سال میں ایک مجموعہ۔۔ جبکہ آج کل تو کچھ شعرا ایک سال میں آٹھ شعری مجموعے منظرِعام پر لے آتے ہیں؟

ج۔ (قہقہہ لگاتے ہوئے) تول تول کر شاعری ہم سے کہاں ہوتی ہے ایک مصرعہ جو ہے بعض اوقات کئی کئی راتیں لے جاتا ہے تو اس لئے آہستہ آہستہ، آہستگی کے ساتھ تخلیق ہوتی ہے اور میں جب مجموعی کلام ترتیب دے رہی ہوتی ہوں تو بہت بڑا شاعری کا حصہ میں ایک طرف رکھتی ہوں اور ایک خاص طرح کا انتخاب کرتی ہوں کیونکہ ہم نے احمد ندیم قاسمی کو دیکھا۔ ہم نے بڑے بڑے جو ہمارے شاعرادیب تھے ہم نے ان کو دیکھا کہ وہ کس طرح اپنے مجموعہ کلام کو شائع کرواتے ہوئے کتنا ڈرتے تھے۔ لفظ کی حرمت کا خیال رکھتے تھے تو وہی کچھ ہمیشہ سے ذہن میں رہا کہ کہیں نام متاثر نا ہو جائے، شہرت متاثر نا ہو جائے، شاعری نا متاثر ہو۔

(جاری ہے)

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz