بنام مرشد نازک خیالاں ۔۔۔۔ (2)


بنام مرشد نازک خیالاں ۔۔۔۔ (1)

\"wajahat\"مجوزہ ضابطہ حیات کی تشریح میں ہمارے ممدوح خاکوانی صاحب نے تصور علم کا ذکر بھی کیا ہے اور اس ضمن میں نکات اٹھائے ہیں کہ \”علم کی کسی مسلمان اور اسلامی ریاست کے نزدیک کس قدر اہمیت ہونی چاہیے، علمی فضا، اہل علم کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے۔ علمی مہارت رکھنے والے اہل علم کی کس قدر توقیر کی جائے\”۔ گزارش یہ ہے کہ علم جدید انسانی معاشرے میں ایک متحرک اجتماعی عمل ہے جو معیشت، معاشرت اور سیاسی بندوبست کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ علم دربار میں کسی عالم کے احترام کا معاملہ نہیں ہے۔ علم وہ روشنی ہے جس کی رہنمائی میں ریاست آگے بڑھتی ہے۔ ریاست علم کے پھیلائو اور سمت کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ علم ریاست کے تابع نہیں ہوتا۔ کسی خلیفہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ایک دن کسی پسندیدہ علم کو دربار میں اعلیٰ منزلت عطا کرے اور دوسرے دن اس کی سر بازار پٹائی کر کے قید خانے میں ڈال دے۔ علم کی آزادی خیال، تدریس اور اظہار کی آزادیوں سے جڑی ہوئی ہے اور ان آزادیوں کو بالا دستی دیئے بغیر کوئی معاشرہ ترقی کی دوڑ میں دوسری ریاستوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

محترم خاکوانی صاحب نے بتایا ہے کہ کچھ کمیونسٹوں کا یہ کہنا ہے کہ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں کمیونزم ناکام نہیں ہوا بلکہ کمیونسٹ ناکام ہوئے تھے۔ یقیناَ ایسا موقف رکھنے والے کچھ افراد سے خاکوانی صاحب کی ملاقات ہوئی ہوگی اور اپنے موقف کا دفاع کرنے کی ذمہ داری بھی ان افراد ہی پر عائد ہوتی ہے۔ درویش کی رائے یہ ہے کہ جب کوئی معاشی اور سیاسی نظام ناکام ہوتا ہے تو دراصل اس نظام کے بنیادی اصول نظر ثانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسی اصول کی توسیع مین برادر محترم نے فرمایا ہے کہ \” اگر ہم اسلام کے تصور معاشرت، اخلاق، علم ،شہریت اور معیشت کو واضح سٹرکچرڈ شکل میں جدید دور میں پیش نہیں کر پائے تو اس کا مطلب نئے سرے سے ، درست سمت میں بھرپور انداز سے محنت کرنا ہے نہ کہ اسلام ہی کو لپیٹ کر طاق نسیاں میں رکھ دینا ہے\”۔   ایک اسلامسٹ ہوتے ہوئے خاکوانی صاحب کو اس نصب العین کی طرف بھرپور انداز میں پیش رفت کا حق حاصل ہے تاہم خیال رکھنا چاہئے کہ دنیا میں ساڑھے پانچ ارب انسان ایسے بھی ہیں جو خاکوانی صاحب کے اس نصب العین میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

خاکوانی صاحب نے وسعت قلبی سے کام لیتے ہوئے اسلام ازم سے اختلاف رکھنے والے مسلمانوں کی تکفیر سے انکار کیا ہے تاہم انہوں نے اسی سانس میں ریاست کو تکفیر کا حق بھی دیا ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ فرد اپنے عقیدے کا تعین کرنے، اسے قبول کرنے اور اس کی پیروی کرنے کا مطلق حق رکھتا ہے۔ ریاست کا کام شہریوں کے آزادیِ مذہب کے حق کا تحفظ کرنا ہے۔ تکفیر ریاست کا منصب نہیں ہے۔ تکفیر کے راستے پر چلنے والی ریاست نہ صرف اس عمل کا نشانہ بننے والے شہریوں کی بیگانگی اور مخاصمت کا نشانہ بنتی ہے بلکہ ترجیحی گروہ میں بھی تکفیر در تکفیر کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسی ریاست تباہی کا نسخہ ہے اور ایسے سیاسی بندوبست کی مخالفت کرنا ہر انسان کا حق ہے۔

محترم بھائی عامر خاکوانی نے قرار داد مقاصد کو مملکت پاکستان کی \’مشن سٹیٹمنٹ\’ قرار دیا ہے۔ اگر یہ رائے درست ہے تو پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں کو یہ مشن سٹیٹمنٹ قیام پاکستان سے پہلے واضح کرنی چاہئے تھی۔ 23 مارچ 1940 کی قرار داد میں \”حاکمیت اعلیٰ\” کی بنیاد پر شہریوں میں امتیاز کرنے والی اس مشن سٹیٹمنٹ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اپریل 1941 میں مسلم لیگ نے اپنے پٹنہ اجلاس میں مطالبہ پاکستان پر مبنی نصب العین کا اعلان کیا تو اس مشن سٹیٹمنٹ کو بیان نہیں کیا بلکہ مسلم لیگ نے باقاعدہ طور پر اعلان کیا کہ پاکستان کی مجوزہ مملکت میں مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ جولائی 1946 میں مسلم لیگ نے قرارداد لاہور پر نظر ثانی کی تو خاکوانی صاحب کی پسندیدہ مشن سٹیٹمنٹ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ تین جون  1947 کو مسلم لیگ نے تقسیم ہند کا منصوبہ منظور کیا تو اس مشن سٹیٹمنٹ کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ 19 جولائی 1947 کے قانون آزادی ہند میں اس مشن سٹیٹمنٹ کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی ریاست کا باقاعدہ افتتاح کیا تو اس مشن سٹیٹمنٹ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ جو لوگ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں یا کسی بھی طریقے سے پاکستان کے شہری ہیں انھیں کسی ایسی مشن سٹیٹمنٹ کو تسلیم کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جسے اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ کے طالب علموں کی تقریروں سے یا انتخابی جلسوں سے استنباط کیا جاتا ہو۔

برادر عزیز خاکوانی صاحب فرماتے ہیں کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947 کی تقریر کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ خاکوانی صاحب سے التماس کیا جانا چاہئے کہ قائداعظم کی تقریر میں ان جملوں کی نشاندہی کریں کہ جن کی غلط تشریح کی جاتی ہے نیز یہ کہ کم علم شہریوں کو اس تقریر کے درست مطالب، معانی اور مفاہیم سے بھی آگاہ کریں۔

برادر محترم خاکوانی صاحب نے بالکل درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان سیکولرازم کی حمایت اس لئے کرتے ہیں کیونکہ بھارت میں سیکولر ازم کا متبادل ہندو بھارت ہے۔ ان سے اس وضاحت کی درخواست کرنی چاہئے کہ علم سیاسیات کے کن اصولوں کی بنیاد پر ہندتوا اور اسلام ازم میں امتیاز یا فرق کیاجاسکتا ہے؟ کس بنیاد پر ہندو بھارت کو مسترد کیا جائے لیکن پاکستان کے اسلامسٹ تصور کو گلے لگایا جائے؟

دوسروں کے عقائد کو بیان کرنے کے فراواں شوق میں محترم بھائی نے ماضی کے کمیونسٹوں اور آج کے سیکولر افراد کے درمیان امتیاز کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ درویش نہایت ادب سے عرض کرتا ہے کہ گزشتہ پینتیس برس میں سیاست کے طالب علم کی حثیت سے اسے آج تک کسی ایسے کمیونسٹ سے ملنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی جو خود کو سیکولر نہ کہتا ہو۔ ماضی کے کمیونسٹ اور آج کے کمیونسٹ سیکولر تھے اور ہیں۔ آج کے لبرل ماضی میں جو بھی سیاسی شناخت رکھتے تھے، بہر صورت سیکولر تھے۔ کمیونزم یا جمہوریت میں انتخاب کا تعلق سیکولرازم کو اختیار کرنے یا رد کرنے سے نہیں ہے۔

اپنی سلیس اور شائستہ تحریر کے آخری پیرا گراف میں عزیز محترم عامر ہاشم خاکوانی نے درست فرمایا ہے کہ سیاسی بحث مباحثے میں غیر متعلقہ، طنزیہ اور حقارت آمیز لطائف و اشارات سے گریز کرنا چاہئے۔ واقعتاَ سیاسی مکالمے میں طنز و تشنیع مناسب بات نہیں ہے۔ ہمیں اپنی تحریروں میں قطعیت سے گریز کرنا چاہیے۔ محترم بھائی عامر ہاشم خاکوانی کو بھی ہر تحریر میں یہ کہنے سے گریز کرنا چاہئے کہ اس موضوع پر یہ ان کی آخری تحریر ہے۔۔۔ اس طرح کے بیانات سے غیر ضروری تفاخر، ادعائیت اور حتمیت کا اظہار ہوتا ہے۔ آج کے حریف کسی بدلی ہوئی صورتحال میں دوست ہوسکتے ہیں اور جو آج دوست ہیں، ان سے آئندہ اختلاف کا امکان موجود رہتا ہے۔ سیاسی مکالمے میں کوئی دلیل حتمی نہیں ہوتی، عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments