منو بھائی کیا رخصت ہوئے، ہم مختار صدیقی کی برسی بھول گئے


لاہور میں ادب کا میلہ لگا۔ اہل لاہور کو دو روز تک شائستہ موضوعات پر اہل نظر کی گفتگو سے استفادے کا موقع ملا۔ ایک سنجیدہ تمدنی سرگرمی کے طور پر ادب کی بحالی میں یہ ادبی میلے ایک اہم روایت کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کچھ حلقوں میں اس نوع کا گلہ سننے میں آ رہا ہے کہ ان ادبی میلوں میں انگریزی زبان میں لکھنے والوں ادیبوں اور ان کی تخلیقات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ خاکسار کی رائے میں یہ تاثر اس وجہ سے ہے کہ ہم پاکستان کے بدلتے ہوئے علمی اور تخلیقی منظر سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ گزشتہ صدی کے وسطی برسوں تک جو طبقہ اردو میں تخلیقی اظہار کر رہا تھا ، اب اس کے بچے لسانی اور تخلیقی طور پر وسیع تر میدانوں کی طرف نکل گئے ہیں۔ دیکھئے ن م راشد کے صاحبزادے شہریار راشد انگریزی میں شاعری کرتے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے اپنے بچے ان کی کتابیں پڑھنے سے قاصر ہیں۔ یہ کچھ ایسی خوشگوار صورت حال تو نہیں لیکن اسے سماجی ارتقا کی حرکیات سمجھنا چاہئے۔ سو برس پہلے ہم میں بہت سوں نے اپنی مادری زبانیں چھوڑ کر اردو کو اپنایا تھا ۔ فارسی زبان و ادب سے تعلق آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ معاشرے کا علمی ارتقا کسی سرکاری فرمان کی مدد سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ فنکار کے اظہار کو کسی نظریاتی یا سیاسی تقاضے کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ اردو زبان میں اعلیٰ ادبی تخلیقات کو نظر انداز کرنا تو اب بھی ممکن نہیں ۔ اسد محمد خان، مستنصرحسین تارڑ اور ظفر اقبال تو اب بھی جہاں ہوں گے، میلہ لوٹ لیں گے۔ محض اردو زبان کی دھونس دے کر تو قبول عام کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر لکھنے والا پاکستانی ہے تو کسی زبان میں بھی لکھے، اس زمیں کی خوشبو تو اس کے لفظ سے آئے گی۔ ادب میں داخلی توانائی ہو تو اسے کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اب دیکھئے، یکم مارچ کو مختار صدیقی کی برسی تھی۔ منو بھائی حیات ہوتے ، تو انہوں نے کس محبت سے اس شاعر کو یاد کیا ہوتا جس نے لکھا تھا، چشم براہ تھی، دیکھئے! ہم کو چاہنے والے کب چاہیں …. اس برس 19جنوری کو منو بھائی بچھڑ گئے اور یہ کہ ہمیں مختار صدیقی کی برسی بھول گئی۔ تاہم مختار صدیقی کا ادبی مقام ایسا ہے کہ انہیں محض ادبی تاریخ کے حاشیے تک محدود کرنا ناانصافی ہو گی۔ انہیں سنجیدگی سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔


فیض ، راشد اور میرا جی۔ اردو ادب کے تن آسانوں کے لیے بنی بنائی تکون تھی۔ فن کی بستی عجیب بستی ہے ۔ یہاں قبول و استرداد کی سرحدیں اس طور گڈمڈ ہوتی ہیں کہ احوال حقیقی کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں۔ اب وہ قطرے گن جایئے جو دریا ہوتے ہوئے خاک کا رزق ہوئے۔ حفیظ ہوشیارپوری، انجم رومانی، مختار صدیقی، اختر حسین جعفری اور محبوب خزاں، کیسی ٹکسالی کہکشاں تھی، جلو میں شہرت بخاری، قیوم نظر ، یوسف ظفر اور عبیداللہ علیم جیسی مہتابیاں۔ مختار صدیقی؟ مختار فنافی الشعر، مختار فنافی الذات۔ اردو شعر کو ہیئت نظم کے ایسے عشاق کم ملے ہوں گے۔ جائے پیدایش گوجرانوالہ، تعلیم کانونٹ میں اور تربیت شعرِ فارسی میں ۔ لاہور پہنچے ، صبح گورنمنٹ کالج میں اور شام حلقہ ارباب ذوق کے نام جہاں بھگت رس میرا جی ایک نسل کی شعری تربیت کر رہا تھا ۔ بھرے تھے یہاں چار سمتوں سے دریا ۔
تمول میں پلے بڑھے نوجوان کے لیے عملی زندگی کا آغاز توقع سے زیادہ سرگراں رہا۔ ایک آنچ تو وہی حافظ کی دین تھی ۔ بعشقم آشنا کن، دوسرے فرعون روزگار۔ اقدار کی ڈھیتی محل سرا اور سیاست کے جہاں آباد میں آلام کی برکھا۔ میر اور میرا بائی کی روایت میں کڑھے ہوئے مختار نے دکھ کی مالا گلے میں آویزاںکرنے کی بجائے ذات کی کٹھالی میں ڈال دی ۔ جوگ لیا پر قائم رکھا پردہ دنیا داری کا ۔ دہلی ریڈیو سٹیشن پر امی جمی ہو رہی تھی۔ ذوالفقار بخاری پیرِ مغاں تھے ، سرخ بتی کے اشارے پر سحاب قزلباش بولتی تھیں ۔ راشد اور میرا جی تھے ۔ منٹو، کرشن چندر اور اشک تھے ۔ استاد عبدالکریم اور استاد فیاض خان تان اڑاتے تھے ۔ ڈرامہ رفیع پیر کرتے تھے ۔ ہائے ری دیا ، کہاں ہیں وہ لوگ ! یہیں مختار کی داخلی تثلیث، لاگ، بیراگ اور راگ نے جلا پائی۔ یہیں مختار نے راگوں پر اپنی شعلہ بجاں نظمیں کہیں ۔ یہ نظمیں اردو ادب میں جدید طرز احساس ، روایت اور ہنر کے پختہ امتزاج کی نقیب تھیں ۔ ”راگ درباری “ کی تکمیل میں ایک برس صرف ہوا ۔ ”موہنجو داڑو“ اور ”ٹھٹھہ “جیسی تخلیقات کا یہ عہد گویا ”باز یافتہ“ کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔ کس خرابے میں مجھے چھوڑ گئی درباری!


مختار نے جذب تمنا کے رس میں غزل کا جادو جگایا ۔ وہی لگن اور ضبط کا تنا ہوا رسا ، ہنر کی ریت دھرتی پر روایت کا ٹھاٹھ ۔ لیکن یہ احساس بڑھتا ہی گیا کہ جن داموں یہ دنیا ملے ہے اتنے ہمارے دام کہاں ۔شاعر کے درون میں روشنی شمعوں کی، فانوسوں کی تیز ہو جائے تو برون ِذات اندھیروں کے سائے طویل ہونے لگتے ہیں ۔ مختار ریڈیو سے ٹیلی ویژن پر چلے آئے تھے مگر دل کی پرانی لگن تھی کہ بے طرح لاگو ہو رہی تھی۔بہت دن گزرے بلادِ لاہور سے ایک روزنامہ نکلتا تھا ”امروز“۔ ستمبر سنہ 72ءکا ایک پیلا ملگجا ورق ”قسمت علمی و ادبی“سامنے رکھا ہے۔ کھلے میں مختار صدیقی کی تصویر، پشتے کی جانب یوسف ظفر اور منو بھائی کی تعزیتی نظمیں اور جلی حروف میں یوسف رقم کے قلم سے خط نستعلیق میں مرقوم تھا۔
حجلہ گور میں سامان عروسی ہو گا
لاش آرام سے سوئے گی سہاگن بن کر!
مختار صدیقی نے اپنی کم عمر صاحبزادی کی وفات پر ایک بے مثال نظم ”ایک تمثیل“ میں میر انیس کے اس تمثال دار شعر کی تضمین کی تھی۔ اس برس مختار صدیقی رخصت ہوئے تھے۔ گلی سے باہر تمام منظر بدل گئے ہیں مگر جاں دادئہ ہوائے سر رہ گزار مختار صدیقی ابھی چشم براہ ہے ۔ دیکھیے، ہم کو چاہنے والے کب چاہیں! آئیے شاعر کے کچھ شعر دیکھئے ۔

شان خدا ہے آج زمانہ آیا ہم بے ہنروں کا
ورنہ اس اک بستی میں بھی کیا کیا اہل کمال ہوئے
….
ناکامی کا ملا ل بھی ہم کو پیش رَوؤں کی سند سے ہے
ویسے ان کی طرح سے ہم بھی ہار کا کھیل ہی کھیلے تھے
….
اپنے حال کو جان کے ہم نے فقر کا دامن تھاما ہے
جن داموں یہ دنیا ملتی، اتنے ہمارے دام کہاں
….
تھی تو سہی ، پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی
دل کی شرافت ، ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی
….
یارو اب شائستہ صحبت ، کون رہا اس بستی میں
اب صحبت دل گیر نہ ہو تو ہم پہ کوئی الزام نہیں
….
آٹھ پہر آشفتہ خیالی کس کو بھلا خوش آتی ہے
جی مانے تو ہم بھی کچھ دل جمعی کا سامان کریں
….
رات بہت بے حال رہے ہیں، بھولی بسری یادوں نے
اک ایک گھڑی بے خوابی کی کن جتنوں سے بہلائی ہے
….
نکتہ وروں نے ہم کو سجھایا ، خاص بنو اور عام رہو
محفل محفل صحبت رکھو، دنیا میں گم نام رہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).