عدلیہ کا اپنا احتساب کیسے ہو گا؟


گذشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس موجود تمام مقدموں کا فیصلہ رواں سال جون تک کر لیا جائے گا۔ سابقہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی 2016 کو ‘عدلیہ کے احتساب کا سال’ قرار دیتے ہوئے کچھ ایسے ہی دعوے کیے تھے۔ لیکن جب تک عدلیہ کے احتساب کے عمل کی اصلاحات نہیں ہوتیں، تب تک ایسے وعدے کھوکھلے لگتے ہیں۔

پاکستان میں عدلیہ کی آزادی ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے، ایک دہائی پہلے سابقہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک اس کی ایک مثال ہے، لیکن اس بحث میں احتساب کی آواز کم ہی سنائی دی۔ عدلیہ میں خاص طور پر ماتحت عدالتوں (Lower Courts) میں بد عنوانی عام ہے۔ عدالتی عملے کا ججوں کی ملی بھگت سے رشوت لے کر مقدموں میں تاریخ پر تاریخ دینے اور ضمانت لینے سے اپنے حق میں فیصلہ کروانے تک کی شکایات عام ہیں۔

 اب تو کھلے عام کہا جاتا ہے کہ ‘جتنا گڑ ڈالو گے، اتنا میٹھا ہوگا’۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں جو سمجھ نہ آسکے کہ اگر احتساب کا عمل نہ ہو تو عدلیہ کی آزادی وہ ڈھال بن سکتی ہے، جس کے پیچھے چھپ کر ماورائے قانون رویئے کو با آسانی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ عدلیہ میں بدعنوانی کا اعتراف کئی چیف جسٹس صاحبان اپنی تقاریر میں کر چکے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کسی جج کے فیصلے اور رویے پر قانون کے علاوہ کچھ دیگر عناصر اثر انداز ہوں تو بین الاقوامی معیار اور اقوامِ متحدہ کے وضع کردہ آزاد عدلیہ کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں وہ جج آزاد نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کے احتساب کا آپس میں گہرا تعلق بنتا ہے۔

پاکستان میں کسی بھی جج کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے، لیکن متاثرین کا ماننا ہے کہ اس کونسل کے طرزِ عمل، رازداری اور فیصلوں میں طوالت کے باعث یہ تقریباً غیر مؤثر یا غیر فعال ہو چکا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ جن متنازعہ جج صاحبان کے خلاف بدعنوانی یا دیگر مقدمات زیرِ التوا ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے لیکن کیس چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ ضروری یا غیر ضروری طوالت سے 90 فیصد کیسز کا فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا۔

آئین کے تحت قائم اس کونسل میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے پانچ سینئر جج صاحبان ہوتے ہیں۔ کسی بھی اطلاع یا شکایت ملنے کی صورت میں اس کونسل کے پاس کارروائی کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ دوسری صورت میں اگر صدرِ پاکستان سمجھتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں کوئی جج جسمانی ہا ذہنی بیماری کی وجہ سے اپنے فرائض ادا نہیں کر پا رہا یا پھر بد عملی کرتا ہوا پایا گیا ہے تو وہ اس کونسل کو اپنی رائے سے آگاہ کرکے کارروائی کرنے کا کہہ سکتا ہے۔

کونسل ان الزامات کی آزادانہ جانچ پڑتال کرنے کے بعد صدرِ پاکستان کو اپنی تجاویز دیتی ہے، جس کے بعد صدرِ پاکستان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس جج کو عہدے پر برقرار رکھیں یا ہٹا دیں، لیکن اس کونسل کا طریقہ کار مکمل طور پر صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے۔ 2005 کے تفتیشی لائحہ عمل کے مطابق، “کونسل کی کارروائی اِن کیمرہ ہو گی اور عوام کے سامنے نہیں لائی جائے گی۔”

2016  میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ کونسل کی کارروائی کو مزید شفاف بنایا جائے۔ پٹیشن میں یہ بھی درخواست کی گئی کہ اس وقت تک جتنی بھی شکایات دائر کی گئی ہیں، ان کی تعداد بتائی جائے اور ان پر ہونے والی کارروائی کے بارے میں معلومات کوعام کیا جائے۔

سپریم کورٹ نے درخواست کو یہ کہہ کر برخاست کردیا کہ “سپریم جوڈیشل کونسل کا یہ ایک بنیادی نکتہ ہے کہ کونسل کی کارروائی کو مکمل رازداری کے ساتھ خفیہ رکھا جائے گا”۔ تاحال یہ فیصلہ ماہرین کے نزدیک پریشان کن ہے کیوں کہ اس کے تحت کارروائی کو عام نہ کرنے پر زور دیا گیا ہے جو عدلیہ کی آزادی اور احتساب کے عالمی معیار کے خلاف ہے۔

ماہرینِ قانون کہتے ہیں کہ جج صاحبان کے خلاف کارروائی کا جزوی حصہ شفافیت پر مشتمل ہے۔ گو کہ سپریم جوڈیشل کونسل تک پہنچنے والے کیس کے ہر پہلو کی تشہیر ضروری نہیں لیکن کارروائی کی رازداری کا کیا جواز ہے؟ اور مفادِ عامہ کو اس سے کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ اس ضمن میں سپریم کورٹ کو فیصلے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی اصولوں کے مطابق، کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کو صرف ابتداء میں خفیہ رکھا جاتا ہے تاکہ اگر الزام بے بنیاد ہو تو بلاوجہ جج کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچے، لیکن ایسی بے ضرر معلومات مثلا “سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس کیسز کی تعداد اور ان پر دیئے گئے فیصلے” عام کرنے سے کسی بھی جج یا عدلیہ کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچ سکتا، بلکہ انصاف کی مؤثر فراہمی، عوام کی معلومات تک رسائی اور شکایت کنندہ کے حقوق کے لیے یہ معلومات بہت اہم ہیں۔

اگر یہ بھی نہیں معلوم کیا جاسکتا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کیا کر رہی ہے تو ایسے میں ریاست کے دیگر اداروں کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو رہی؟ انہی معاملات پر غور کرتے ہوئے یورپی ججز کی مشاورتی کونسل نے فیصلہ دیا ہےکہ “جب حتمی فیصلہ ہو جائے تو اس کو شائع کر دیا جائے، تاکہ نہ صرف پوری عدلیہ بلکہ عوام کو بھی یہ بتایا جا سکے کہ کارروائی کس طرح کی گئی اور یہ بھی واضح کردیا جائے کہ عدلیہ اپنے ممبران کے غلط اقدام چھپانے کی بالکل حامی نہیں”۔

کسی معاملے میں شفافیت کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کسی سینئر جج کے لیے “بے ضابطگی” کی کیا تعریف ہے؟ موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ میں مالی کرپشن، سفارش اور اختیارات سے تجاوز کرنے کو اس زمرے میں ڈالا گیا ہے جبکہ انسانی حقوق کی پامالی، ان کی خلاف ورزی یا معاونت یا ادارے کے دائرہ اختیار سے تجاوز کو بھی اسی میں شامل کرنا چاہیے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے عدلیہ کے ضابطہ اخلاق کو عالمی معیار کے مطابق لانا ہوگا، جس میں انسانی حقوق کی ضمانت اور حفاظت شامل ہیں۔ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہنے اور صرف وہیں اپنی طاقت استعمال کرنے کے اصول کو نافذ کرنا بھی اس کا حصہ ہیں، جیسا کہ “مشترکہ مفادات کے اصولوں” میں لکھا گیا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار کے احتسابی ایجنڈے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ججوں کے خلاف ہونے والی کارروائی کا طریقہ کار شفاف اور مؤثر بنایا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کے اس اقدام سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ عدالت پر اعتبار بھی بڑھ جائے گا۔

Courtesy:

https://urdu.geo.tv/latest/180607-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).