مسلمانوں جیسے نام


قبلہ، یک پیری و صد عیب کی مصداق یہ نامراد امراض تو جاتے جاتے جائیں گے۔ آج پرانی ڈاک چھانٹ رہا تھا کہ قیام قرغزستان کے دوران مرشدی عارف وقار کا بھیجا ہوا ’نواے وقت‘ اخبار کا ایک تراشہ سامنے آ گیا۔ اس میں مضمون نگار نے کچھ ایسی منطق بھگاری تھی کہ اگر کسی کا نام ”جارج، چارلس، رام داس، کوہن، ایگنس، الزبتھ“ وغیرہ ہو تو سننے والے کو فوراً اس کے مذہب کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ یہ صراحت مضمون نگار نے نہیں کی کہ یہ اندازہ ہو جانے کے بعد وہ اس علم لدنی کو کس کام میں لائیں گے۔ دعوتی ذہن تو ان کی تحریر سے مترشح نہیں ہورہا تھا، شاید تصورات میں اپنی ایجاد بندہ قسم کی اسلامی مملکت قائم کر کے ان سے جزیہ وصولنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ خیر۔

ان کا استدلال تھا کہ احمدیوں پر پابندی لگنی چاہیے کہ وہ مسلمانوں جیسے نام رکھ کر دھوکہ دہی کے مرتکب نہ ہوں۔ اس پر ہم نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی تو بے شمار مضحکہ خیز مشاہدات و امکانات نظر آئے۔ چنانچہ استاد محترم کی خدمت میں کچھ گزارشات ارسال کر دیں۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں کہ آپ بھی اس خط و کتابت کے نخچیروں میں شامل تھے یا نہیں، بہر طور، آپ کی تفنن طبع کے لئے وہ خط دوبارہ پیش خدمت ہے۔

فاضل مضمون نگار نے ایک انتہائی گمبھیر مسئلہ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ اس جانب بھی توجہ کریں کہ پچھلے دنوں اسی طرح دروازے پر دستک ہوئی۔ پوچھا کون ہے؟ جواب ملا ”یعقوب کھوکھر“۔ (دروازہ) کھول کر دیکھا تو کورئیر کمپنی کی وردی پہنے ایک بندہ سیاہی مایل کھڑا ہے اور گلے میں صلیب کا لاکٹ آویزاں ہے۔ گزشتہ سال ایک ایمیل ملی کہ ڈھاکے کے فلاں محلے میں ’اختر اوپل‘ صاحب نے محفل غزل اور کھانے پر بلایا ہے۔

پہنچا تو دیکھا کہ موصوف آٹھوں گانٹھ کمیت ہندو ہیں۔ کئی برس سے ’وکٹوریہ کیان پور‘ نامی جس ایرانی خاتون سے ہم اقلیتی برادری کا سمجھ کے شفقت برتتے رہے، وہ جدی پشتی شیعہ مسلمان نکلی۔ زمانے تک ہم فلسطینی لیڈر جارج حباش کے مقابلے میں نایف حواتمی کے حامی رہے کہ کم از کم مسلمان تو ہے، چاہے کمیونسٹ سہی، مگر پتا چلا کہ یہ بھی عیسائی ہیں۔ پورس کے مقابلے میں سکندر کی فتح کے حال نے تو ابن انشا تک کو مدت تک خوش رکھا کہ فاتح کا نام اسلامی سا لگتا تھا۔

حد تو باریسال میں ہوئی جہاں الجزیرہ کے بنگالی نمایندے ’نکولس حق‘ نے اچانک سر اٹھا کر کہا، آپ جمعہ پڑھنے نہیں چلیں گے میرے ساتھ؟ وسط ایشیا میں تو نام اور دھرم کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا۔ ہماری ایک پیاری سی ہم کار کا نام ’ویلیریا‘ تھا۔ ہم اسے فاضل مضمون نگار کے طے کردہ کلیے کے مطابق اہل کتاب ذمی کا درجہ دیتے رہے مگر اس نے انکشاف کیا کہ وہ مسلمان ہے۔ چلیں غالب کے قول کے لحاظ سے آدھی مسلمان کہہ لیجیے کہ ووڈکا پیتی ہے پر سور نہیں کھاتی۔

ایک رفیق کار ’ارکن‘ نامی تھے۔ ان کے ہاں دعوت میں خاص پکوان گھوڑے کا گوشت تھا۔ ہمارے البانوی مسلمان دوست نے (جن کا نام اتفاق سے انتھونی ہے ) کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو میزبان نے ووڈکا کا گھونٹ جلدی سے حلق سے اتارا اور کلمہ پڑھ کر بتایا کہ ان کے خاندانی قصاب نے تکبیر پڑھ کر حلال کیا ہے۔ ہاں ایک اور اشکال جو کہ ہمارے مضمون نگار کے رشحات قلم سے ہمارے کمزور دماغ میں پیدا ہو گیا ہے، اس کو رفع کرنے کے لیے بھی آپ سے استمداد کریں گے۔

درست کہ مسلمانوں کی عبادت گاہ کو ’اصلی تے وڈے‘ پاکستان میں، جو صرف نوائے وقت اور اردو ڈائجسٹ کے ناشرین کے تصور میں پایا جاتا ہے، مسجد کہتے ہیں مگر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے شمال میں اسے ’جما ت‘ (یقینا جماعت کی تخریب ہے ) ، پنجاب کے دیہات میں ’مسیت‘ پکارتے ہیں۔ ایک غضب ناک منظر ہمیں کئی سال پہلے اپنے دورہ ہالینڈ کا یاد آتا ہے جہاں ایک شہر کے نقشے میں لکھا تھا ’مسلم کرک‘ یعنی مسلمانوں کا گرجا۔

قرغزستان میں نمازوں (میرا مطلب ہے صلوة) کے نام عصر، مغرب نہیں بلکہ ’دیگر‘ ، ’پیشین‘ وغیرہ ہیں۔ پشتو، بلوچی میں بھی نمازوں کے مقامی نام مروج ہیں۔ اب بتائیں ہمارے فاضل مضمون نگار کہ اگر ان کے (یقینا) محبوب رہنما ملا عمر کہیں یہ کہتے پائے جاتے کہ وہ ’ماسپشین‘ پڑھ کر آ رہے ہیں تو کیا انہیں ملا صاحب موصوف پر غیر مسلم ہونے کا گمان گزرتا؟

قیام لبنان نے اس قسم کے وسوسوں میں مزید اضافہ کردیا۔ چلیں ’جوآنا، جرجیس، البرٹ‘ وغیرہ تو کسی حد تک مخصوص نام ہیں، مگر ’فادی، نسرین، راغد، منصور، شہید، نضال، یاسر‘ وغیرہ کچھ نہیں بتاتے کہ ان پر زکوٰة واجب ہے یا جزیہ۔ ان سب ناموں کے حامل ہمارے رفیقان کار تھے اور لبنان میں مروج ہر مذہب کی نمائندگی کرتے تھے۔ حد تو وہاں ہوئی جو ایک تقریب میں ایک صاحبزادے نے اپنا تعارف ’محمد الصلیبی‘ کہہ کر کروایا جس سے ہمیں اپنی دروز مسلمان ہم کار کے نام ’نینسی ہلال‘ سے پہنچنے والے صدمے سے سنبھلنے میں مزید دیر لگ گئی۔ اسی تقریب میں ایک معروف ماہر علوم سماجی، ڈاکٹر یزید نصراللہ سے بھی ملوایا گیا جو مغرب کے وقت ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے دکھائی دیے۔

اس تمام دردسری سے نجات کی خاطر دیوان غالب سے رجوع کیا تو وہاں سے بس یہی، درد کی دوا اور درد لا دوا کا سامان پایا کہ۔ ’پیشے میں عیب نہیں، رکھیو نہ فرہاد کو نام‘ ۔
Jan 16، 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments