کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے


ہمارے سوشل میڈیا کے ماہرین اور دانشوران اپنے ان دوستوں پر تبرا بھیج رہے ہیں جنہوں نے ایک عالمی صادق اور امین انسان کی نجی زندگی کو زیر بحث لانےکی جرات کی ہے۔ مسلسل اخلاقیات کے بھاشن عنایات فرمائے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ وہ عمر چیمہ کی سٹوری ہے جو جنگ اخبار میں چھپی ہے۔ اور یہ سٹوری وہ جنوری 6 کو بھی آشکار کر چکے ہیں۔ یہ وہی عمر چیمہ ہیں جس نے پانامہ لیکس بھی لیک کی تھیں اور اس وقت یہ سب دانشواران فیس بک اس کی تعریفوں کی پل باندھ رہے تھے اور اس کی حمایت اور قابلیت کی تعریفیں کرنے میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ چونکہ وہ لیکس اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لے تھیں تو اس وقت کسی دانشور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ لیکس غیر اخلاقی طور پر چوری کی گئی ہیں ان کی صحت پر کبھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا اور من و عن قبول کرنے کے بھاشن بھی ملتے رہے۔

یہی عالمی سند یافتہ صادق اور امین انسان اپنے کچھ سیاسی حلیفوں کے ساتھ پانامہ کیس کو عدالت میں لے کر گئے اور عدالت نے اس کو سننے کی حامی بھر لی اور پھر ان ملزمان کے ساتھ اور کیا کیا نہیں ہوا مگر تمام دانشوران فیس بک خاموش تماشائی بن کر اپنے سیاسی مخالفین کی عزتیں سر بازار اچھلتی دیکھتے رہے اور مزے لے لے کر روزانہ کی بنیاد پر ڈسکسس کرتے اور ٹھٹھے اڑاتے رہے۔ وہاں سیاسی مخالفین کی بہو بیٹیاں پیشیاں بھگتنے جاتی تھیں اور ہمارے یہ آج کے واعظ اور ناصح ان بہو بیٹیوں کی عزت اچھالنے کبھی دبئی کبھی لندن تو کبھی قطر اور کبھی سعودیہ سے رپورٹیں منگوا رہے ہوتے تھے۔ آخر کار 28 جولائی کا وہ فیصلہ بھی آ گیا جس کا انتظار عالمی سند یافتہ صادق اور امین اور اس کے حواری توقع کر رہے تھے۔ پھر کیا تھا پہلے سے تذلیل شدہ خاندان مزید ذلیل کیا گیا ”مجھے کیوں نکالا“ کے ٹھٹھے اڑائے گئے اور ابھی تک اپنے مخالفین کو چپ کروانے کے لے یہی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے اور ایسی ایسی تصویریں اس مجھے کیوں نکالا کیپشن کے ساتھ شیر کی گئیں کہ وہ کسی کے ساتھ شیر کرنا تو دور کی بات خود انسان کو دیکھتے ہوے بھی گھن آتی ہے۔

پاکستان کی عوام چاہے وہ پڑھے لکھے ڈاکٹرز ہوں انجینئرز ہوں پروفیسر ہوں مجھ جیسے عام لوگ ہوں جس کو جہاں بھی موقع میسر آتا ہے اپنے سیاسی مخالف کو نیچا دکھانا ہو تو اس وقت اخلاقیات کی ساری حدیں پار کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ خیبر پختون خوا میں ایک لڑکی کو مخالفین نے بے آبرو کیا تھا اور اس کو بے لباس گلیوں اور بازاروں میں گھمایا تھا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا ایسے واقعات ہمارے ملک میں اکثر و بیشتر ہوتے رہتے ہیں مگر میں بات کر رہا تھا کہ جہاں جہاں سیاسی مخالف کی تذلیل ہو سکے وہاں ہمارے تمام عوام اس میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اس واقعہ نے تمام ملک میں غم و غصّہ کی لہر دوڑا دی۔ جس کا جو دل کرتا تھا وہ اپنے غصّے کا اظہار کر رہا تھا اسی لہر میں ہمارے ملک کے ایک نامور ترین شاعر جو کہ بوجوہ کینیڈا نیشنل ہیں جن کی شاعری کی جدّت اور ندرت خیال اپنا ثانی نہیں رکھتی انہوں نے اپنے غصّے کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ پڑھتا جا شرماتا جا کے مصداق فرمایا کہ مریم نواز کو بھی اسی طرح بے لباس کر کے گلیوں میں گھمایا جائے تو پھر ان حکمرانوں کو سبق سکھایا جا سکتا ہے۔

مجھے ان جیسے غورو فکر کرنے والے انسان سے اس طرح کی نا معقولیت کی بلکل بھی توقع نہیں تھی میں نے کافی احتجاج کیا تھا ان سے اور ان کی اس سوچ پر کہ آپ ایک بیٹی کو انصاف دینے کے لے ایک دوسری بیٹی کو بے آبرو کرکے کون سی اس ملک کی اخلاقی اور معاشرتی خدمات کرنا چاہتے ہیں؟ میں اس شاعر کو صرف اتنا کہہ سکا کہ جناب عالی آپ صرف شاعری کیا کریں اور کسی بات پر تبصرہ سے گریز فرمایا کریں تو یہ آپ کے حق میں بہتر ہو گا۔ انسان اگر دانتوں کے درمیان اور ٹانگوں کے درمیان والے عضلات کو قابو کر لے تو اس کو جنّت میں جانے کے پروانے دینے کے وعدے سننے کو ملتے ہیں۔ خاص طور پر اگر یہ کتی زبان قابو میں رہے تو بہت ساری ندامت و خجالت سے بچا سکتا ہے۔

اب آتے ہیں عمر چیمہ والی خبر پر جس میں انہوں نے ایک صدیوں سے جاری قضیے کی طرف نشاندہی کرتے ہوے اپنی رپورٹ چھاپی ہے کہ طلاق کے بعد عورت کو کچھ عرصہ بغیر اگلا نکاح کے گزارنا پڑتا ہے اور یہ شرعی پابندی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ پریگننسی صرف ایک چھوٹے سے ٹیسٹ سے دس منٹ میں کی جا سکتی ہے۔ ہم اپنے تبصرے کو صرف اور صرف ملک میں رائج اصولوں اور قوانین کی روشنی میں ہ دیکھتے ہیں۔

عمران نیازی نے بشریٰ بی بی سے اپنا نکاح اس وقفے کے ختم ہونے سے پہلے کر لیا۔ اس کے علاوہ عمر چیمہ صاحب نے اس جھوٹ کو بھی آشکار کیا جو عالمی سند یافتہ صادق اور امین انسان مسلسل بولے جا رہا ہے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے نکاح یکم جنوری 2018 کو کیا ہے تو وہ کہتے ہیں نہیں ایسا بالکل بھی نہیں۔ وہ خود اور اس کی پارٹی والے بھی اسی طرح کے مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ تو عمر چیمہ صاحب نے صرف ان کا جھوٹ آشکار کیا ہے اور اس کے کسی پرسنل افیئر دخل در معقولات نہیں ہے۔

سوال جائز ہے کہ ایک شخص تقوے اورصادق و امین کے بلند ترین رتبے پربیٹھا ہے۔ وہ شخص سماجی، قانونی، مذہبی جائز کام یعنی نکاح کے بارے میں بھی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ ایک مکارآدمی ہے۔ جواپنے مفاد کے لئے شریعت کو بھی نظرانداز کرسکتا ہے۔ اورپبلک کے سامنے جھوٹ بول سکتا ہے اور اگر ہمارے لبرل دوست اس کو مداخلت سمجھتے ہیں` تو عمر چیمہ صاحب کو کورٹ میں لے جایا جا سکتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ کام اگر مجھ جیسا ایک غیر معروف انسان سے سرزد ہوتا تو کسی کو کچھ بھی نہیں ہونا تھا اور نہ ہی کسی نے میری رپورٹیں میڈیا میں چھاپنی تھیں مگر یہ کام ایک نامور سیاستدان سے ہوا ہے جس کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سونا جاگنا صرف اور صرف اپنی عوام کے سامنے اس کے ساتھ اور عوام کے لے ہی ہوتا ہے۔ سیاستدان کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی وہ جو باہر نظر اتا ہے وہی اندر ہوتا ہے۔ وہ ایک اوپن سیکرٹ ہوتا ہے۔ وہ اگر مسلسل جھوٹ بولے گا قوم اور اپنی عوام کے سامنے اور یہ توقع رکھے گا کہ پھر بھی صادق اور امین کہلایا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہوتا۔

عوام اس سیاستدان کو کبھی معاف نہیں کرتے جس نے پبلکلی جھوٹ اور الزام کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہو۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں پر وزیر اعظم جو کہ منتخب نمائندہ ہوتا ہے اس کے ساتھ جو سلوک ملک میں اور ملک کے باہر روا رکھا گیا ہے وہ آپ سب جانتے ہیں یہاں پر منتخب نمائندوں کو جس طرح ذلیل و رسوا کیا جاتا رہا ہے وہ کوئی قرون اولیٰ کے واقعات نہیں ہیں اسی ملک میں ہوتا رہا ہے نہ کسی کی عزت سلامت تھی اور نہ کسی کی نجی زندگی یہاں پر وزرا اعظم کے ساتھ وہ سب کچھ ہوتا رہا ہے جو اور کہیں نہیں ہوتا۔

یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں

حکم ہے کہ تم کسی کے جھوٹے خدا کو برا بھلا مت کہو کہ وہ تمھارے سچے خدا کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے اور تم کو بہت برا لگے۔ مفسرین اس کی تشریح میں دوسروں کی محبوب شخصیات کو بھی شامل کرتے ہیں۔ میری ان تمام خواتین و حضرات دوستوں سے گزارش ہے کہ جب آپ کسی کو کسی کی نجی زندگی میں دخل در معقولات سے روک رہے ہوتے ہیں اس پر اپنے اخلاقیات کا پرچار کر رہے ہوتے ہیں وہاں یہ اصول اور اخلاق اسی طرح آپ پر بھی واجب ہوتا ہے۔

کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).