سعودی عرب کے نظام انصاف کے جال میں پھنسے پاکستانیوں پر کیا بیتتی ہے؟


جیل

جن 22 پاکستانیوں پر مقدمہ چلا، ان میں سے صرف ایک کو وکیلِ صفائی کی خدمات حاصل تھیں: فائل فوٹو

سعودی نظامِ انصاف کے بارے میں انسانی حقوق کے دو اداروں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نظام میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے چار برس میں سعودی عرب میں 61 پاکستانیوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے جبکہ وہاں جو 83 افراد رپورٹ کی تیاری کے وقت زیرِ حراست تھے ان میں سے بھی 61 ایسے تھے جنھیں عدالت میں ایک مرتبہ بھی پیش کیے گئے بغیر چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے قید رکھا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سعودی نظامِ انصاف میں سنگین خامیاں موجود ہیں، ملزموں کو شفاف مقدمے کا حق نہیں ملتا، انھیں طویل عرصے تک بغیر مقدمہ چلائے قید رکھا جاتا ہے، ان سے زبردستی اعتراف ناموں پر دستخط کروائے جاتے ہیں، جب کہ جیل کے اندر کے حالات انتہائی ناقص ہیں اور وہاں صفائی ستھرائی اور طبی سہولیات کا فقدان ہے۔

‘جال میں گرفتار: پاکستانیوں کے ساتھ سلوک اور سعودی نظامِ انصاف’ نامی رپورٹ 38 پاکستانیوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے جن میں سے 22 پر سعودی عرب میں مقدمہ چلا، جبکہ سات افراد ایسے ہیں جن کے رشتے داروں پر مقدمے چلے اور نو دوسرے ملزمان ہیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

سعودی بلاگرکو پھر سےکوڑے مارنے کی تیاری

ولی کے قانون کے خلاف مہم چلانے والی مریم رہا

قتل کے مجرم سعودی شہزادے کو سزائے موت دے دی گئی

رپورٹ کے مطابق 2014 سے اب تک سعودی عرب نے 163 افراد کو سزائے موت دی ہے جن میں 61 پاکستانی بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگست 2017 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی جیلوں میں 83 پاکستانی قید ہیں جن میں سے 61 ایسے ہیں جنھیں قید ہوئے چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن انھیں عدالت میں تاحال پیش نہیں کیا گیا۔

ان 61 میں سے 50 افراد کو زیرِ تفتیش قرار دیا گیا ہے، چھ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کا معاملہ بیورو آف انویسٹیگیشن کو بھیجا جا رہا ہے جبکہ پانچ کا معاملہ بیورو کو بھیجا جا چکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن بقیہ 22 پاکستانیوں پر مقدمہ چلا، ان میں سے صرف ایک کو وکیلِ صفائی کی خدمات حاصل تھیں۔ اس کے علاوہ چار نے کہا کہ انھیں عربی نہیں آتی تھی اور مقدمے کے دوران انھیں مترجم کی سہولت نہیں دی گئی۔

اس کے علاوہ ان افراد کے مطابق جیلوں کی حالت انتہائی ناقص ہے۔ ایک شخص نے بتایا کہ ‘جیل گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی اور وہاں حالات افسوس ناک تھے۔ اکثر وہاں پانی نہ ہوتا اور نہ ہی نکاسی کا کوئی نظام تھا۔’

سعودی عرب میں 16 لاکھ کے قریب پاکستانی کام کرتے ہیں جن کی بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ اور کم پڑھے لکھے مزدوروں پر مشتمل ہے۔

وہاں گرفتار پاکستانیوں کو اکثر اوقات قونصل خانے کی خدمات حاصل نہیں ہوتیں کیوں کہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ کس سے رابطہ کیا جائے۔ جسٹس پروجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا ہے کہ سعودی حکام پاکستانی شہریوں کو گرفتار کرنے کے بعد پاکستانی حکام کو آگاہ بھی نہیں کرتے۔

سعودی قانون کے تحت منشیات کی سمگلنگ انتہائی سنگین جرم ہے اور اس کی سزا موت ہے، اور اکثر اوقات سرِ عام تلوار سے گردن اڑا دی جاتی ہے۔

تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ سعودی قانون میں منشیات کی کوئی کم از کم مقدار مقرر نہیں کی گئی، جس سے سمگلنگ کا تعین ہو سکے، اس لیے کسی بھی مقدار میں منشیات برآمد ہونے پر موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔

غریب اور ان پڑھ لوگ

بی بی سی نے صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص مدثر (اصل نام نہیں) سے بات کی جن کے بھائی سعودی عرب میں منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں قید ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘یہ اکثر غریب اور ان پڑھ لوگ ہوتے ہیں جو ایجنٹوں کے چکر میں آ جاتے ہیں۔ وہ انھیں اچھی نوکریوں کا جھانسا دے کر منشیات کے کیپسول کھلا دیتے ہیں یا سامان میں کچھ رکھوا دیتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر پاکستانی ہوائی اڈوں سے بچ نکلتے ہیں لیکن وہاں پکڑے جاتے ہیں جہاں ان کی گردن مار دی جاتی ہے اور بعد میں لاش تک لواحقین کے حوالے نہیں کی جاتی۔’

مدثر نے بتایا کہ انھوں نے پاکستانی حکام سے رابطہ کر کے ان سے اس مسئلے پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

’اعتراف نامے پر دستخط کرنے پر مجبور‘

جسٹس پروجیکٹ پاکستان سے بات کرنے والے پاکستانیوں نے کہا کہ پہلی سماعت پر قاضی انھیں پہلے سے لکھی ہوئی فردِ جرم اور سزا پر مبنی کاغذات پر دستخط کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اگر وہ انکار کر دیں تو اگلی سماعت پر وہی کاغذ دوبارہ ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔

ملزمان کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ دستخط سے انکار کر دیں تو انھیں غیر معینہ مدت تک اسی چکر سے گزرنا پڑے گا۔

جن افراد سے انٹرویو لیے گئے، ان میں سے پانچ نے پہلی سماعت میں، جب کہ بقیہ نے چند سماعتوں پر فیصلہ قبول کر لیا تاکہ وہ جلد از جلد قید سے چھوٹ سکیں۔

اعجاز نامی ایک شخص نے جسٹس پروجیکٹ پاکستان کو بتایا کہ وہ ٹیکسی چلاتے تھے اور حکام نے انھیں جدہ سے پکڑ لیا اور الزام لگایا کہ وہ منشیات سمگل کر رہے تھے۔ گرفتاری کے بعد انھیں 20 دن تک اپنے خاندان سے رابطہ نہیں کر سکے۔

‘میں نے اپنے خاندان والوں سے 20 دن کے بعد رابطہ کیا کیوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ فون کہاں سے ملے گا۔۔۔ اور نہ ہی میرے پاس کسی کو فون کال کے لیے دینے کے لیے پیسے تھے۔’

ایک قیدی عباس نے بتایا کہ انھیں جعلی ورک پرمٹ رکھنے کے الزام میں پکڑ لیا گیا مگر جب جج کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت تک چار مہینے گزر گئے تھے۔

ایک اور قیدی غلام کو منشیات کی ترسیل کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ انھوں نے کہا: ‘مجھے کہا گیا کہ میں اعتراف نامے پر دستخط کروں جس پر لکھا تھا کہ میں نے منشیات کی ترسیل کی تھی اور یہ منشیات میری تھیں۔ پہلی پیشی پر یہ کاغذ میرے سامنے رکھا گیا۔۔۔ میں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ میرا منشیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ اس کے بعد دو مزید پیشیاں ہوئیں اور جج نے مجھے دوبارہ اعتراف کرنے کو کہا۔ چوتھی پیشی پر میں نے ہار مان لی اور دستخط کر دیے۔ مجھے چھ ماہ کی سزا ہوئی، اس وقت تک چار مہینے گزر چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ اب دستخط کرنے میں کوئی نقصان نہیں کیوں کہ میرا سزا کا کچھ ہی وقت باقی رہا تھا۔’

جیل

سات سابق قیدیوں نے کہا کہ انھیں مختلف وجوہات کی بنا پر قید کی مدت ختم ہونے کے بعد آٹھ ماہ تک بند رکھا گیا۔

دو قیدیوں نے بتایا کہ انھیں قید کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ انھیں تھپڑ مارے جاتے تھے، بیلٹ سے پیٹا جاتا تھا اور پوچھ گچھ کے دوران بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا نظامِ انصاف بین الاقوامی انصاف اور انسانی حقوق کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔

سعودی عرب میں کوئی تعزیراتی نظام نافذ نہیں ہے اور جج سابقہ فیصلوں کے پابند نہیں ہیں۔ وہاں کے باسیوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کون سا عمل کس جرم کی ذیل میں آتا ہے۔

پاکستانی قونصل خانہ مدد سے قاصر

جسٹس پروجیکٹ پاکستان اور ہیومن رائٹس واچ نے جن کیسوں کا جائزہ لیا، ان میں سے کسی میں بھی سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو کسی قسم کی مدد فراہم نہیں کی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ تو سعودی حکام پاکستانی قونصل خانے کو اس کے شہریوں کی گرفتاری سے آگاہ کرتے ہیں اور نہ ہی یہ افراد خود قونصل خانے سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکام ان کی کوئی مدد نہیں کر پائیں گے۔

اس رپورٹ میں صورتِ حال کی بہتری کے لیے پاکستانی اور سعودی حکام کو سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔

پاکستان کے لیے سفارشات

  • سعودی عرب میں پاکستانی قیدیوں کو قونصل خانے کی خدمات پیش کی جائیں
  • اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ قیدیوں کو قانونی نمائندگی کا حق حاصل ہو
  • ان تمام افراد اور گروہوں کی چھان بین کی جائے جو پاکستانیوں کو مجبور کرتے ہیں
  • پاکستانی ملازمین کو سعودی قانون میں خامیوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے

سعودی عرب کے لیے سفارشات کا خلاصہ

  • بین الاقوامی معیار کے مطابق تعزیراتی نظام وضع کیا جائے
  • تمام ملزمان کو وکیل تک رسائی دی جائے
  • منشیات کی زبردستی سمگلنگ کروانے کے واقعات کی چھان بین کی جائے
  • جب بھی کوئی پاکستانی پکڑا جائے تو سفارت خانے کو اطلاع دی جائے

اس رپورٹ پر ردعمل کے لیے جب بی بی سی اردو نے سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ پاکستان کا دفترِ خارجہ اس بارے میں ردعمل دے گا جبکہ پاکستانی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ہی اس بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp