یا الٰہی یہ عورت کاخمیر تو نے کس مٹی سے اٹھایا ہے


سوچتا ہوں تو بہت پرانی بات لگتی ہے، اتنی پرانی کہ اس کی یاد کا بدن بھی گزرے وقت کی قبر میں تحلیل ہوتا نظر آتا ہے۔ جہانیاں شہر کے مغربی حاشئے کو چھو کر گزرنے والی ریلوے لائن سے پرے چک نمبر ایک سو تیرہ دس آرمیں سرداراں بی بی رہا کرتی تھی، امرتسر کے نواحی گاؤں میں پیدا ہونے والی جٹی اور میری دادی۔ رحیم و کریم رب کی رحمتیں ان کو اپنے حصار میں رکھیں، اٹھارہ برس ہوتے ہیں کہ زمین کی گود میں اتر گئیں۔ میں اُن دنوں ”خبریں“ لاہور میں سنڈے میگزین کا ایڈیٹر تھا۔ سرداراں بی بی کے دمِ واپسیں آخری بار اُن کا چہرہ دیکھنے کو بھی جہانیاں نہ پہنچ سکا۔

خیر!میں چھوٹا سا ہوتا تھا تو ہم ہر ہفتے ابا جی کے ساتھ اپنے چک جایا کرتے تھے۔ دادی کو پتہ ہوتا کہ آج میرے شہر والے پوتے آرہے ہیں چناں چہ بستر کے نیچے، دیوار کے ساتھ ساتھ بنی پر چھتیوں میں کسی برتن کی ڈھانپ تلے یا پھر اُس کچے پکے کمرے کے کونے میں تہہ در تہہ دھری رضائیوں کے بیچ سے کوئی نہ کوئی سوغات برامد ہوتی اور ہمیں کھانے کو دی جاتی۔ گرمیوں کا موسم ہوتا تو ہمارے مربعے میں ایک کھیت کے کنارے قطار میں کھڑے آموں کے دس بارہ درختوں کے دیسی آم جنہیں اماں نے رضائیوں میں رکھ کر پال لگائی ہوتی۔ آموں کی رت نہ ہوتی تو لڈو یا کوئی دیگر قسم کی مٹھائی یا پھر چوسنے والی میٹھی گولیاں۔

پھر ہم بڑے ہوتے گئے اور اماں بوڑھی۔ سن پچانوے میں یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی مجھے ”خبریں“ ملتان میں نوکری مل گئی تھی۔ ہر ہفتے جہانیاں جانے کا معمول نہ رہا تھا مگر مہینے میں ایک آدھ چکر لگ ہی جاتا۔ تب چاچی حنیفاں کے گھر کے بڑے سے صحن میں چارپائی پر بیٹھی اماں کو اٹھنے میں دقت ہوتی۔ اماں بیٹھے بیٹھے بانہیں کھول دیتیں”اؤ میرا پُت آیا“۔ بوڑھی بانہوں کے حصار میں لے کر گال چومتیں اور پھر اپنے کرتے کی بغلی جیب سے ایک میٹھی گولی نکال کر دیتیں۔ جب ہم واپس ملتان کے لئے روانہ ہونے لگتے تو اسی بغلی جیب سے مڑا تڑا دس روپے کا نوٹ نکال کر دیتیں کہ ”لے پُت شئے کھا لئیں“۔

یادوں کی خراشوں پر آئے کھرنڈ چھیلنے بیٹھا ہوں تو اب سرداراں بی بی کی بہو زینب سامنے آن کھڑی ہے، میری ماں۔ دونوں ساس بہو آگے پیچھے چلی گئیں۔ سن اٹھانوے کے اپریل میں بہو گئی اور دسمبر میں ساس۔ دونوں کو رحمان و رحیم کے علّیین کا قیام نصیب ہو۔ امی کی وفات پر اماں دس بارہ روز ہمارے گھر رہیں۔ پھر جب جہانیاں جانا تھا تو مجھے کہا ”پُت مینوں جینب(زینب) نال ملوالیا“۔ تب میں اماں کا ہاتھ پکڑ کے بے ترتیب اُگی قبروں کے درمیان سے گزارتا اپنی ماں کی قبر پر لے گیا۔ کتنی ہی دیر وہاں بیٹھی رہیں اور روتی رہیں کہ ”واری تے میری سی تو کیوں چلی گئی؟ “۔

ماں کی شفقت مجھے فقط انتیس برس تک میسر رہی۔ ماں تو رب کا روپ ہوتی ہے، اس کی رحمتوں کا کون کو ن سا منظر لکھا جائے۔ میرے شعور کے پیچھے آج بھی وہ دن زند ہ ہیں جب پرانے گھر میں قیام تھا، بڑے بہن بھائی مدارس میں داخل تھے اور مجھ سے چھوٹی شازیہ ابھی دنیا میں نہ آئی تھی۔ تب ابا جی کے کچہری اور بہن بھائیوں کے سکول چلے جانے کے بعد ان کی واپسی تک کا سارا وقت میرا اور میری ماں کا ہوتا۔ ان دنوں ہمارے گھر سویر بہت جلدی اتر آتی تھی اور ناشتہ بھی تبھی کر لیا جاتا۔ میری ماں ایک دو پراٹھے زائد پکا لیتی۔ چناں چہ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے میں اور میری ماں برنچ کرتے۔ صبح کے بنے پراٹھے کا لقمہ توڑ کر، اوپر دھرے لسوڑے کا اچار لقمے سے دبا کر تھوڑا توڑتیں اور لقمہ میرے منہ میں ڈالتیں۔ میں ہاتھ میں پکڑے گلاس سے ایک سِپ لیتا جس میں چینی ملا میٹھا پانی ہوتا۔ اچار کی نمکینی، پانی کی مٹھاس، پراٹھے کا گذاراور لقمے میں گندھا ماں کی انگلیوں کا لمس۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا شیف یہ ذائقہ پیدا کرنے پر قادر ہے؟ یہ تو ایک یاد تھی، انتیس برس تک میری زندگی کی لوح پر جس قدر آسودگی اور آسائش تحریر ہے، اس کے بڑے حصے کو میری ماں نے تصنیف کیا۔

اب مجھے دواور خواتین یاد آرہی ہیں۔ اللہ انہیں صحت و عافیت بھری لمبی زندگی دے، آپی اور میری چھوٹی بہن شازیہ۔ آپی مجھ سے بارہ برس بڑی ہیں۔ انہوں نے تو خیر مجھے ماں ہی کی طرح پالا اورآج بھی بے حد خیال رکھتی ہیں۔ میں کوتاہی کرجاتا ہوں مگر ان کی شفقت میں کمی نہیں آتی۔ کچھ دن رابطہ نہ ہو تو خود فون کر کے حال احوال دریافت کرتی ہیں اور دعائیں بونس میں ملتی ہیں۔ شازیہ اب پندرہ برس سے کینیڈا میں ہے مگر جب تک وہ گھر میں تھی، جی جان سے میرے سارے کام اور دیکھ بھال کرتی تھی۔ اب ”مولوی“ ہوگئی ہے اور میری ”غیر شرعی“ تحریروں اورفیس بک پوسٹوں پر گرفت کرتی ہے۔ اللہ اُس کو بھی خوش رکھے۔

اب ایک اور خاتون ہے جس نے پچھلے سترہ بر س سے میری زندگی میں آسودگی بھر رکھی ہے۔ اس کا دن صبح پانچ بجے شروع ہوجاتا ہے اور پھر شب دس بجے تک وہ بلا تکان مجھے اور میرے بچوں کو آسانیاں بانٹتی ہے۔ یہ عالیہ ہے، میری اہلیہ۔ میں تو اس پر یہ بھی احسان نہیں جتا سکتا کہ گھر کی معاشی گاڑی کو رواں رکھنے کے لئے دن بھر محنت کرتا ہوں۔ کچھ بھی نہیں کرتا، اللہ نے مجھے بڑا آسان وسیلۂ رزق دے رکھا ہے۔ وہ محکمہ تعلیم سے اٹھارہویں گریڈمیں وابستہ ہے۔ محکمہ تعلیم پر شہباز شریف کا جو ڈنڈا چلتا ہے تو اس کے اثرات نیچے تک آتے شدید تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چناں چہ اس کی نوکری بھی سخت ہے مگر اتنے برسوں میں اس نے کبھی گھر کی ذمہ داریوں کو متاثر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی ہمیں احساس دلا یا کہ تم لوگوں کے لئے اتنا کچھ کرتی ہوں۔

وہ شاید پیدا ہی دان کرنے کو ہوئی ہے۔ اشفاق احمد دعادیا کرتے تھے ”اللہ تعالیٰ آپ کو آسانیاں فراہم کرے اور آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے“۔ میرا خیال ہے کہ یہ دعا قابلِ عمل نہیں۔ آسانیاں بانٹنے والوں کا مقدر آسانیاں نہیں ہوتیں۔ پیڑ دھوپ میں جلتا ہے تو اپنی چھاؤں میں بیٹھنے والے کو آسودگی فراہم کرتا ہے۔ عالیہ بھی ہمارے گھر کا سایہ دار پیڑ ہے جس کی چھاؤں میں ہم آسودہ ہیں۔ وقت پر کھانا، استری شدہ کپڑے اور پھر ہم چاروں (میں اور میری بیٹیاں)کی طرف سے دن بھر کی پھیلائی بے ترتیبی کو سمیٹنا، یہ اسی کا حصہ ہے۔ سارا دن دفتر میں گپیں لگا کر گھر آتا ہوں، اگر کچھ دیر سونے کو لیٹ جاؤں تو بچوں پر کرفیو نافذ کردیتی ہے کہ آہستہ بولو، شور نہ کرو پاپا سورہے ہیں۔ یا الٰہی یہ عورت کاخمیر تو نے کس مٹی سے اٹھایا ہے!

یہ سطریں لکھتا ہوں تو عالیہ دفتر گئی ہیں اور تینوں بیٹیاں سکول۔ گھر میں جا بہ جا اس عجلت کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں جو صبح سکول کی تیار ی کے وقت بپا ہوا کرتی ہے۔ زینب، زہرا اور امامہ، اب بھی چھوٹی ہیں مگر بہت چھوٹی تھیں کہ جب سے خوشی اور سعادت جان کر میری خدمت کرتی ہیں۔ دفتر کی تیاری میں ہوں تو جوتے اٹھا کر لارہی ہیں، جرابیں دے رہی ہیں۔ ہم اوپر کے پورشن میں رہتے ہیں، دودھ والا، قاری صاحب، کام والی ماسی کوئی آئے تو تینوں میں لڑائی ہوتی ہے کہ دروازہ کون کھولے، سیڑھیاں جو اترنا چڑھنا پڑتی ہیں۔ مگر میں دن میں دس بار بھی باہر جاؤں تو نیچے تک چھوڑنے آتی ہیں کہ پاپا کو گاڑی سے اتر کر گیٹ بند نہ کرنا پڑے۔ خاص طور پر زہرا تو بہت ہی خیال رکھتی ہے۔ کھانا کھارہی ہو تو بھی اٹھ جاتی ہے کہ پاپا کو نیچے چھوڑ آؤں۔ جا بہ جا ان کے جوتے، کپڑے، کتابیں، کاپیاں بکھری ہیں جنہیں عالیہ واپس آکر سمیٹے گی مگر مجھے اس بے ترتیبی میں اُن تینوں کے چہرے نظر آرہے ہیں۔ تم میرا اتنا خیال رکھتی ہو، میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں میری بیٹیو!سوائے دعاؤں کے۔ جیتی رہو، شاد رہو، آباد رہو، سکھی رہو۔

صبح اخبار پڑھتے ہوئے پتہ چلا کہ آج خواتین کا عالمی دن ہے، یہی چھوٹی سی خبر، میری سوچ کے کواڑوں پر اُ ن یادوں کی دستک کا باعث بنی۔ سرداراں بی بی سے لے کر امامہ سجاد تک، چار پیڑھیوں کی وہ تمام خواتین نظروں کے سامنے گھوم گئیں جنہوں نے میری زندگی کو آسانیاں فراہم کیں، آسودگی بخشی اور محبتیں نچھاور کیں۔ مگر یہ سب یاد کرتے وقت میں متضاد کیفیات کا شکار ہوں۔ جہاں ایک مسحور کردینے والا احساس محبوبیت طاری ہے وہاں ایک گلٹ، ایک احساسِ جرم بھی کچوکے بھرتا ہے۔

میں ایک مرد ہوں، عورت کی چار نسلوں کی آنکھ کا تارا اور اس کی وارفتگیوں کا مرکز مگر میں کیسا بے مہر ہوں، وفا ناشناس اورکتنا کمینہ کہ بدلے میں، میں نے عورت کے چہرے پر تیزاب انڈیلا، اپنی مردانگی ثابت کرنے کو اس پر تشدد کیا۔ ”غیرت“ کی کلہاڑی سے اس کی گردن ماری۔ کبھی زندہ دفن کردیا اور یہ حال سنا کر رسولِؐ رحمت کے عین ہائے اطہر کو ایسا تر کیا کہ ریشِ مبارک گیلی ہوگئی۔ میں نے عورت کو پیر کی جوتی جانا اور خدمت کا صلہ یہ دیا کہ اسے ناقص العقل قرار دے کر کہا کہ اس کی تو عقل گُت میں ہوتی ہے۔ مجھے اپنی ذات سے شرمندگی ہورہی ہے۔ کاش! یہ شرمندگی اس سماج کے ہر مرد کے احساسات میں جگہ بناسکے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اس شرم ساری کی برسات میں بھیگتے ہوئے مجھے سپاس گزاری کا ایک جملہ کہنا ہے۔ ”خالقِ کائنات، میرے رب کی خوب صورت تخلیق اے عورت! تیرا شکریہ۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).