خواتین کا عالمی دن اور بطور صحافی اپنا خود ہی انٹرویو


صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں خبروں سے  کھیلا جاتا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی خبر کو بڑھا چڑھا کر مرچ مصالوں سے تیار کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک خاتون کا صحافت کے شعبے سے وابستہ ہونا اس کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔

خواتین کے عالمی دن پر میں نے خود اپنا انٹرویو کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ کیوں کہ اقبال فرماتے ہیں کہ خودی کو کر بلند اتنا۔۔۔

بات کرتے ہیں سمیرا راجپوت سے!

آپ کو میڈیا میں ہی کام کرنے کا خیال کیوں آیا؟

یونیورسٹی کے آخری سال میں میڈیا چھایا ہوا تھا۔ ہر نئے دن ایک نیا چینل آجاتا۔ خیال آیا کہ اپنے خیالات لوگوں تک پہچانے کا یہ بہترین ذریعہ ہے اور صحافت میں قدم رکھ دیا۔ لیکن یہاں آکر معلوم ہوا آپ اتنا ہی بول سکتے ہیں جتنا چینل کی پالیسی اجازت دیتی ہے۔

جب کبھی میری ذات پر سوال اٹھتا ہے تو سوچتی ہوں اس شعبے میں کیا میں پہلی خاتون ہوں جس کی کردار کشی کی جا رہی ہے؟

میڈیا ایک ایسا شعبہ ہے جس میں خاص طور پر خواتین کو بہت بچ کر چلنا پڑتا ہے۔ وگرنہ جانے انجانے میں ہی سہی اگر آپ نے کسی سے بس کی بکنگ بھی کروا لی جائے تو ایسے ایسے مغلظات بکے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اور اس کردار کشی میں خواتین مردوں سے ایک قدم آگے چلتی ہیں۔ میڈیا کی ہر خاتون کو کہیں نہ کہیں اس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں ہر قدم پر اپنے کردار کی پختگی کا ثبوت دینا لازم ہے۔

 آپ کیا سمجھتی ہیں میڈیا میں خواتین کو مردوں کے برابر سمجھا جاتا ہے؟

اس پر مجھے حال ہی کا ایک انٹرویو یاد آگیا۔ میڈیا کے ایک معروف شخص نے میرا انٹرویو لینے کے بعد مجھ سے سوال کیا۔ میں ایک ہی شفٹ میں دو خواتین کیوں رکھوں؟ میں ایک مرد اور ایک خاتون سے اپنی شفٹ کیوں نہ چلاوں؟

تو جواب یہ تھا آج ایک بڑے میڈیا گروپ کی سی ای او خاتون ہیں۔ پشاور جیسے شہر میں بین الاقوامی نیوز ادارے کی بیورو چیف خاتون ہیں۔ اور تو اور ایک لیڈنگ چینل کو کراچی سے ایک خاتون بیورو چیف ہیں دیکھ رہی ہیں، جس کے بعد مجھے اس نے نوکری نہیں دی۔

آج کا مرد بھی برابری پر یقین نہیں رکھتا جو یقین رکھتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ آج بھی خواتین کو نمود و نمائش کے لیے ہی رکھا جاتا ہے۔ اسکرین پر تنگ کپڑے پہنا کر بٹھایا جاتا ہے۔ اور ایسے ایشو پر بولنے کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کو محظوظ کریں نہ کہ ان میں شعور پیدا کریں۔مواقع ہیں لیکن انہیں حاصل کرنے کے لیے مردوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ خواتین سے غیر محفوظ ہونا چھوڑیں اور ان سے پیشہ ورانہ میدان میں مقابلہ کریں۔

جب لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق صحافت سے ہے تو ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟

میڈیا کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک رنگین دنیا تصور کر لیتے ہیں جس میں ایک نہایت ہی روشن خیال معاشرہ، لاکھوں میں تنخواہ اور اچھے اور برے کا تصور نہیں ہوتا اور آپ کو اسی زاویے پر جج کیا جانے لگتا ہے۔ اکژ مجھے یہی سب سننے کو ملتا ہے تم لوگوں کی تو موج لگی ہوئی ہے۔ تم تو بہت ایونٹ اٹینڈ کرتی ہو۔ بجائے یہ جانے کہ میری ذاتی زندگی کیا ہے اور میری نوکری کا حصہ کیا ہے جب کہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے!

کیا صحافت روشن خیال شعبہ ہے؟

اس کا جواب ہاں میں دینا تو ممکن ہی نہیں۔ جتنا اس شعبے میں لوگوں کو جج کیا جاتا ہے شاید ہی کہیں اور کیا جاتا ہو۔ جتنی اس شعبے میں خواتین کو آفر آتی ہیں شاید ہی کہیں اور آتی ہوں۔ کون جینز میں پھر رہی ہے کون کس کے ساتھ آرہی ہے کون کس کے ساتھ جارہی ہے آدھی رپورٹنگ ہوتی ہی اسی چیز پر ہے۔ آج کی خاتون کا بھی مردوں میں بیٹھنا اتنا ہی معیوب سمجھا جاتا ہے جتنا بہت عرصہ پہلے تھا۔ یہ سب چیزیں صرف صحافت کے اندر تک ہی محدود نہیں جن لوگوں کو کسی خبر کے لیے اپروچ کیا جاتا ہے بعض اوقات ان کا رویہ بھی اتنا ہی کند ذہن اور دقیانوسی ہوتا ہے۔۔

سمیرا راجپوت بطور خاتون صحافی خواتین کے عالمی دن پر کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟

سب سے پہلے تو کردار کشی کرنے والوں سے معذرت، خواتین کو نمود و نمائش کا ذریعہ سمجھنے والوں سے معذرت، خواتین کے کپڑوں اور دوپٹے میں اٹکے ہوئے لوگوں سے معذرت، خواتین کو سیکس آبجکیٹ سمجھنے والوں سے معذرت۔ تمام مردوں سے درخواست ہے خواتین کو ان کی صنف کی بجائے ان کی قابلیت پر پرکھنا شروع کر دیں۔ اور خواتین سے درخواست ہے پرسنل جیلسی کو پیچھے چھوڑیں اور پیشہ ورانہ جیلسی رکھیں رکھنی بھی ہے تو۔

خواتین تو اب میدان میں آچکی ہیں یہ اب پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ یہ اب صرف اسکرپٹیڈ نہیں بولیں گی اپنا ریسرچ بیسڈ پروگرام بھی کریں گی۔ بیورو چیف تو ہیں ہی مستقبل قریب میں کنٹرولر نیوز اور ڈائریکٹر نیوز بھی ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).