خواتین کے دن پر دو بلاعنوان کہانیاں


شائمہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد نوکری کی تلاش میں تھی۔  اسے اب اپنے گھر والوں کو سپورٹ کرنا تھا۔ اس کے ماں باپ نے اسے پڑھانے کے لئے بہت دکھ جھیلے تھے ۔ شائمہ  نے ہر کلاس میں اچھی پوزیشن حاصل کی تھی ۔ وہ خوبصورت تھی اسے یونیورسٹی میں بہت طلبگار دکھائی دیتے رہے۔ جو اس کے پاس آنے کی کوشش کرتے تھے ۔

اس نے اپنے کام سے کام رکھا ۔ بس پڑھتی تھی کہ پڑھنے ہی آئی تھی ۔ ییونیورسٹی کا دور  بھی گزر گیا۔ والد اب بیمار رہنے لگے تھے رٹائر بھی ہو گئے تھے ۔ اب اپنی فیملی کا سہارا اسے ہی بننا تھا ۔ اس کے والد تو اس کی نوکری کے مخالف ہی تھے ۔ نری مخالف کیا کرتی جب خرچے پورے کرنے کا کوئی وسیلہ ہی دستیاب نہ تھا ۔

والد کی خاموش رضامندی مل گئی ۔ یہ نوکری ڈھونڈنے بہت جگہ گئی ۔ ایک دن اس کے والد کے فون پر اسے انٹرویو کے لیے پہنچنے کا پیغام آیا ۔ شائمہ مقررہ دن اس دفتر پہنچ گئی ۔ وہاں اور بھی لڑکیاں موجود تھیں ۔جو اسی ملازمت کے لیے آئی ہوئی تھیں ۔ شائمہ کے آنے سے اک رونق سی لگ گئی ۔ کیا مرد کیا عورتیں سب اسی کو دیکھ رہے تھے ۔

وہ سادگی میں بھی اتنی پیاری لگ رہی تھی ۔ سب کی آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں ۔  لڑکیوں نے جب اسے دیکھا تو یہی سوچا کہ شائمہ کی خوبصورتی ہی معیار بن جائے گی ۔ اسی کو یہ جاب ملے گی اب ۔  شائمہ کا نام پکارا گیا ہ دھڑکتے دل کے ساتھ اندر دا خل ہوئی ۔ اسے دیکھ کر بھی سب دھک سے ہی رہ گئے تھے ۔ اس سے الٹے سیدھے سوالات کیے گئے ۔ کسی نے بھی مہارت یا تعلیم کے بارے میں کم ہی پوچھا ۔

 شائمہ سے کہا گیا کہ آپ جاؤ ہم رابطہ کرلیں گے ۔ وہ جب واپس نکلنے لگی تو ایک بورڈ ممبر اس کے پیچھے چلا آیا ۔ اس نے کہا آپ نروس تھی مگر خیر ہے ۔ فکر نہ کرنا کوئی بات نہیں ۔ آپ اپنا پتہ اور رابطہ نمبر مجھے دے دیں ۔ کل کسی وقت مجھے فون کر لیں ۔ میں آپ کو معلومات دے دونگا کہ انٹرویو کا کیا بنا ۔  ملازمت کے لیے پریشان شائمہ کئی دن یونہی اسے فون کرتی رہی۔ بورڈ ممبر اس سے باتیں کرتا رہا وقت ٹالتا رہا ۔ پھر ایک دن اس  نے شائمہ کو بتایا کہ وہ جاب تو کسی اور کو مل گئی ۔

میں آپ کے لیے پھر بھی ایک نئی اسامی نکال سکتا ہوں ۔ آپ مجھ سے کہیں باہر مل لیں ۔ آپ سمجھ تو رہی ہیں نہ میرا مطلب ۔ آپ کو تیس ہزار ماہانہ سے بھی زیادہ پر نوکری دلوا دونگا ۔ شائمہ بھی سمجھ گئی آپ بھی سمجھ ہی گئے ہونگے ۔

خواتین کے دن کے حوالے سے دوسری کہانی سنیں

یہ شائمہ نوکری کرتی تھی ۔ اس کی ساس نے اپنی چاند سی سگھڑ دلہن اسی میں ڈھونڈی ۔ ساس کا کہنا تھا اسے اپنے بیٹے کے لیے اس سے اچھا رشتہ مل ہی نہیں سکتا ۔ انہیں اک خوشی یہ بھی تھی کہ بہو نوکری بھی کرتی ہے ۔ دونوں کو پیسوں کی تنگی نہیں ہو گی ۔ شادی ہو گئی سب ٹھیک رہا ۔ پھر یہ شائمہ باہر نوکری کے ساتھ اس گھر میں بھی نوکر ہی بن کے رہ گئی ۔

کوئی اس کی پروا نہیں کرتا تھا ۔ کھانا دیر سے ملنے پر اس کو کوسنے ملتے تھے ۔ خاوند نے بھی گھر والوں کی خدمت کرنے کو ریت رواج بتا کر اس کی مدد سے انکار کر دیا ۔ ساس نے کہا ہمارے گھر رہنا ہے تو سب کا خیال رکھنا ہو گا ۔ شائمہ نے کہا کہ وہ نوکری چھوڑ دے گی اور سب کی خدمت کرے گی ۔ نوکری چھوڑنے کا سن کر سب کو ہی چپ لگ گئی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).