محمد اظہار الحق کے ہمراہ اندرون لاہور میں ایک دن



محمد اظہار الحق صاحب اردو کے مہاتما شاعر، پُر تاثیر کالم نگار اور سابقہ سول سروس کے صبوحی ہیں۔ بہت دن سے اُنھوں نے ہمارے ساتھ اندرون لاہور کی پھیرا پھیری کا منصوبہ گانٹھ رکھا تھا۔ بارے کل وہ دن آیا۔ اظہار صاحب اسلام آباد سے لاہور آتے ہیں اور جیسا کہ بڑے افسروں کا کام ہے، ڈی ایچ اے میں اُنھیں آرام ہے، وہ بھی وہیں ٹھہرتے ہیں۔ اپنی بیٹی کے ہاں۔ خیر باہمی امور کی دلچسپی کے تحت پروگرام طے یوں ہوا کہ آپ ڈی ایچ سے پاک ٹی ہاوس آئیں اور ہم یونیورسٹی سے پاک ٹی ہاوس آئیں، وہیں سے اندرون لاہور جائیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑا آدمی دیر سے پہنچتا ہےمگر یہاں قدرت کا تماشا دیکھیے، اظہار صاحب پہلے پہنچ گئے کہ ایک تواُن کی گاڑی تیز تھی، دوئم ہم نے یونیورسٹی سے کلاس لے کر نکلنا تھا۔ مگر ایک بندوبست ہم نے یہ کیا کہ اُن سے پہلے وہاں ارسلان راٹھور کو پہنچنے کی تاکید کر دی اور وہ آغا صاحب کی معیت میں استقبال کو حاضر ہو گئے۔ اب ہماری سنیےکہ فرقان احمد کے ساتھ نکلے۔ مسلم ٹاون کو پیچھے چھوڑ کر مال پر چڑھنے کی بجائے شاہ جمال میں سے ہو لیے کہ جلدی پہنچیں گے مگر لاہور کو جو کچھ اِن دو لوہا باز نونی بھائیوں نے بنا رکھا ہے وہ تو آپ واقف ہیں۔ سچ بتاوں تو لاہور میں اب سفر کرنے کے لیے ٹینک کی سواری موزوں ترین ہے۔ جو کھُدی ہوئی سڑکوں اورجوہڑوں سےدرانہ نکل جائے۔ مال روڈ، مزنگ روڈ، جیل روڈ، میوہسپتال اور اُس کے ارد گرد کا اب سب کچھ کھنڈرات ہے اور اُس میں بے دریغ لوہا دھنسا جا رہا ہے۔ مجھے فکر ہے کچھ سال بعد جب لاہور غرق ہو جائے گا تو آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو اِس کی کھدائی کرنے میں کتنی مشکل ہو گی۔

بارے دن کے بارہ بجے کا عمل تھا کہ ہم نے اظہار الحق صاحب کو بمع ارسلان راٹھور جا پکڑا۔ ہمارے جانے سے پہلےدونوں کے علاقائی بیانیے مل چکے تھے۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے، اندرون لاہور میں حمزہ شہباز کے خلاف الیکشن لڑنے والے ملک وقار صاحب ہمارے دوست طرح دار ہیں، علم و ادب سے اُن کا علاقہ گہرا ہے، مہمان نوازی کا ہُنر اُنھیں خدا کی طرف سے ملا ہے۔ پچھلی بار جب ہم آغا سلمان باقر کے ساتھ اندرون لاہور گئے تھے تو اُنھوں نے سخت شکایت کی تھی کہ ہمیں کیوں نہ بتایا۔ اب اِس خوف کو رفع کرنے کے واسطے اُنھیں خبر دی، اور اُن کی نستعلیقیت دیکھیے، اپنے بھائی نوفل کے ساتھ بھاٹی دروازے پر کھڑے تھے۔ ہم نے پہلے عرض کیا تھا، بھاٹی دروازے سے شہر میں داخل ہوں تو بائیں ہاتھ، اگر نکلیں تو دائیں ہاتھ چائے کا کھوکھا ہے۔ شاید ہی لاہور میں ایسی اچھی چائے کہیں اور ملتی ہو۔ پہلے وہیں بیٹھے اور چائے پی، واقعی اظہار صاحب خوش ہو گئے۔ یہ جگہ ایک اساطیری عمل کرتی ہے۔ سرکنڈے کی تیلیوں کو باندھ کر اِس کے ارد گرد ڈھک دیے گئے ہیں اور اندرلکڑی کے ٹوٹے پھوٹے دو چار بنچ رکھ دیے گئے ہیں۔


لیجیے اب ہم بازارِ حکیماں میں داخل ہو گئے اور ناشتے والی دوکانوں کو دائیں بائیں چھوڑتے آگے چلتے گئے کہ اِن کا وجود ہمارے معدے کے لیے خطرہ تھا۔ ملک وقار صاحب اظہار صاحب کو اِس بازار کی خصوصیت بتاتے جاتے تھے، مثلاً یہاں کے باسی کھاتے بہت ہیں، لڑتے بہت ہیں، مرتے بہت ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد کا دم بھرتے بہت ہیں۔ حویلی سید فقیر، فقیر خانہ میوزیم کو ہم نے باہر سے ہی دیکھنے پر اکتفا کیا۔ سبب اِس کا یہ کہ اظہار صاحب کو جلدی تھی۔ ادھر میوزیم میں داخل ہونے سے پہلے فقیر سیف الدین کا دو گھنٹے کا لیکچر سننے میں وقت نکل جاتا، جبکہ اظہار صاحب کی اِس سیر میں بجائے شاہانِ رفتہ کی عظمتِ کہنہ کی عبرتیں دیکھنے کے، سب سے بڑی تمنا مولانا محمد حسین آزاد کا مکان دیکھنے کی تھی۔ چنانچہ ہم وہاں سے ایسے گزرے جہاں زاد جیسے کسی شہرِ مدفون پر وقت گزرے۔ ایک نظر علامہ اقبال کی چوکی پر ڈالی اور آگے کی راہ لی۔ اقبال کسی دَور میں یہاں کرائے پر رہا کیے۔ پڑوس میں شاہی محلہ ہے، اب خدا جانتا ہے، شاعرِ مشرق حُسنِ مشرق سے کتنا مستفید ہوئے ۔ دروغ بر گردنِ راوی بعض راویانِ اقبال کا فرمانا ہے اُنھیں جو کچھ مقام جذب اور اَوجِ لاہوت و ملاکوت ملا، یہیں سے ملا۔ اب یہ بازار بہت گندہ ہے کہ یہاں تجاوزات کا بہت دھندہ ہے، وجہ اِس کی صرف ن لیگ کا پھندہ ہے۔ کچھ آگے ہوئے تو شاہی محلے کا چوک پڑتا ہے، یہ کچھ کچھ کھلا چوک ہے، یہیں ایک سینما بھی تھا۔ اور نزدیک ہی اُستاد دامن، اور اختر لاہوری بیٹھکیں جماتے تھے۔ اِس کے آگے شاہی مسجد اور قلعہ کی دیوار چلی آتی ہے جس کے ساتھ مہنگی ترین فوڈ سٹریٹ ہے۔ مگر ہم اُدھر سے بچ کے نکل گئے اور پھجے کے پایوں والی دوکان کے آگے اظہار صاحب کو ٹھہرا کر دو تصویریں لیں۔

تھوڑا آگے بائیں جانب سے اندر ہوئے اور اُونچائی کی طرف چلے۔ یہ جگہ صاف بھی ہے پُر شکوہ بھی ہے۔ وقار صاحب اور اُن کے بھائی نوفل کا ساتھ ہونے کے سبب ہمیں جگہ جگہ سلام دعا اور خیر خیریت کی رسم سے گزرنا پڑا۔ بھئی کون آدمی ہے جو لاہور میں اِن کی عزت نہیں کرتا۔ کاش ساری پی ٹی آئی ایسی ہی ہوتی۔ اب دھیان سنگھ کی حویلی میں جا نکلے۔ یہ حویلی بھاری ڈیوڑھیوں سے گزر کر دائیں بائیں کے پہلو والے پھاٹکوں میں کُھلتی ہے مگر اب وہ حویلی کہاں، بس یوں سمجھیے کہ ایک مندر ہے، اُجڑا ہوا بے نور پُرانا مندر۔ ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے۔ یہی وہ حویلی تھی جس میں اول اول گورنمنٹ کالج لاہور کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ اب بس یہاں ایک جو چیز زندہ ہے وہ پیپل کا ایک پیڑ ہے، خدا اُسے سلامت رکھے، یہیں ہمیں ملک وقار صاحب کا ایک دوست تنزیل میاں اپنے گھر میں لے گیا۔ یہ گھر بڑے صحن سے گزر کر آتا ہے اور صحن میں کچنار اور بیری کے دو بڑے بڑے پیڑ وقتِ کہنہ کی یاد دلاتے ہیں۔ اِس گھر کی نچلی منزل ڈھائی تین سو سال پرانی ہے اور سکھ آرٹ کی کہانی ہے۔ ڈاٹیں، محرابیاں سکھ طرزِ تعمیر ہے، اندر کے در دارا شاہی ہیں۔ ہم گھر میں داخل ہوئے تو اُس کے کمروں میں جوتے بنانے والے کرخندار بیٹھے کام کرتے تھے۔ ایک بار جب ہم دلی گئے تھے تو وہاں بھی اِن پرانے گھروں میں کرخندار اسی طور میں بیٹھے کچھ نہ کچھ بناتے تھے۔ دیکھیے اللہ کے کارخانے، کون کہہ سکتا تھا کہ جن گھروں کی ڈیوڑھیوں پر ہاتھی جھولتے تھے، اب اُن میں جوتوں کے ڈھیر پڑے ہوں گے اور کرخندار اُن میں کیل ٹھونکیں گے۔ تنزیل صاحب ہمیں اُوپر کے حصے میں لے گئے۔ یہ والا حصہ بعد کا بنا تھا۔ یہاں ہم کچھ دیر سستائے، تنزیل صاحب پھجے کے پائے لائے، ہمیں کھلائے، مَیں نے آدھا نان اور دو ڈونگھے شوربہ پیا، اظہار صاحب نے بھی یہی کچھ کیا۔ فرقان احمد، ملک وقار صاحب اور نوفل اور آغا جی نے بھی ہمارا ہاتھ بٹایا مگر ارسلان نے کچھ نہ کھایا۔ بھئی یہ اِس معاملے میں بہت نالائق ہے۔ ہر اچھا کھانا اِسے بُرا لگتا ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ دادا اِس کا کھتری تھا، بہت دیر میں مسلمان ہوا، ابھی گوشت اِس کے منہ کو نہیں لگا۔ یہاں بیٹھے ہوئے نوفل صاحب بہت کچھ سوالات کر رہے تھے، یہ لڑکا بہت متجسس ہے، اللہ اِسے علم سے نوازے۔

لیجیے بعد اِس عملِ نیک کے، ہم چلے کشمیری بازار اور اکبری منڈی کی طرف۔ اور چلتے چلتے آخر کشمیری بازار میں موجود اُس سنہری مسجد میں نکل آئے جس کا ذکر ہم نے پہلے دو بار کیا ہے اور تیسری بار یہی کہیں گے کہ جس نے اِس کے بارے میں جاننا ہے وہ ہماری اندرون لاہور کی پہلی دو سیریں پڑھ لے۔ اظہار صاحب نے مسجد کی زیارت کی، ہم نے خود بھی کی، مسجد کا حلیہ بگاڑنے والوں پر لعنت کی، ہم نے بھی کی۔ حوض گندا تھا، دیواروں میں کیل ٹھُنکے تھے، صحن اور اندرون میں میں لوہے کے پائپ اور لوہے کی الماریاں، جڑ دی گئیں۔ اے لاہوریو تمھیں اللہ سمجھے۔ نیچے اُترے، کشمیری بازار میں چلتے ہوئے مسجد وزیر خاں کے پچھواڑے والی گلی میں جا پہنچے۔ کشمیری بازار کا یہ حصہ بہت خوبصورت ہے اور پُرانی طرز پر بحال کیا گیا ہے، کاش سارا لاہور ایسے ہی بحال ہو جائے تو میاں ایک کمال ہو جائے۔ اظہار صاحب کی خواہش کے مطابق ہمیں اب مولانا آزاد کے مکان کی طرف اکبری منڈٰی نکلنا تھا جہاں مبارک حویلی بھی ہے، نثار حویلی بھی ہے۔ رستے میں ایک جگہ بیکری میں رُکے، کچھ ختائی، رس اور برفی کھائی اور چند لمحوں میں مبارک حویلی امام باڑے کی زیارت کی۔ یہی وہ امام باڑہ ہے جہاں مولانا آزاد سلام و منقبت پڑھا کرتا تھا اور مجلسیں سنا کرتا تھا۔ اور ماتم داری امام مظلوم کیا کرتا تھا۔ لو میاں آخر ہم مولانا کے مکان پر آ ہی گئے۔ اظہار صاحب اُسے دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے اور دیکھا یہ کہ جو مولا نا کا خاص کمرہ تھا وہ بسکٹوں کے ڈبوں کا اسٹور بن چکا ہے، جہاں مولانا کا ذاتی امام باڑہ تھا، وہ ڈالڈے گھی کے پیپوں کا اسٹور ہے، جہاں مولانا مہمانوں سے ملا کرتے تھے وہ قفل زدہ ہے، گھر حصوں بخروں کا کارخانہ ہے۔ بھئی پھر بھی مقامِ شکر ہے، اگر کہیں وہاں بھی جوتوں کی فیکڑی لگا دی جاتی تو مولانا اُن کا کیا بگاڑ لیتے۔ خدا سمجھے اور بہت سمجھے اِن گورنمنٹ کالج لاہور اور اورئنٹل کالج لاہور اور حکومتی انتظامیہ والوں سے، جنھیں نہ اپنے مشاہیر کی پروا، نہ اپنے ادب کی پروا، نہ اپنی آئندہ نسلوں کی خبر۔ اِسے کہتے ہیں مادر پدر آزاد معاشرہ۔ اے سٹی وال والو، اے کامران لاشاری اگر تجھے خدا توفیق دے تو مولانا کا گھر ہی اصلی شکل میں لے آ۔ یہ مولانا سمجھ لے اردو ادب کا اور اردو نثر کا اوتار تھا۔ خیر بھائیو، ہم آنسو بہا کر اور جی بُرا کر کے وہاں سے نکلے، دہلی دروازے پر آئے۔ وہاں سے مال پر جگہ جگہ لاہوری خندقیں عبور کرتے ہوئے اپنے ٹھکانوں پر آ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).