ایک بچی، گاؤں کے اسکول میں


خواتین کے بارے میں جب کبھی سنجیدہ گفتگو ہوتو مجھے یہ کہنا اچھا لگتا ہے کہ میں توخود تین عورتیں اور ایک کہانی ہوں۔ مطلب یہ کہ میری زندگی بڑی حد تک تین عورتوں کی تحویل میں ہے۔ ایک میری بیوی اور دوسری بیٹیاں۔ بچپن بھی میں نے ایک ایسے گھر میں گزارا جس میں میری ماں کی متانت اور نرمی کا راج تھا۔ انہوں نے پڑھنا لکھنا گھر میں سیکھا اور کبھی اسکول نہیں گئیں لیکن ان کی بڑی بیٹی، میری بہن ڈاکٹر عقیلہ اسلام، پاکستان کی پہلی خاتون تھیں کہ جس نے نیو کلیر فزکس میں کینیڈا کی ایک یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ویسے یہ سب بہت پرانی باتیں ہیں اور میں آج کل کے زمانے کی بات کرناچاہتا ہوں۔ اس کالم کا حوالہ ظاہر ہے کہ جمعرات کو منایا جانے والا عالمی یوم خواتین ہے۔ ایسے دن رسمی انداز میں منائے جاتے ہیں۔ گزرے ہوئے سالوں میں جوباتیں کہی جاچکی ہیں ان کو آسانی سے دہرایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سال معاملہ کچھ مختلف ہے۔

ایک انقلاب توعالمی سطح پر رونما ہورہا ہے۔ زور آور مرد حضرات جس طرح خواتین کے ساتھ جنسی زبردستی کرتے رہے ہیں اس کی تشہیر نے سماجی رشتوں کی بنیادوں میں ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ بات ہالی وڈ کے ایک دبنگ پروڈیوسر کے خلاف اداکاروں کے انکشافات سے شروع ہوئی۔ ایک کے بعد ایک اداکارہ نے اپنا راز افشا کیا اور پھر تو جیسے ایک لائن سی لگ گئی کئی معروف نام بھی اس فہرست میں شامل تھے۔ یہ سب کچھ ایک عرصے سے ہورہا تھا لیکن کبھی حالات اور واقعات کچھ ایسی کروٹ لیتے ہیں کہ صبر کاپیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ سو یہ ہوا کہ ہالی ود کے اس پروڈیوسر کی حیرت انگیز ہزیمت کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے بہت بت بھی پاش پاش ہوگئے اور کئی ملکوں میں خواتین احتجاجی مہم کا آغاز ہوا جس میں نئے انکشافات سامنے آئے۔ خود پاکستان میں ہم نے فیشن اور شوبزنس کی چند خواتین کو یہ اعتراف کرتے ہوئے دیکھا کہ انہوں نے بھی اپنے ماضی میں یہ زیادتی برداشت کی تھی۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی اورخاص طور پر قصور میں چھوٹی بچی زینب کے واقعہ نے ہمارے معاشرے کی ایک ایسی صورت حال نمایاں کی ہے کہ جس کو غور سے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت شاید ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس کا تعلق ہماری فکری، اخلاقی اور تہذیبی مفلسی سے بھی ہے۔ اپنے بارے میں کھل کربات کرنے کا ماحول ہی موجود نہیں۔ میڈیا تودور کی بات ہے۔ کسی یونیورسٹی کے کیمپس تک پرسوچ اور اظہار کی آزادی ممکن نہیں ہے۔

لیکن ٹھہرئے۔ یہ موقع توجشن منانے کا ہے۔ خواتین کی تعلیم اور ان کی آزادی کیسے پسماندہ ملکوں کی آزادی اور خوشحالی کا سبب بنی اس کا اعتراف کرنے کا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عالمی سطح پر خواتین خود کو منوارہی ہیں۔ ایک خاص پس منظر میں دنیا بدل رہی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم نے بھی یہ دن اس سال کچھ زیادہ جوش وجذبے سے منایا۔ سیمیناروں اور بیانات کے ساتھ ساتھ کئی عوامی اجتماعات بھی ہم نے دیکھے جن میں خواتین نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ مجھے بتایا گیا کہ کراچی کی عورت مارچ میں اس دفعہ نوجوان لڑکیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ممکن ہے کہ زیادہ سے زیادہ مرد اب یہ محسوس کریں کہ زندگی کی جدوجہد میں خواتین ان کی مدد کرسکتی ہیں اور ان کا سہارا بن سکتی ہیں۔ میری نظر میں خواتین کے عالمی دن کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ آج کی دنیا میں مرد اور خواتین کوساتھ ساتھ چلنا چاہیے اور کئی معاملات توایسے ہیں کہ جن میں خواتین مردوں کے آگے بھی چل سکتی ہیں۔

ہاں، ہمارے سماجی روئیے اور ہماری روایات خواتین کو نہ صرف آگے بڑھنے سے روکتی ہیں بلکہ ان کے خیالات اور فطری جذبات پربھی پہرے بٹھاتی ہیں۔ اس صورت حال کوہر طور بدلنا ہے، ہاں، سماجی تبدیلی کے اس عمل میں ہماری خواتین کواک آگ کے دریا کو عبور کرناہوگا۔ غیرت کے نام پرکیے جانے قتل کی صورت میں ہم ان کو یہ عذاب سہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس دن کا ایک پیغام مردوں کے لئے بھی ہے۔ جب تک مردوں کی سوچ نہیں بدلے گی تب تک خواتین کوان کا جائز حق نہیں ملے گا۔ مطلب یہ کہ مردوں کواپنی فرسودہ سوچ سے آزادی کی ضرورت ہے اور ایک طرح سے خواتین کی آزادی کی جدوجہد مردوں کی آزادی کی جدوجہد بھی ہے۔ میں نے ایک اشارہ اپنےبارے میں بھی کیا تھا۔ میں پوری دیانت سے یہ کہتا رہاہوں کہ دوبیٹیوں کا باپ ہونا میری خوش نصیبی ہے۔ اور ایسے زمانے میں جب خواتین حکومتوں کی سربراہی بھی کر سکتی ہیں تو اولاد کی صنفی حیثیت سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہاں اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے گھر اپنے خاندان اور حلقےکی خواتین کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ ان سے ہماری محبت کا معیار کیا ہے اور ان کی آزادانہ پرورش کا ہم کتنا خیال رکھتے ہیں۔

یہ اندازہ آپ کو ہوچکا ہوگا کہ میں اپنے ملک اور معاشرے کے حالات سے بہت مایوس ہوں۔ اس مایوسی کا میں مسلسل اظہار کرتا رہا ہوں۔ یہ چند سال پہلے کی بات ہے کہ جب انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے ایڈیٹر نے مجھے اس مشکل میں ڈال دیا کہ یوم آزادی کے شمارے کے لئے میں ایک امید کا چراغ روشن کروں۔ یہ میرے لئے ایک چیلنج تھا۔ میں نے بہت سوچا۔ زندہ باد، قسم کی گفتگو بغیر سوچے سمجھے بھی کی جاسکتی ہے۔ اکثر کھوکھلی بھی لگتی ہے۔ تو آپ بھی سوچئے۔ پاکستان کاروشن مستقبل کہاں چھپا بیٹھا ہے؟ اور تب مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنی بیوی صادقہ کی تنظیم کے کئی چھوٹی بچیوں کے اسکول دیکھے تھے جو سندھ کے دیہی علاقے میں بنائے گئے ہیں۔ مجھے ایک گاؤںکا اسکول یاد آیا۔ اس کی ایک کلاس اور اس کلاس کی ایک بچی۔ میں نے اس سے کوئی سوال پوچھا تھا۔ وہ کھڑی ہوئی۔ اس نے پورے اعتماد سے اپنی بات کہی اور میں نے اس کی آنکھوں میں ایک روشنی دیکھی۔ پاکستان میں امید کی تلاش میں ان آنکھوں کی روشنی مجھے یاد آئی۔ میں نے وہ فرمائشی مضمون لکھا۔ اس کا عنوان کچھ ایسا تھا کہ امید ایک چھوٹی بچی کا نام ہے جو کسی گاؤں میں اسکول جارہی ہے۔ یہ پہلا قدم کسی کو کس منزل تک پہنچا سکتا ہے اس کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے۔ کرشنا کماری۔ جسے سب نیچ ذات کہتے ہیں اس سے ان کا تعلق ہے۔ ہرچیز اس وقت بدل گئی جب کرشنا کے مفلوک الحال مزدور باپ نے کہا میں اپنی بیٹی کو پڑھاؤں گا لیکن کیا آپ کو ان کرشنا کماریوںکی تعداد کا اندازہ ہے جو اس ظالم معاشرے کے صحرا میں ننگے پاؤں بھٹک رہی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).