چھ برسوں میں ابو کے نام بیٹی کا دوسرا خط


پیارے ابو جان
آپ پر سلامتی ہو

پورے چھ برس بیت جائیں گے آپ کو گئے ہوئے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے، نہیں گزرتا تو وہ وقت جو بہت مشکل ہوتا ہے۔ جن دنوں آپ زندگی اور موت سے جنگ لڑ رہے تھے وہ ایک دن چوبیس کے بجائے اڑتالیس گھنٹے کا لگتا تھا اور آج حساب لگا و تو برسوں گزر گئے۔ لیکن اتنے سالوں میں، مجھے ان سب پر غور کرنے کا موقع ملا جو میں نے آپ کی موجودگی میں نہیں کیا ہوگا، اور ویسے بھی غور تو ہم سب تب ہی کرتے ہیں جب کسی کو کھو دیں، کوئی ہمیں چھوڑ جائے یا ہم کسی کو چھوڑ دیں۔ کس نے کیا کہا تھا؟ کہاں زیادتی کی تھی؟ کہاں اچھا کیا تھا کہاں ساتھ نبھایا تھا؟ کس نے کب چھوڑا تھا کس نے دکھ بانٹا تھا یہ سب ہم روز ہی تو یاد کرتے ہیں پر ہمارے لیے ہمارے باپ نے کب کب، کیاکیا؟ ذرا مشکل سے نظر آتا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم سب اپنی ماؤں سے کافی قریب ہوتے ہیں وہ ہمارا خیال رکھتی ہے باپ کے غصے، مار، ڈانٹ سے بچاتی ہے اور اکثر یہ بتاتی رہتی ہے کہ باز آجاؤ ابھی تمہارے باپ کو نہیں معلوم کہ تم نے کیا کیا تھا۔ ذرا ہوشیار رہو تمہارے ابو کو پتہ چلا تو پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے اور موقع ملے تو ماں کہیں نہ کہیں یہ بھی بتا دیتی ہے کہ احساس کرو ماں کتنی تکلیفیں اٹھا کر اولاد کو پالتی ہے اپنی راتیں جاگ کر تمہارے آرام کے لئے قربان کرتی ہے، تمہارے کھانے پینے، پہناوے سے لے کر تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے اور ایک تم ہو جسے خیال ہی نہیں۔

اب میں سوچتی ہوں کہ ہر ماں اپنے بچے میں اس بات کا احساس ضرور اجاگر کرتی ہے کہ ماں کی عظمت کیا ہے اس کے قدموں تلے جنت کیوں ہے، وہ کیا کیا جتن کرتی ہے کیا کیا تکالیف اٹھاتی ہے۔ بچہ یہ سن سن کر بڑا ہوتا ہے اس میں اپنی ماں کے لئے خودبخود ایک محبت کا احساس جنم لے چکا ہوتا ہے اور باپ سے اس کا فاصلہ بڑھنے لگتا ہے۔

کیا عجیب بات ہے کہ مجھے یہ بات اب سمجھ آئی۔ آپ سے جڑی بہت سی باتیں مجھے اب یہ احساس دلاتی ہیں کہ اگر وقت پر اپنے احساسات کا اظہار کردیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ ویسے تو ہر بیٹی باپ کا رشتہ انمول ہوتا ہے پر مجھے آپ کے ہوتے ہوئے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ہمارا رشتہ کسی جج اور وکیل کا تھا جو ہر وقت کمرہ عدالت میں جرح کرتے رہتے اور جج اگلی تاریخ دے کر مقدمہ التواءمیں ڈال دیتا۔ صرف اس وقت ہی جج ایکٹیو نظر آتا جس و قت سو موٹو ایکشن لیتا۔ جو مقدمہ وکیل لے کر آتا وہ زیر غور ہی رہتا۔ لیکن اب یہ سمجھ آتا ہے کہ جو مقدمہ جوشیلا وکیل آپ کی عدالت میں پیش کرتا تھا اس پر فیصلے اس لئے محفوظ رکھے جاتے تھے کہ وہ مقدمے عقل سے نہیں جذبات کی بنیاد پر آپ کے سامنے پیش کیے جاتے تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ سامنے والا جوشیلا وکیل ایک بھی مقدمہ جیت کر گیا تو یہ اس کی عادت بن جائے گی۔

شاید آپ کے اسی انداز نے مجھ میں چیلنجز لینے کی اور ہار نہ ماننے کی عادت پختہ کی۔ میں روز اس امید کے ساتھ آپ کی عدالت میں آتی کہ شاید آج سنوائی ہوگی اور پھر کسی ناتجربہ کار وکیل کی طرح جو چٹکیوں میں سب ٹھیک کرنے پر یقین رکھتا ہے یہ کہہ دیتی تھی کہ ابو خاموش نہ رہیں جواب دیں ورنہ میں یہی کھڑی رہوں گی اور اس پر ڈائننگ ٹیبل کی کرسی چھوڑتے ہوئے آپ کی ایک دھیمی سی مسکراہٹ مجھے اشارہ دے دیتی کہ میری بات میں دم تھا چلو آج نہ سہی اگلی پیشی تک کوئی ہل جل ہو ہی جائے گی۔

آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے سب سے بڑا چیلنج کب دیا تھا؟ جب میں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ مجھے آگے پڑھنا ہے اور آپ اس کے حق میں نہیں تھے کیونکہ آپ کا یہ کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں کے ماحول اب اچھے نہیں اور آپ مجھے مخلوط تعلیمی ادارے میں نہیں بھیجنا چاہتے تھے کیو نکہ آپ میری عادتوں سے واقف تھے کہ اگر کسی نے مجھے کچھ غلط کہا تو میں حساب چکتا کرنے کی عادی ہوں تو آپ کی ایک فکر یہ بھی تھی۔ بالاخر جب میں نے خواتین کی یونیورسٹی میں جانے کا فیصلہ لیا تو اس وقت بھی آپ کو کچھ خفا پایا۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ اس خفگی میں پورے چار سال آپ نے مجھے آندھی آئے یا طوفان، ہڑتال آئے یا کوئی تہوار مجھے روزانہ یونیورسٹی کے گیٹ پر ڈراپ کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ آپ کی ناراضگی کب ختم ہوگی۔

اتنے برسوں میں ایک بار بھی آپ نے نہیں پوچھا کہ پیپر کیسا ہوا؟ کیا پڑھ رہی ہو؟ نہ کبھی یہ پوچھا کہ بیٹا تم ڈگری کس مضمون میں لے رہی ہو لیکن ایک سال بعد مجھے آپ کی ایک بات نے چونکایا جب صبح ناشتے کی میز پر آپ نے ایک پولیٹیکل ٹاک شو کے حوالے سے مجھے کہا کہ رات میں ایک پروگرام پاکستان میں آمریت کے ادوار پر کیا گیا ہے میں اسے دیکھوں تاکہ مجھے کچھ معلومات مل سکے۔ ان دنوں مجھے ایک اسائمنٹ جموریت اور آمریت کا تقابلی جائزہ ملا ہوا تھا۔ آپ کے اس مشورے کو سن کر مجھے جھٹکا لگا کہ کیا آپ اس بات سے واقف تھے کہ میں سیاسیات میں آنرز کر رہی ہوں۔

پھر اس روز کے بعد ہر صبح ناشتے کی میز پر ہم میں سیاست پر گرما گرم بحث ہوتی آپ مجھے وہ تمام سیاسی تبدیلیاں بتاتے جو آپ نے خود دیکھ رکھیں تھیں۔ میں یونیورسٹی میں جاکر ایک پروفیسر کے سامنے ذکر کرتی تو وہ ان سب کی تصدیق کرتیں اور پوچھتی کہ کہاں پڑھا؟ میں انھیں بتاتی کہ ابو نے بتایا ہے انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ان باتوں کو روز ایک ڈائری میں لکھا کرو۔ یہ سب کتابوں میں بھی نہیں ملے گا یہ وہ تجربات ہیں جو آنکھوں دیکھے ہیں۔ سیکنڈ ائیر کے پرچوں میں کچھ سوالات کے جوابات جن میں پاکستانی کی سیاسی تاریخ تھی میں نے کسی نوٹ سے رٹا لگا کر نہیں دیے بلکہ وہ لکھا جو آپ نے بتایا یا وہ جو میں نے کتابوں سے پڑھا تھا۔ میری ایک ٹیچر کا کہنا تھا کہ جب میری کاپی ان کے ہاتھ آتی تو وہ اسے سب سے آخر میں چیک کرنے لئے رکھ دیتیں کہ وہ اسے آرام سے پڑھنا چاہتی تھیں۔

برف کچھ کچھ پگھلنے لگی، میں اب کھل کر آپ سے سیاست پر معیشت پر بحث کرتی تھی آپ اخبار میں کچھ پڑھتے تو مجھے بلا کر بتاتے؟ آپ بلواسط بلاواسط میری مدد کر رہے تھے لیکن یہ مجھے دیر سے سمجھ آئی۔ تین سال مکمل ہوگئے، مجھے گولڈ میڈل دیے جانے کا دن آیا تو مجھے یاد ہے آپ نے امی سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہے بھی یا میں نے کوئی بڑھک مار دی ہے۔ جب میں اسٹیج پر گئی اور واپس لوٹی تو مجھے پہلی فکر یہ تھی کہ میں امی اور آپ تک پہنچوں، امی نے حسب د ستور جس طرح پیار کیا گلے لگایا اس کے لئے میں تیار تھی پر آ پ کی طرف آتے ہوئے آپ کا وہ انکار یاد آنے لگا، دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی اور سوچا کہ آپ تو چاہتے ہی نہیں تھے کہ میں آگے پڑھوں تو آج بھی آپ کیوں خوش ہوں گے پر ایک آواز آئی جب میری ایک دوست نے مجھے کہا کہ آگے بڑھو اور انکل کے پاس جاؤ۔

میں آگے بڑھی تو آپ دو قدم آگے بڑھے، گلے لگایا، پیار کیا اور کہا مبارک ہو بیٹا تم آج جیت گئی اللہ اور کامیابیاں دے۔ یہ پہلی بار تھا جب آپ نے مجھے گلے لگایا تھا اور آپ کا جذباتی جوشیلا وکیل پہلی بار کوئی مقدمہ جیتا تھا۔ میری دوستیں واقف تھیں کہ آپ ایک سخت باپ ہیں تب ہی کسی نے ایک چٹکلا چھوڑا کہ بھئی اصل گولڈ میڈل تو اب ملا ہے انکل سے شاباشی کی صورت میں۔

اس روز بننے والے یادگار گروپ فوٹو میں جب آپ کو بھی اساتذہ نے یہ کہہ کر شامل کیا کہ آپ بھی اپنے بیٹی کے ساتھ تصویر بنوائیں یہ یادگار ہوتی ہے خاص کر اس وقت کے لئے جب سب بدل چکا ہوگا کوئی ہوگا کوئی نہیں ہوگا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ یہ آپ کے ساتھ آخری تصویر ہوگی ہے جس میں آپ ہمارے ساتھ ہوں گے۔ میں نے تب جانا کہ کوئی باپ بہت عرصہ تک اپنی اولاد سے خفا اورغافل نہیں رہ سکتا، ہمیں لگتا ہے کہ ہماری تو کسی کو پرواہ نہیں ہماری ناکامی کامیابی کی تو کسی کو خبر نہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

ایک مزے کی بات بتاوں ہر ماہ گھر کے سودے میں سب آتا ہے پر اصلی گھی نہیں آتا، کیونکہ قصور آپ کا ہے آپ نے اگر گھر میں بننے والے اصلی گھی کی عادت نہ ڈالی ہوتی تو آج ہم بھی کہیں سے مہنگے داموں نقلی گھی پراٹھوں پر لگا لگا کر کھا رہے ہوتے۔ اف ہر اتوار کو جب آپ کچن میں فریج سے جمع کی ہوئی ملائیاں نکال کر چولہے پر چڑھا دیتے تھے تو ہم سب کو اس کی مہک بڑی ناگوار گزرتی تھی، لیکن جب وہ گھی بن کر مرتبان میں بھر جاتا تو امی کو ہم کہا کرتے تھے امی! ابو کے بنائے گئے گھی کی ان کے سامنے تو خوب برائیاں کردی ہیں اب ان کے آنے سے پہلے اصلی گھی کے پراٹھے بنادیں۔ مرتبان میں سے گھی کم ہوتا جاتا پر مجال ہے کہ آپ نے کبھی جتایا ہو کہ جب برائیاں اتنی ہوتی ہیں تو یہ کھا کون رہا ہے؟

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar