سیاسی جھرلو اور فوجی مداخلت


یورپ کے پرانے کاروبار وائین اور پنیر ہیں، یورپ میں ہزاروں سال سے انگور کاشت ہو رہے ہیں، ان انگوروں کی شراب بنائی جاتی ہے اور یہ شراب بعدازاں بیچی جاتی ہے، وائن میکنگ یورپ کے قصبوں کا باقاعدہ تہوار بھی ہے، یہ لوگ انگور پکنے کا انتظار کرتے ہیں، سرخ انگور اتارے جاتے ہیں، قصبے کے درمیان لکڑی کی بیس بیس، تیس تیس فٹ قطر کی کڑاہیاں رکھ دی جاتی ہیں، انھیں انگوروں سے بھر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد قصبے کی خوبصورت اور جوان لڑکیاں مختصر لباس میں ننگے پاؤں کڑاہی میں اتر جاتی ہیں، سازندے ساز بجاتے ہیں اور لڑکیاں انگوروں سے بھری کڑاہیوں میں اچھل کود شروع کر دیتی ہیں، اس اچھل کود کے دوران انگوروں کا رس نکلتا ہے اور اس رس سے بعد ازاں شراب بنائی جاتی ہے، مشرقی یورپ کے اکثر قصبے اپنی شراب کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں، اس میں چالیس کنواریوں کی خوشبو بسی ہے، یہ خوشبو کنواریوں کی نہیں، ان کے پاؤں کی ہوتی ہے اور بے وقوف شرابی شراب کے ساتھ پاؤں کی خوشبو بھی پی جاتے ہیں۔

یورپ کا دوسرا کاروبار پنیر ہے، یورپ کے دیہات اور قصبوں میں ہزاروں سال سے پنیر بنایا جا رہا ہے، یہ پنیر دیہات اور قصبوں کی خوراک بھی ہے اور تجارت بھی، پنیر اور چوہوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے، یورپ میں محاورہ ہے جہاں پنیر ہو گی وہاں چوہے بھی ہوں گے، پنیر چوہوں کی مرغوب ترین غذا ہے، یہ پنیر تک پہنچنے کے لیے آدھ کلو میٹر لمبی سرنگیں بنا لیتے ہیں، یہ مٹکے، ٹوکریاں اور برتن تک توڑ دیتے ہیں اور پنیر لے کر غائب ہو جاتے ہیں، چوہوں اور پنیر کی اس لڑائی کی وجہ سے یورپ میں بے شمار محاورے، بے شمار کہاوتیں اور بے شمار کہانیاں بنیں، یہ کہانیاں محض کہانیاں نہیں ہیں، یہ دانش اور ذہانت کا شاہکار بھی ہیں۔

مثلاً مجھے برسوں پہلے پنیر اور چوہوں کی ایک پولش داستان پڑھنے کا اتفاق ہوا، داستان کے مطابق پنیر سازوں کے ایک خاندان پر چوہوں نے یلغار کر دی، خاندان نے پنیر کو چوہوں سے بچانے کے ہزاروں جتن کیے، یہ رات بھر جاگتے رہتے، چوہے پکڑنے کی ٹکٹکیاں بھی لگائیں، گودام میں جگہ جگہ چوہے مار گولیاں بھی بکھیر دیں، یہ غلیلوں سے بھی چوہے مارتے رہے، پنیر کے مرتبانوں کے ڈھکن بھی ٹائیٹ کر دیے اور انھوں نے مرتبان بھی بدل دیے لیکن چوہوں کا مسئلہ حل نہ ہوا چنانچہ انھوں نے گاؤں کے سیانے سے رابطہ کیا، اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ” تم لوگ مرتبان بدلتے رہے، غلیلیں چلاتے رہے، گولیاں بکھیرتے رہے اور ٹکٹکیاں لگاتے رہے لیکن تم نے چوہوں کی آمدورفت کا راستہ بند نہیں کیا“ گھر کے لوگوں نے حیرانی سے پوچھا ” کیا مطلب“ سیانا بولا ” چوہوں نے گودام کے فرش میں درجنوں سرنگیں بنا رکھی ہیں، یہ ان سرنگوں سے گودام پر حملہ آور ہوتے ہیں، تم یہ سرنگیں جب تک بند نہیں کرو گے تمہاری پنیر محفوظ نہیں ہو گی“ گھر والوں نے پوچھا ” ہم کیا کریں“ سیانے نے جواب دیا ” تم فرش میں پتھر لگا دو، چوہوں کی سرنگیں بند ہو جائیں گی اور یوں تمہاری پنیر محفوظ ہو جائے گی“ اس کہانی کے آخر میں پولش محاورہ لکھا تھا ”جب تک فرش پکے نہیں ہوتے پنیر محفوظ نہیں ہوتی“ ۔

یہ کہانی دانش تھی اور دانش ہوا اور سورج کی طرح ہوتی ہے، یہ کسی ایک شخص، قبیلے یا خاندان کی ملکیت نہیں ہوتی یہ پوری دنیا کی امانت ہوتی ہے، یہ پولش دانش بھی دنیا کے ہر اس انسان کا ورثہ ہے جس کی پنیر چوہے کھا جاتے ہیں اور وہ صرف فرش پکا کر کے اس نقصان سے بچ سکتا ہے، ہم اس کہانی یا دانش کا کینوس اب ذرا سا بڑا کرتے ہیں، ہم پاکستان کے سیاسی حالات کو اس کے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کل فیصل آباد میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا، اصغر خان کیس نے سارے چہرے بے نقاب کر دیے اور اب کوئی ملک میں جھرلو نہیں پھیر سکے گا، کوئی تحصیل دار اور پٹواری کچھ نہیں کر سکے گا اور کوئی دھاندلی نہیں ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔

وزیراعظم شاید یہ فرمانا چاہتے ہیں، سیاست سے فوجی مداخلت ختم ہو چکی ہے، مجھے یہ بیان ہاتھی کو ٹکٹکی کے ذریعے پکڑنے کی کوشش محسوس ہوا، دنیا کے سو ممالک کی سیاست میں فوجی مداخلت تھی لیکن ان ممالک نے ستر برسوں میں آہستہ آہستہ فوجی ہاتھی کو اقتدار کے ڈرائنگ روم سے نکال دیا، ہم اگر جاپان سے لے کر جرمنی تک اور اٹلی سے لے کر ترکی تک ان سو ممالک کا مشاہدہ کریں تو ہمیں فوج کو سیاست سے بے دخل کرنے کے صرف دو طریقے ملیں گے، اول جرمنی اور جاپان ماڈل، ان دونوں ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد فوجیں ختم کر دیں، بانس ختم ہو گیا تو بانسریاں بھی خاموش ہو گئیں، جاپان میں پچھلے ساٹھ برسوں میں 31 حکومتیں تبدیل ہوئیں لیکن اس کے باوجود ان کا سسٹم چل رہا ہے، جاپان کے تیس فیصد لوگ اپنے وزیراعظم کے نام تک سے واقف نہیں ہوتے، ان سے وزیراعظم کا نام پوچھا جاتا ہے تو یہ پچھلے یا اس سے پچھلے وزیراعظم کا نام بتا دیتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا ان کا وزیراعظم کس وقت تبدیل ہو گیا۔

جرمنی نے سیاست کو عبادت کی شکل دے دی چنانچہ وہاں کوئی بے ایمان شخص منتخب نہیں ہو سکتا اور اگر ہو جائے تو وہ زیادہ دیر تک اقتدار میں ٹھہرنہیں سکتا۔ دوسرا ماڈل گورننس تھا، سیاستدان اہل ترین لوگوں کو اقتدار میں لے کر آئے، انھوں نے فوج سے بہتر گورننس دی اور یوں فوج سیاست سے پسپا ہو گئی۔ آپ اس ضمن میں ملائشیا اور ترکی کی مثال لے سکتے ہیں، مہاتیر محمد1981ء میں اقتدار میں آئے اور انھوں نے ملک کی ہیئت تبدیل کر دی، ملائشیا ایشین ٹائیگر بن گیا جب کہ اس سے قبل وزیراعظم کا فیصلہ فوج کرتی تھی اور یہ ہی اسے فارغ کرتی تھی۔ ترکی سویلین گورننس کی تازہ ترین مثال ہے، عبداللہ گل اور طیب اردگان نے 2002ء میں اقتدار سنبھالا اور کمال کر دیا، طیب اردگان سے قبل فوج ترکی کی بلاشرکت غیرے مالک ہوتی تھی، استنبول کے سینیٹری ورکرز تک کا فیصلہ کور کمانڈر کرتاتھا لیکن طیب اردگان اور عبداللہ گل آئے اورملک کے تمام چھوٹے بڑے مسئلے حل کر دیے اور فوج کے پاس پسپائی کے سوا کوئی راستہ نہ بچا، آج ترکی میں تین سو اعلیٰ فوجی افسر سیاسی حکومت کے خلاف سازش اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور دھڑا دھڑ سزا بھی پا رہے ہیں۔

ہمارے پاس بھی سیاسی جھرلو سے بچنے کے دو ہی آپشن ہیں، ہم فوج ختم کر دیں، یہ ناممکن ہے کیونکہ فوج ملک کا واحد منظم ادارہ ہے، ہم تین اطراف سے دشمن میں بھی گھرے ہوئے ہیں چنانچہ ہم فوج کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتے، دوسرا طریقہ گورننس ہے، ہم لوگوں کو جب تک میرٹ پر نہیں لگائیں گے ہم میرٹ پر فیصلے نہیں کریں گے، ہم گورننس بہتر نہیں بنائیں گے، ہم سیاست کو کرپشن سے پاک نہیں کریں گے اور ہمارے سیاسی رہنما ذاتی مفادات سے بالاتر نہیں ہوں گے، ہم اس وقت تک جھرلو، انتخابی دھاندلی اور الیکشن میں تحصیلدار، پٹواری اور تھانے دار کا عمل دخل ختم نہیں کر سکیں گے، یہ کیسے ممکن ہے آپ تین ماہ میں 22 ارب روپے کا صوابدیدی کوٹہ خرچ کر دیں، آپ سی ڈی اے کو ٹکسال بنا دیں، آپ کے بھائی اور صاحبزادے سیاسی ڈیلر بن جائیں اور سیاست جھرلو سے پاک ہو جائے، آپ ملک کو بجلی فراہم نہ کریں، ملک میں سی این جی کی چار چار کلو میٹر لمبی لائنیں لگی ہوں اور آپ اپنے پیر صاحب کو سلام کرنے کے لیے تین تین سرکاری ہیلی کاپٹر لے جائیں اور ملک جھرلو سے بھی آزاد ہو جائے، ہم اس وقت تک جمہوریت کی پنیر نہیں بچا سکیں گے ہم جب تک فرش میں گورننس، میرٹ اور اہلیت کے پتھر نہیں لگاتے، ہم جب تک اپنے بھائیوں اور بچوں کو اقتدار کے کیک سے دور نہیں ہٹاتے، ہم اگر اقتدار کو اپنے خاندان کے جھرلو سے نہیں بچا سکتے تو پھر ہم پوری سیاست کو جھرلو سے کیسے نکالیں گے۔

وزیراعظم نے کبھی یہ سوچا، شاید نہیں کیونکہ یہ آج بھی اقتدار کو اتفاق یا لاٹری سمجھ رہے ہیں اور لاٹریوں میں نکلنے والے وزیراعظموں سے بڑا جھرلو کوئی نہیں ہوتا اور جھرلو جھرلو کو ختم نہیں کر سکتا۔
پیر 10 دسمبر 2012


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).