اک مخمصہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا


قبلہ شمیم اعظم نقوی صاحب ایک مرتبہ استاد طاہر عباس صاحب سے الجھ گئے کہ یہ بتاو مخمصہ کیا ہوتا ہے۔ طاہر صاحب نے ہر ممکن تعریف بیان کی مگر شمیم صاحب کا اپنا ہی مزاج ہے کہنے لگے، ”نہیں! یہ بتاو، میم سے کیا؟ خے سے کیا؟ میم سے کیا؟ صاد سے کیا؟ ہا سے کیا؟ شمیم صاحب چیزوں کی تعریف یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے ہر حرف سے کوئی مطلب نکال کر بتایا جائے۔ استاد نے بہت سمجھایا کہ قبلہ یوں سمجھیں۔ یوں دیکھیں۔ مگر شمیم صاحب ایک نہ مانے۔ پھر استاد نے انھیں ایک مثال دی کہ کراچی میں ڈاکٹر محمد علی شاہ کا بڑا نام ہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے ایک زخمی کی کٹی ہوئی ٹانگ جوڑدی تھی۔ شمیم صاحب نے کہا۔ ”ہاں یہ تو ہمیں بھی یاد ہے“۔

استاد نے کہا کہ اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد ایک اور واقعہ ہوا۔ ناظم آباد میں اے او کلینک کے سامنے والی سڑک پر ایک باپ بیٹا موٹر سائکل پر جارہے تھے۔ ان کے آگے ایک ٹرک تھا جس میں تعمیراتی کام میں استعمال ہونے والی فولادی چادریں لدی تھیں۔ اچانک ٹرک سے ایک فولادی چادر اُڑی اور سیدھی باپ بیٹھے کی گردن پر آئی۔ دونوں کی گردن کٹ گئی۔ لوگ بھاگم بھاگ دونوں دھڑ اور کٹے ہوئے سر لے کر ڈاکٹر محمد علی شاہ کے پاس پہنچے۔ ڈاکٹر شاہ نے سات آٹھ گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد کٹے ہوئے سر دھڑوں سے جوڑ دیئے۔ دونوں زندہ بچ گئے۔

دو ماہ تک دونوں باپ بیٹا انتہائی نگہ داشت کے وارڈ میں رہے گھر والوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب دو ماہ بعد وہ گھر آئے تو معلوم ہوا، باپ کا سر بیٹے کے دھڑ پر لگ گیا اور بیٹے کا سر باپ کے دھڑ سے جڑ گیا۔ شمیم صاحب بہت ہی حیرت سے یہ داستان سن رہے تھے۔ طاہر صاحب گویا ہوئے۔ مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ اب بیٹے کی بیوی شوہر کے دھڑ کے ساتھ کمرے میں رہے یا شوہر کے سر کے ساتھ؟ اگر وہ شوہر کے سر کے ساتھ رہتی ہے تو دھڑ تو سسر کا ہے۔ کیا ہوگا!

ادھر یہ مشکل کہ ماں اگر شوہر کے سر کے ساتھ رہے تو دھڑ بیٹے کا ہے۔ اگر شوہر کے دھڑ کے ساتھ رہے تو سر بیٹے کا ہے۔ صورت احوال انتہائی پے چیدہ ہوچکی تھی۔

بیٹا اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنا چاہے تو وہ نیک بخت کہتی کہ مجھے ابا جان کے ہاتھوں سے شرم آتی ہے۔ سسر اپنی بیوی کے پاس اس لیے نہیں پھٹکتے کہ بیٹے کے دھڑ اور ماں یعنی ان کی بیوی میں ابدی حرمت ہے۔ کہیں موٹر سائیکل پر جانا ہو تو ایک پریشانی کہ بہو شوہر کے دھڑ کے ساتھ بیٹھے یا سسر کے سر کے ساتھ؟ الغرض زندگی اجیرن ہوگئی۔ تمام معمولات ٹھپ ہو گئے۔ ایسے میں کسی نے مشورہ دیا کہ یوں کیا جائے کہ دونوں اپنی پنی منکوحہ کو طلاق دیں اور از سرِ نو نکاح کریں، تاکہ دھڑ حلال ہوں۔

شمیم صاحب پوری توجہ سے سن رہے تھے اور بہت پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا۔ استاد نے کہا، تو شمیم صاحب اب بتائیں کہ اگر لڑکے کی ماں طلاق لے تو کس سے لے؟ بیٹے کے دھڑ سے یا شوہر کے سر سے؟ ادھر بہو کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ شوہر کے سر سے طلاق لے یا سسر کے دھڑ سے؟ بتائیے شمیم صاحب کیا کیا جائے؟ شمیم صاحب سادہ آدمی ہیں پے چیدہ مسئلے پر پریشان ہوگئے بلکہ یوں کہیے کہ ”مخمصا“ گئے۔ کہنے لگے۔ یار طاہر دماغ بند ہوگیا کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا کیا جائے۔ استاد گویا ہوئے۔ شمیم صاحب بس یہ جو آپ کی کیفیت ہے ناں اسے مخمصہ کہتے ہیں۔

یہ قصہ آج یوں یاد آگیا کہ آج ایک پشتون دوست افسردہ بیٹھے تھے؛ ہم نے پوچھ لیا قبلہ کیا بات ہے کیوں منہ لٹکائے بیٹھے ہیں؟ کہنے لگے، یار عجیب بات ہے اس پی ایس ایل کرکٹ نے تو منافقت کی حد کردی ہے۔ ہم نے کہا، پاکستان سپر لیگ کی کرکٹ میں کیسی منافقت؟ کہنے لگے یار دیکھو میں پشاور کا ہوں؛ پشاور میرا شہر ہے؛ پورا بچپن وہیں گزرا ہے۔ شاہد آفریدی بھی وہیں کا ہے؛ پچھلی مرتبہ وہ پشاور کی ٹیم میں تھا؛ ہم سب پر جوش تھے۔ اب سمجھ نہیں آتا کیا کروں! پشاور زلمے کی حمایت کرتا ہوں تو شاہد آفریدی کی مخالفت ہوجاتی ہے۔ شاہد آفریدی کی حمایت کرتا ہوں تو پشاور زلمے کی مخالفت ہوجاتی ہے۔ کس کی مخالفت کروں کس کی حمایت کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

ہم نے عرض کیا کہ پی ایس ایل کا مقصد ہی یہی ہے کہ قوم علاقائی تعصب سے بچ کر وحدتِ ملی کی طرف آئے لہذا آپ کھیل دیکھیں جو ٹیم اچھی لگے اس کی حمایت کریں۔ کہنے لگے یہی تو منافقت ہے اگر علاقائیت اور تعصب سے بچانا مقصود تھا، تو ٹیموں کے نام شہروں کے نام پر کیوں رکھے؟ قائد اعظم الیون، اقبال الیون وغیرہ کیوں نہیں؟ یہ دلیل سن کر اندازہ ہوا کہ واقعی یہ فرد کی بات نہیں معلوم ہوتا ہے پوری قوم ہی مخمصے کا شکار ہے۔ نعرہ کچھ لگتا ہے عمل کچھ ہوتا ہے۔ منزل کہیں اور ہوتی ہے۔ سفر کسی اور سمت میں کیا جاتا ہے۔ کاش من حیث القوم ہم اس ”مخمصائی“ سے باہر نکل سکیں۔

حسن علی امام سیاسیات میں فاضل کی سند رکھتے ہیں۔ طویل مدت تک آئی ٹی کے شعبے سے منسلک رہنے کے بعد، اب صحافت سے وابستہ ہیں۔ شعر کہتے ہیں۔ نثر میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں فکاہیہ لکھتا نہیں، خود بخود فکاہیہ ہوجاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).