میں نے شادی نہیں کی، اسی لیے تمہارے والد نہیں


ہر چوائس
میری سات سالہ بیٹی کسی بھی دوسرے بچے کی طرح خوش، لا پرواہ اور سوالات کرنے والی تجسس سے ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا اور اپنی زندگی کے بارے میں پرجوش رہتی ہے۔ لیکن اکثر وہ ایک سوال پوچھتی ہے کہ ‘آئی (ماں) میرے پاپا کیوں نہیں ہیں؟’

میں نے سنگل رہنے کا فیصلہ کیا اور میں اسے ہمیشہ سچ بتاتی رہی کہ ’میں شادی شدہ نہیں ہوں اور اسی لیے تمہارے والد نہیں ہیں۔‘
لیکن میرے خیال سے وہ اس جواب سے مکمل طور پر مطمئن نہیں تھی۔
میں نے بیٹی گود لی ہے اوراس گھر میں آ کر اس بچی کا دل بے چین رہتا تھا کہ وہاں ماں تو ہے لیکن والد نہیں۔

جب وہ پانچ سال کی ہوئی تو اس نے کہا: ’آئی، آپ نے مجھ سے کہا کہ جب لڑکا اور لڑکی بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ شادی کرتے ہیں اور ان کے بچے ہوتے ہیں۔ میری ماں کی بھی ضرور کسی سے شادی ہوئی ہوگی۔ اور جب مجھے اپنی پیدا کرنے والی ماں کا پتہ نہیں تو اسی طرح پیدا کرنے والے والد کا بھی پتہ نہیں۔ لیکن یہ نہ کہیں کہ میرے پاپا نہیں ہیں۔‘

میں رو پڑی۔ مجھے پتہ چلا کہ اس کے سوال کے جواب پر اسے کیسا محسوس ہوتا ہوگا۔
اس کی دلیل آسان تھی۔ ایک پانچ سال کی لڑکی نے اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ لیا تھا۔

اس نے میری وضاحت کو بے معنی بنا دیا تھا۔ ایک ماں اور انسان کے روپ میں اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں اسے کس قسم کے احساس سے روشناس کرا رہی ہوں۔
وہ کہتی رہتی، ’آئی شادی کرلو۔‘

میں نے اس سمجھایا: ’یہ بات نہیں کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی، میں کل ہی شادی کر سکتی ہوں، لیکن صرف اس وقت جب مجھے ایسا کوئی شخص مل جائے جو مجھے اور آپ کو سمجھ سکے۔‘

یہاں تک کہ جب وہ بڑی ہو جائے گی اور مجھ سے یہ سوال کرے گی تو اس وقت بھی میرا جواب یہی ہوگا۔

سنگل ہونا کسی بھی طور مشکل امر نہیں ہے۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ سنگل ماں کی زندگی بخوشی گزار رہی ہوں۔

میں مردوں سے نفرت نہیں کرتی۔ میں ان کی بہت عزت کرتی ہوں اور میری بیٹی بھی مجھ سے یہی سیکھ رہی ہے۔

اس کا جواب آسان نہیں کہ میں نے شادی کیوں نہیں کی اور سنگل ہونے کے بعد بھی میں نے ایک بچے کو گود لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟
ہر چوائس

تقریباً 20 سال پہلے جب میری شادی کی عمر تھی تو زیادہ تر نام نہاد تعلیم یافتہ نوجوان اس بات پر توجہ دیتے تھے کہ آپ بظاہر کیسی نظر آتی ہیں۔ میری کمیونٹی میں زیادہ تر لوگ کاروبار کرتے ہیں اور اس لیے لڑکے زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تھے۔ مجھے کسی ایسے شخص کی چاہت تھی جو اچھا خاصا تعلیم یافتہ اور مضبوط اخلاقی اقدار کا مالک ہو اور میرے باطن کو پسند کرے۔

اس تلاش نے مجھے اپنے آپ سے روشناس کرایا۔ میں مہاراشٹر کے ایک قدامت پسند دیہی خاندان میں پلی بڑھی۔ انڈیا میں بہت سی دوسری لڑکیوں کی طرح میرا بھی اپنے گھر میں کوئی وجود نہیں تھا اور اہل خانہ کو میرے اس خیال سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

میرے والد نے مجھے اعلی تعلیم دلائی جو کہ اس وقت اس برادری میں غیر معمولی بات تھی۔ مجھے ایک اچھی ملازمت بھی ملی اور میں ایک پر اعتماد لڑکی تھی۔ جوں جوں زندگی آگے بڑھتی گئی مجھے یہ احساس ہوتا گیا کہ میں اپنے طور پر آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہوں، شاید کسی اور کی مرضی سے نہیں۔

شادی کسی بھی شخص کی زندگی میں ایک بڑا فیصلہ ہوتا اور اس پر صرف میرا اپنا ہی فیصلہ ہونا چاہیے۔ کسی اور کو میری زندگی کا فیصلہ کیوں کرنا چاہیے؟ مجھے یہ لگنے لگا کہ واقعتاً میں اپنی زندگی میں ایک آدمی یا شوہر کو شریک حیات کے طور پر نہیں چاہتی اور اسی لیے میں سنگل رہی۔ میرے والدین نے میرے اس فیصلے کو قبول کیا۔

میری زندگی میں شاید کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی اگر میں اپنی کمپنی کے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے پروگرام کے تحت یتیم بچوں کے لیے کام شروع نہیں کرتی۔ بچوں کو پڑھانے، ان کے ساتھ کھیلنے اور وقت گزارنے میں مجھے بہت خوشی ملتی تھی۔ مجھے یہ سب کرنے کی مزید خواہش رہتی۔ لیکن میں کیا کرسکتی ہوں، اس کی بھی ایک حد تھی اور مجھے اس سے دور رہنا بھی ناقابل برداشت تھا۔ پھر میں نے بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس فیصلے نے میرے سامنے بہت سے سوالات پیدا کر دیے۔

یہ بچہ میرے خاندان کے ساتھ کس طرح تعلق قائم کرے گا؟ کیا میں ایک اچھی سنگل ماں ثابت ہوں گی؟ کیا میں اپنے بچے کا خیال رکھتے ہوئے اسے تہنا پال سکوں گی؟ میں اپنے آپ سے دو سال تک اس قسم کے سوالات پوچھتی رہی۔ اور جب میں نے ایک لڑکی کو گود لینے کا فیصلہ کیا اس وقت بھی میں بے یقینی کا شکار تھی۔ میں نے اپنے دوستوں سے بات کی، لمبی سانس لی اور ان مسائل کو ضبط تحریر میں لائی جو مجھے پریشان کرتے تھے۔ کیا یہ سب ایک سنگل ماں بننے کی ذمہ داری کا احساس تھا؟ مجھے پتہ چلا کہ اس کے لیے میرے دوستوں اور اہل خانہ کی حمایت کتنی ضروری ہے۔
ہر چوائس

جب میری چھ ماہ کی خوبصورت بیٹی گھر آئی تو وہ میرے لیے کسی تہوار کے دن سے کم نہیں تھا۔ اس دن اس کے استقبال کے لیے تقریبا 50 افراد موجود تھے۔ جب وہ گھر آئی تو میرے تمام خدشات دور ہوگئے۔ وہ گھر کی محبوب پوتی بن گئی اور میں ایک پراعتماد سنگل ماں۔
اسی وقت میں نے اپنے والدین کے گھر سے علیحدہ اکیلے رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ سے ہمارے تعلقات مزید مضبوط ہو گئے۔

میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ میں اس کی ’حقیقی‘ ماں نہیں ہوں۔
اس کے دماغ میں اپنے والد کے متعلق تجسس کے باوجود میری بیٹی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اور وہ اکثر کہتی ہے کہ میں دنیا کی بہترین ماں ہوں۔ جب وہ مجھے کام کرتی دیکھتی ہے تو کہتی ہے کہ ’اب تم میری پاپا ہو!‘ یہ میرے لیے بیش قیمتی بات ہے۔

گود لیے جانے والے بچے کی زندگی آسان نہیں ہوتی اور ہم دونوں ان بہت سے غیر حساس سوالات کا جواب دینا سیکھ رہے ہیں جو ہمارے سامنے کبھی کبھی آ جاتا ہے اور ہمارا معاشرہ ہم سے پوچھ بیٹھتا ہے۔

بہت سے لوگ مجھ سے میری بیٹی کے ماضی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ کوئی یہ سوال کیوں کرتا ہے؟ اور کیا اس سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ نہیں؟

ان تمام پیچیدگیوں کے باوجود،ہماری زندگی بہت آسان ہے، خوشی اور پیار سے بھری ہے۔ ان سے میری بہن کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اس نے بھی ایک بیٹی گود لی ہے۔

میری بیٹی میری زندگی کا بہت ہی اہم حصہ بن گئي ہے۔ اب میں والدین اور بچوں کو گود لینے کے بارے میں مشورہ دیتی ہوں۔
میری بیٹی سکول جانا پسند نہیں کرتی، لہذا میں نے گھر میں اس کی تعلیم شروع کر دی ہے۔

میں اسے اپنا فیصلہ خود کرنے میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔مجھے اپنے بچپن کے دنوں میں یہ سہولت نہیں ملی تھی جو کہ میرے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

جب بھی وہ سکول جانا چاہے گی میں اسے سکول لے کر جاؤں گی۔ یہ اس کی اپنی پہچان ہے جو اسے باصلاحیت بنائے گی جیسی کہ میں خود ہوں۔

میں اکیلی نہیں ہوں لیکن میں تنہا رہنا چاہتی ہوں۔ لیکن جب میں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتی ہوں تو میں سب سے زیادہ خوش رہتی ہوں۔

(یہ انڈیا کی مغربی ریاست کی سنگیتا بگنیوار کی سچی کہانی ہے جو انھوں نے بی بی سی نمائندہ پراجکتا دھولپکو سنائی۔ اس سیریز کی پروڈیوسر دیویا آریہ ہیں۔)

اس سیریز کے دیگر حصےشادی نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ہر کسی کے لیے دستیاب ہوںمیں معذور تھی، میرا دوست نہیں لیکن ہم نے شادی کئے بغیر برسوں محبت کی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp