بلوچ بکاؤ مال نہیں ہیں


لگ بھگ تیس برس قبل نوائے وقت میں نواب محمد اکبر بگتی کا ایک بیان چھپا کہ ’پنجاب نے پہلی مرتبہ بلوچستان کا ساتھ دیا ہے۔ ‘ ( یاد نہیں کہ انہوں نے یہ بیان پنجاب کی کس نیکی کے ردِ عمل کے طور پر دیا تھا)۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوئے کہ بلوچستان کے چاک گریبان کی بخیہ گری کا آغاز تو ہوا۔ اگلے روز استاد الاساتذہ پروفیسر مرزا منور مرحوم نے ایک نجی محفل میں اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بگتی صاحب نے یہی بیان پچھلے بیس سال میں کم از کم آدھی درجن بار تو ضرور دیا ہو گا۔ اور پھراس سے اگلے بیس برس کے ہم خود شاہد ہیں، اکبر بگتی ہر دو چار سال کے بعد یہ بیان دیتے رہے کے ’پنجاب نے پہلی مرتبہ بلوچستان کا ساتھ دیا ہے۔ ‘ بگتی صاحب کا حافظہ تو غضب کا تھا، یعنی ایسا نہیں تھا کہ وہ بھول جاتے تھے، مگر ہر سیاستدان کی طرح ان کی اپنی سیاسی مجبوریاں رہی ہوں گی۔ یہ بات اس لئے یاد آئی کہ پہلی مرتبہ بلوچستان کا چیئرمین سینٹ منتخب ہوا ہے اور اس پیشرفت کے ذمہ داران اسے بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے طویل سفر کا نقطہء آغاز قرار دے رہے ہیں۔ ( واہ، آپے پانا ایں کنڈیاں تے آپے کھچنا ایں ڈور)

صادق سنجرانی صاحب کا ڈومی سائیل تو یقینا بلوچستان کا ہے، لیکن اس سے آگے ہم انہیں نہیں جانتے۔ آپ جانتے ہیں؟ سنا ہے کان کن ہیں۔ بحرحال، بلوچستان کے حقوق کی جنگ انہوں نے آج تک کس کان میں لڑی ہے، کچھ معلوم نہیں۔ ہاں، غوث بخش بزنجو کے لڑکے کو ہم سب جانتے ہیں، عبدالصمد اچکزئی کی اولاد کے ماضی وحال سے قوم آگاہ ہے، اور یہ اصحاب کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے سنجرانی کے انتخاب سے بلوچستان کے حقوق کی جنگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، وفاق مزید کمزور ہوا ہے، اور قوم کو یہ پیغام گیا ہے کہ بلوچ بکاؤ مال ہے۔ ایک دوست نے سنجرانی صاحب کے انتخاب پر تبصرہ کیا ’ایک بلوچ جیت گیا مگر بلوچستان ہار گیا۔ ‘ ایک اور صاحب بولے ’ستّر سال میں بلوچستان کو پہلا موقعہ ملا اور اس نے وفاق کو یرغمال بنا لیا‘۔

در حقیقت ایسا کچھ نہیں ہے، یہ سب بے بسی کا غصہ ہے۔ زخم زخم بلوچستان کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق، اس سارے قضیہ میں بطور صوبہ، نہ وہ لینے میں نہ دینے میں۔ اور نہ صرف اس جھگڑے سے بلکہ کسی بھی معاملے سے آج تک بلوچستان کے عوام کا نہ کوئی سروکار رہا ہے اور نہ ہی کبھی انہیں کسی معاملے میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ 2013 کے انتخابات میں بلوچستان سے غیر جانبدار حلقوں نے صاف لفظوں میں بتایا تھا کہ وہاں الیکشن نہیں سلیکشن ہوا ہے۔ پانچ سو ووٹ والے ممبر بنا دیے گئے، اور کسی بڑی دھاندلی کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی۔ انتخاب کے بعدپاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت بننے دی گئی لیکن جب ضرب لگانے کا وقت آیا تو آزاد ممبران کو اپنی ’ٹیم ‘ میں واپس بلا لیا گیا۔ تو پھر حیرت کس بات پر ہے۔

بلوچستان کے راندۂ در گاہ عوام کا اس سارے فسانے سے کیا تعلق ہے۔ 500 ووٹ والے ممبروں پر کیا تنقید، وہ جنہوں نے ایم کیو ایم کے نام پر لاکھوں ووٹ لئے تھے ان پر کیا گزری۔ سندھ اسمبلی میں بھی تو جمھوریت نے فروغ پایا (جی ہاں، اشارہ فروغ نسیم صاحب کی طرف ہے)۔ چودھری سرور کو بھی تو جِن و انس نے کامیاب کرایا، کے پی کے میں بھی دو سیٹیں پی پی پی کو دان کی گئیں، یہ عجائب شعبدے کس کی ’ملوکیت‘ کے ہیں؟ تو پھر بلوچستان کو کیا الزام دینا۔ ’ایک ہی سلسلہ تو ہے، ایک ہی داستانِ شب‘۔

اب آپ کو معلوم ہوئے معلق پارلیمنٹ کے جملہ فوائد؟ ’ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑہ‘ کی تفسیر آپ کی سمجھ میں آ گئی؟ 2018 کے عام انتخابات کا مقسود بھی ایک معلق قومی اسمبلی ہے تاکہ اسی طرح ایک بھان متی کا کنبہ جوڑا جا سکے۔ اسی بندو بست کا نام کبھی Basic Democracy رکھ دیا جاتا ہے اور کبھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی۔ ہم تو یہ سرکس ستر برس سے دیکھ رہے ہیں، اب آپ بھی دیکھئے۔ ہر محمل کے عقب میں عکسِ رُخِ لیلیٰ لرزتا دکھائی دے گا۔ یہی ہے اس دو نیم مملکتِ خداداد کی رلا دینے والی داستان۔ ’اکژیتی جماعت کو حکومت نہیں کرنے دیں گیں‘۔ بس یہی سوچ ہے ڈھاکہ سے سینٹ 2018 کے انتخاب تک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).