تین مرد جنہیں ہراسمنٹ سے نپٹنا نہیں آتا تھا


جنسی ہراسانی کا شکار مرد بھی ہوتے ہیں ۔ یہ سوال تو ہم سب پر چھپی اک تحریر پڑھ کر ذہن میں اٹھا۔ اس پر سوچتے ذہن میں تصویریں بنیں فلمیں چلنی شروع ہوئیں ۔مرد کے ساتھ اگر ایسا ہوتا ہے ۔ خواتین انہیں ہراساں کرتی ہیں تو پھر اس کا زیادہ ذکر کیوں نہیں ہوتا ۔  ہراسانی کا واقعہ خاتون کے ساتھ ہو تو سب ہمدردی ہی کرتے ہیں ۔ یہی سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوا ہوگا ۔

یہ سوال لے کر میں نے کئی لوگوں سے بات کی ۔ اکثر تو سوال سن کر ہی ہنسنا شروع ہو گئے ۔ جو سنجیدہ جوابات ملے وہ اس قسم کے تھے کہ ہم کہیں بھی تو کون مانے گا ۔ کچھ لوگ اس پر بھی چپ رہتے ہیں کہ اس سے مردانگی پر حرف بھی آتا ہے ۔ الٹا کیس بن جاتا ہے کہ یہ کیسا مرد ہے کہ اس کو موقع ملا اور یہ بھاگ گیا ۔

اس حوالے سے میڈیا کے دوستوں ، یونیورسٹی کے لیکچرز ، این جی اوزاور بنکوں میں کام کرنے والے افراد سے بات ہوئی۔ اکثر نے کریدنے پر بتایا کہ ہاں ان کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے ۔ کیا ہوا اس پر بات کرنے سے لوگوں نے پرہیز ہی کیا ۔ بہت کریدنے پر جو تین کہانیاں سامنے آئیں وہ دلچسپ تھیں ۔

آپ بھی پڑھ لیں یقین کرنا نہ کرنا آپ کی اپنی مرضی ہے ۔

ایک ریڈیو چینل پر آر جے نے بتایا کہ وہ شاعری کا پروگرام کرتا تھا ۔ شاعری اس کا شوق بھی تھا ذرا ادبی ذوق بھی تھا ۔ اس شوق کا پیچھا کرتے یوں ہوا  کہ ریڈیو پر آر جے  بن گئے ۔ پروگرام چل نکلا ، اس میں لائیو کال لی جاتی تھیں ۔ کالر میں اک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہوتی تھی ۔ رفتہ رفتہ نوٹ کیا کہ اک لڑکی کی کال روز ہی آتی ہے ۔اس سے بات ہو جاتی تو وہ لمبی بات کرنے کی کوشش کرتی ۔ اگنور ہی کرتے رہے کہ شائد غلط فہمی ہی ہو ۔

ایک دن مجھے ایک نئے نمبر سے پہلے میسج آیا پھر فون آگیا۔  فون نمبر اُس نے کسی طرح دفتر سے لے لیا ہو گا ۔  تعارف ہوا تو اس نے  بتایا کہ میں آپ کا پروگرام شوق سے سنتی ہوں ۔ آپ کی آواز مجھے بہت اچھی لگتی ہے ۔ آپ سے ملنا بھی چاہتی ہوں ۔ میں نے شکریہ بولا ملنے سے انکار کیا ۔مگر اُس کے میسجز اور کال  تواتر سے آنے لگے ۔

میں بھی جواب دینے لگ گیا ۔ ہم نے تصویروں کا تبادلہ بھی کر لیا ۔ اسے یہ بھی بتا دیا کہ میری منگنی ہو چکی ہے ۔ اس لیے کوئی روگ نہ پال لینا ۔ مگر اس نے جواب دیا کہ ہم صرف اچھے دوست ہی ہیں ۔ یہی رہیں گے ۔ اس نے یہ بتا کر تسلی دی کہ اس کی بھی منگنی ہو چکی ہے ۔ پھر ایک دن اس کے بہت اصرار پر ہماری  ملاقات ہو ہی گئی ۔ اس ملاقات کی ہم نے سیلفی بھی بنا لی ۔

اپنی طرف سے میں نے وہی سیلفی بنائی تھی جو سٹار اپنے فین کے ساتھ بناتے ہیں ۔

میں ظاہر ہے خوش تھا کہ میرا بھی ایک حلقہ ہے جو مجھے پسند کرتا ہے ۔ میرے فیس بک پر کمنٹس کرتے ہیں ۔کچھ عرصہ گزرا تو اک دن  کام کی زیادتی کے باعث اسے جواب نہیں دے پایا۔ تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے ایک میسیج ملا ۔ کہ میرے پیغامات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ اب اگر جواب نہیں دیا تو تمھاری منگیتر اور تمھارے ریڈیو چینل کو کال کرکے تمھیں برابر کر دوں گی۔  بتاؤ ایسا کیا تو پھر کیا کرو گے ۔

یہ سن کر میں نے بھی کہا جو کرسکتی ہو کر لو۔ یہ کہہ کر اسکے سارے نمبروں کو بلاک میں ڈال دیا۔ مگر وہ نت نئے نمبر سے آ ہی جاتی ۔پھر ایک دن اُس نے دفتر کال کر ہی دی ۔ صرف کال ہی نہیں کی میرے لیے کام بھی دیکھ لیا ۔ مجھ پر الزام لگائے کہ میں نے اسے ہراس کیا ہے ۔ میری کافی عزت افزائی دفتر میں ہو گئی ۔ مجھے شرمندگی بھی بہت ہوئی ۔ عافیت اسی میں تھی کہ چپ رہتا ۔

اب مجبوری میں اس سے بات کرتا رہتا ۔ ڈر یہ تھا کہ کوئی نیا کام نہ دکھا دے ۔ اپنی منگیتر کو بھی بتا دیا کہ ایک سائیکو سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ اس کی مہربانی کہ اس نے مجھ پر اعتماد کیا ۔  پھر ایک دن کی اُس کی کال آئی کہ یہ میری آخری کال ہے ۔ اب تک میں نے آپ کو بہت تکلیف دی اب مزید آپ کو تنگ نہیں کروں گی میری شادی ہونے والی ہے اور میں اپنے میاں کے ساتھ کینیڈا شفٹ ہورہی ہوں ۔  دل سے دعا دی کہ جا بی بی جہاں  رہو خوش رہو ۔ آپ کی آواز یادآئے گی ۔ دوسال ہوگئے اُس کے بعد اسکی کوئی کال اور میسیج نہیں آیا ۔

مگر ایک سال تک اس لڑکی کی وجہ سے میں ذہنی طور پر بہت ڈسٹرب رہا ۔

دوسری کہانی ایک این جی او میں جاب کرنے والے بندے کی ہے جس نے کہا کہ ایک بڑی این جی او میں انٹرویو کے لئے کال آئی ۔ میرا کوئی ریفرنس نہیں تھا اور فریش ایم بی اے کرکے یونیورسٹی سے فارغ ہوا تھا۔ انٹرویو کے لئے خوب بن سنور کر گیا ۔ یہ دوست آٖفریدی ہے شکل صورت کا اچھا ہے ۔ ویسا ہی ہے جیسے آفریدی ہوتے زیادہ تر خوش شکل مرد ۔اسے  پیسوں کی ضرورت نہیں تھی لیکن اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا تھا ۔  اس لئے جاب کے لئے ادھر ادھر اپلائی کرتا رہتا تھا۔ بین الاقوامی این جی او انٹرویو کے لئے گیا تو بہت سے تجربہ کار لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور میں ایک فریش امیدوار تھا۔ مجھ پر وہ ہنس رہے تھے کہ یہ دیکھو لونڈا انٹرویو کے لئے آیا ہے ۔

انٹرویو میں سات بندے بیٹھے ہوئے تھے جن میں ایک پینتیس سال کی خاتون بھی شامل تھی جس نے انٹرویو کے اوائل سے مجھ پر آنکھیں گاڑے رکھیں تھیں ۔ مجھے اُن انکھوں سے چھبن محسوس ہورہی تھی ۔ جیسے کوئی چیز بدن کے آر پار گزررہی ہو ´۔اُس خاتون نے ایک سوال کیا آپ اتنے نروس کیوں ہو ۔ میں نے کہا میڈم پہلا انٹرویو ہے کسی انٹرنیشنل این جی او میں ۔ یہ کہہ کر میں نے آنکھیں نیچی کرلیں ۔ جاتے ہوئے وہ انکھیں مجھے دروازے تک چھوڑنے آئیں ۔  پھر مجھے  کال بھی آ گئی کہ مجھے سلیکٹ کر لیا گیا ہے۔

نوکری ملنے کی امید نہیں تھی حیران حیران سا دفتر پہنچا۔ وہاں اسی خاتون سے ملاقات ہوئی ۔وہ وہاں اچھے عہدے پر تھی ۔اسے جب میڈم کہہ کر بلایا تو اس نے ڈانٹا کہ مجھے نام لے کر بلایا کرو ۔ اس کی آنکھیں ویسے ہی مجھ میں گڑی رہتیں ۔ مجھے بھی شک سا ہو گیا کہ مجھے نوکری اسی کی وجہ سے ملی ہے ۔ اک دن مجھے بتایا گیا کہ مجھے میڈم کے ساتھ ٹور پر دوسرے شہر جانا ہے ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ میں نے نہیں بتانا ۔ چھ مہینے میں ہی تنگ آ کر میں نے نوکری چھوڑ دی ۔ تنخواہ بہت اچھی تھی ۔ میڈم نے تنخواہ بڑھانے ترقی دینے کا بھی لالچ دیا۔

کچھ عرصہ بیروزگار رہ کر دوسری نوکری مل ہی گئی ۔ اب کافی وقت گزرنے کے بعد یہی سمجھتا ہوں کہ مجھے ہراس کیا گیا تھا ۔ لیکن ایسا سوچتے ہوئے مجھے شرم تو آتی ہے خود پر ہنسی بھی بہت آتی ہے ۔

 تیسری کہانی ایک یونیورسٹی لیکچرر کی ہے ۔ یہ ان کی جاب کے شروع دنوں کی کہانی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سارے طلبہ و طالبات سے اچھے سے پیش آتے تھے ۔  انہوں نے محسوس کیا کہ انکی ایک سٹوڈنٹ انہیں مسلسل گھورتی رہتی ہے ۔جب ایسا مسلسل ہونے لگا تو وہ بھی کنفیوز ہونے لگے ۔ لڑکی نے گھورنا تو جاری رکھا اب ساتھ میں بات کرنے کے لیے بہانے بہانے سے ملنا بھی شروع کر دیا ۔ جب دیکھو آفس کے سامنے سٹاف روم کے سامنے کھڑی ہے ۔ دوسری کلاس کو پڑھا کر نکلتا تو دروازے پر کھڑی ملتی ۔ اندر اک کشمکش چل رہی تھی کہ کیا کروں ۔ کولیگ کیا سوچتے ہونگے ۔

ایک دن اُس سٹوڈنٹ کو کلاس روم میں پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے آپ کو ۔ وہ شیر کی بچی بولی  سرکچھ نہیں بس آپ اچھے لگتے ہو ۔ اس جواب کی توقع نہیں تھی حیران رہ گیا ۔ دیر تک کچھ بول نہ سکا ۔ ہمت کر کے بولا تو میں نے کہا کہ بیٹا میں آپ کا ٹیچر ہوں ۔ تو کیا ہوا کیا ٹیچر سے پیار نہیں ہوسکتا ۔ اب میری بس ہو گئی میں نے اسے غصے میں ڈانٹا کلاس چھوڑ کر نکل آیا ۔ نکلتے ہوئے اس کی آواز آئی سر آپ کی ڈانٹ میں بھی پیار ہے ۔

میں اتنا اپ سیٹ ہوا تھا کہ بہت سوچنے کے بعد میں نے اس لڑکی کی کلاس کو ہی پڑھانا چھوڑ دیا ۔  مگر وہ لڑکی دفتر کے چکر لگاتی رہی ۔ میں ذہنی انتشار کا شکار ہو گیا تھا ۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اب کیا کروں ۔ بدنام ہونے کا ڈر الگ تھا یہ بھی سوچتا کہ استاد کے مقام کو خراب نہ کر بیٹھوں ۔ مگر اسکی ڈھٹائی جاری رہی ۔ ایک دن اُس نے کہیں سے فون نمبر لے کر مجھے ٹیکسٹ کیا کہ سر آپ کلاس تبدیل کرسکتے ہو مگر میرا دل نہیں ۔

سر آپ مجھے اچھے لگتے ہو ہمیشہ لگو گے ۔ بس یہ بریک اپ پوائنٹ تھا میں نے اس سے رابطہ کیا ۔ اس سے کہا کہ میں یہ ملازمت چھوڑ دوں گا ۔ تم شوق سے مجھے چاہتی رہو ۔ اسے کافی کچھ کہا جس کا اثر بھی پھر فوری ہوا ۔ اس کی چاہت ہوا ہوتی محسوس ہوئی ۔ سیمسٹر ختم ہوا وہ کورس مکمل کر کے رخصت ہوئی ۔

میں کتنے مہینے تک اس پنگے کے زیر اثر رہا ۔ اکیلا بیٹھتا یہ سب یاد آتا تو بڑبڑاتا رہتا ۔ اب سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے ۔ یہ ہراسمنٹ ہی تھی لیکن سچی بات ہے تب مجھے اس سے نپٹنا نہیں آتا تھا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).