میں نے سر اسٹفین ہاکنگ سے کیا سیکھا؟


میں ایک عام سا آدمی ہوں۔ سر اسٹفین ہاکنگ کے بارے میں صرف اتنا علم ہے جتنا تقریباً 30 فیصد دیگر پاکستانی عوام کو پتا ہوگا اور جتنا پتا ہوگا اس کیوضاحت کی ضرورت نہیں۔ اور باقی ستر پرسنٹ کو معلوم ہی نہیں ان کے بارہ میں۔

مختصر اتنا جانتا ہوں کہ ستاروں سیاروں اور یونیورس کے اسرار و رموز کے ماہر سائنسدان تھے اور سر آئین سٹائن کے مرتبہ کے سائینسدان تھے۔ آپ سیڑھی سے پھسل کر گرے اور ٹیسٹ کے دوران معلوم ہوا کہ آپ ایک ایسی بیماری کا شکار تھے جس کا تعلق بیک وقت دماغ اور دل کے ایسے ا عضا اور عضلات سے ہے جو جسم کے افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس بیماری کو موٹر نیورون کی بیماری کہا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جسم کے مختلف حصے آہستہ آہستہ بے کار ہو جاتے ہیں اور دو تین سال میں انسان کی جسمانی و طبعی موت واقع ہو جاتی ہے۔

لیکن سر اسٹفین ہاکنگ نے اس بیماری کو پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ شکست دیے رکھی اور علم کا خزانہ بانٹتے رہے۔
میں اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کبھی کبھار ان کے سوال و جواب کے چند لیکچرز اور انٹرویو بھی سن چکا تھا۔ اور ان کی عظمت ہمت حوصلے اور علم کی لگن کا دل سے معترف تھا اور ہوں۔

ایک دن پہلے میں نے ان کا ایک لیکچر دیکھا تھا اور اپنے بیٹے سے اسے ڈسکس کیا تھا۔ لیکن کل صبح میں ابھی اپنے آفس پہنچا ہی تھا کہ میرے بیٹے نے مجھے کال کی کہ بابا سر اسٹفین ہاکنگ کا انتقال ہوگیا ہے۔

میرے دل میں ایک دکھ اور مایوسی کی لہر اٹھی اور میں انتہائی افسردہ ہوگیا۔ موت سے کسی کو رستگاری نہیں یہ حقیقت معلوم ہونے کے باوجود انسان بعض لوگوں کے حوالے سے ان کی رخصت ہونے کا سوچ کر شاک میں چلا جاتا ہے اور یہی ان شخصیات کا بڑا پن ہوتا ہے۔

میری آنکھوں میں نمی سی تیر گئی اور میں ایسے اداس ہوگیا جیسے انسان کسی بڑے نقصان کے بعد ہو جاتا ہے۔

میرا خلائی سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن ہر علم کی کھوج اور اس کے بارے میں جاننے کی خواہش الحمدللہ موجود ہے۔ میں اپنے بچوں کے علم سے بھی فائدہ اٹھاتا ہوں اور ان کو بھی یہ احساس دلاتا ہوں کہ علم کا کوئی اختتام نہیں لیکن انسان کا اختتام ضرور ہے لیکن جیسے علم کا اختتام نہیں ویسے علم کے عاشق کا بھی کوئی اختتام نہیں۔

عالم زندہ رہتا ہے اس کا علم و آگہی اور علم دوستی اس کے شعور کے دریافت کیے علم کی صورت میں عمر بھر زندہ رہتا ہے۔ لہٰذا علم و تعلیم ہی انسان کا اول و آخر مطمع نظر ہونا چاہیے۔ علم کو تعصب کی عینک اتار کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور علم جو انسان کو فائدہ دے سب یکساں مقدس ہے۔ کوئی شخصیت مقدس نہیں ہوتی کیوں کہ جسم نے مرنا ہوتا ہے مگر اس شخصیت کا علم و عمل زندہ رہتے ہیں اور وہی لوگ خدا کے مقرب ہوتے ہیں۔

اب مقرب ہونے پر کھلبلی مچے یا شانتی لیکن قدرت کے قوانین اٹل ہیں۔ مقرب وہی ہے جو قوانین قدرت کو اختیار کرے۔ نعرے مارنا زبانی اقرار اور ایمان کے نعرے کھوکھلا پن اور اعمال ٹھوس حقیقت ہیں لہٰذا جہاں کھلبلی مچتی ہے مچتی رہے۔ ہم تو مقرب ہی سمجھیں گے۔

میرے بیٹے نے کہا بابا سنا ہے سر ہاکنگ اتھیسٹ تھے۔ خدا کو نہیں مانتے تھے۔ میں نے کہا جیسا خدا آجکل رائج ہے اس کو تو قرآن بھی ماننے کو نہیں کہتا۔
کیسے؟ اس نے سوالیہ نظروں سے مجھ سے سوال کیا۔
میں نے بات جاری رکھتے ہوئے اس سے ایک سوال پوچھ ڈالا۔ اچھا بتاؤ خدا کیسا ہے؟
بولا میں اس کی تعریف نہیں کر سکتا۔ ڈیفینشن ممکن نہیں۔
میں بولا کوئی تصور؟

اس نے کہا کہ ایک خود کار نظام کائنات کا آپس میں اصولوں کے تحت ایک خاص عمل یا اعمال کو ایک پروگرام کے تحت مربوط کرکے ایک رسی کو تصور کرتے ہوئے اس رسی اور اس میں موجود نظام کی تخلیق کرنے اور اسے چلانے والی ایک ایسی نا معلوم طاقت جس کی تعریف کرنے کے لیے کم از کم آجکل کی تیزی کو مد نظر رکھتے ہوئے، کم و بیش تین ہزار سال تک انسان کی ترقی اس مقام تک پہنچے گی کہ شاید اپنے تخلیق کار کی کوئی تعریف کر سکے ۔

لیکن مختصر یہ کہ۔ وہ ہے ضرور۔ اور قرآن بھی یہی تعریف کرتا ہے کہ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی کسی سے جنا گیا ہے نہ ہی کسی کا باپ ہے اور نہ بیٹا۔ ہاں ہر چیز کا تخلیق کار اور ایک مکمل تخلیق کار۔ جس کی انسان سے کنیکٹوٹی بھی ضرور ہے۔

ہر وقت زمانے قوموں قبیلوں اور بر اعظموں کی تہذیبوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اس تک پہنچنے کی جستجو ضرور کی ہے۔ اور اپنے بہترین علم و کائنات میں موجود رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد بتدریج اس کے تصور کو واضح کرتی چلی جا رہی ہے۔ بہرحال میں خدا کو کوئی شخصیت وجود یا کسی مخصوص صفات کی حامل ہستی نہیں سمجھتا۔ جو بیٹھا ہوا ہنگامے کروا رہا ہو موت کے حکم دے رہا ہو شادیاں کروا رہا ہو اور جوڑوں کو ایک دوسرے کے نام بیٹھا لکھ رہا ہو۔

لیکن ایک طاقت ایک سر چشمہ ایک انتہائی مکمل حقیقت مگر اب تک کے انسان ذہن نا رسا تک ایک رمق کی حد تک پہچان۔

میرا تصور خدا یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو عقل سلیم عطا ہی اسی لیے کی ہے کہ آپ اس کو بروئے کار لا کر اپنی موجودہ زندگی اور اس گھر یعنی زمین اور اس میں بسنے والی مخلوقات اور انسانوں سے مل کر مجھے کھوجو۔ مجھ تک پہنچو میری تعریف یعنی ڈیفینشن کرو۔ انسان جنت سے نکلا۔ اور ایک سامان دے دیا کہ اسے زمین کی صورت کہ استمال کرو اس زمین میں خزانے بھی ہیں۔ اوزار بھی ہیں۔ اور وہ ہر چیز ہے جس کی مجھ تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔

آؤ واپس آؤ۔ کھوجو غور و فکر کرو کائنات کو کھوجو جستجو کرو سعی کرو۔
اور دیکھو تمہارا رب کتنا بڑا ہے۔

یعنی جنت سے نکالا گیا انسان جنت واپس جانے کی جدو جہد میں مصروف ہے۔ جو ترقی شدہ ذہن ہیں انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا جو سوچتے نہیں یا سوچنے دیے جاتے نہیں انہوں نے مختلف اشکال و تصورات کے بت بنا لیے۔ اس سے تصورات میں سودے بازیاں کرتے ہیں دل میں منصوبہ بھی ہوتا ہے اور خواہش بھی۔ یہ جتنا گہرا ہوگا اتنی کہرائی تک آپ کی خواہش بھی پوری کرے گا۔ اس کو قبولیت بنا لو یا کچھ اور

جہاں محنت اور لگن کی کمی ہوگی وہاں لاکھ لاکھ چیخیں مارو وہ کام ممکن ہی نہیں ہوگا اگر اس کے لوازمات پورے نہیں ہیں۔ لہٰذا خدا ہے لیکن ایسا نہیں جیسا ہم سوچتے ہیں یا گھڑ لیتے ہیں۔

قدرت کے اصولوں اور وقت و حالات کی مکمل دستیابی اور بروقت فیصلوں کے زبردست منصوبہ جات جو انسان کی ذاتی یا اجتمائی بہتری اور تسکین کا سامان کریں قبولیت ہے۔ اور صد فی صد کوششوں میں ایک فیصد کی کمی ہی رد ہے

تو کیا تم منکر خدا ہو؟
بالکل نہیں۔ بہت یقین سے جواب آیا۔

تو سر اسٹفین ہاکنگ نے بھی یہی کہا تھا کہ میں ایسے خدا کو نہیں مانتا جو لوگوں کا تعریف کردہ ہے۔ کیوں کہ ابھی نظام شمسی کو مکمل کھوجنا کم از کم ایک ہزار سال مزید مانگتا ہے۔ تو پوری کائنات کی ڈیفینیشن نہیں کی جاسکتی ابھی تو۔ کیوں کہ یہ پھیل رہی ہے تو اس کے تخلیق کرنے والے کو میں ڈیفینشن میں کیسے ڈھالوں؟

بڑے لوگوں کے دل میں جو ہوتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں کیوں کہ نہ انھیں خوف ہوتا ہے نہ کوئی غم اور یہی تو فلاح پانے والے ہیں۔ القرآن
اب ان کو پرواہ ہی نہیں کہ کھلبلی گروپ مجھے کیا سمجھتا ہے۔ انہوں نے تو وہ سوچنا ہے جس کے لیے تخلیق کیا گیا ہے
اور اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ کھلبلی گروپ کی خارش تعصب کی عینک اتارے بغیر علم حاصل کرنے سے ہی دور ہوسکتی ہے۔
لہٰذا نو ٹینشن۔

آپ ایسا کچھ کرو کہ انسان ترقی کر سکے اور اسی کھلبلی گروپ کے لیے فیس بک ٹویٹر فلاں دھمکان وغیرہ تخلیق کرتے کرتے مزید ترقی کرتا ہوا اسے کائنات میں موجود انسان دوست سیاروں میں بسا دے کیوں کہ کچھ ہزار سال بعد اتنے انسان کہاں جائیں گے؟

میں نے سر اسٹفین سے یہ سیکھا ہے کہ اگر قدرت نے آپ کو موقع دیا ہے اور انسان جیسی مخلوق کے طور پر خلق کیا ہے تو اس انعام کا حق ادا کرنا چاہیے اور خالق کے لیے اس کی تخلیق فخر بن جائے تو قرب نصیب ہوتا ہے۔

آپ علم کے ذریعہ اس بات کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کر گئے ہیں کہ انسان پانچ کی بجائے دس سیڑھیاں چڑھے گا رب کی کھوج کا سفر جلدی کٹے گا۔ اور سر اسٹفین ہاکنگ جیسے انسان اس کیجنت کے نظارے لیں گے۔

ایک ایسا انسان جو موٹر نیورون بیماری کا شکار ہو اور اپنی آنکھوں کی پتلیوں کو ہی صرف حرکت دے سکتا ہو اور وہ خدا کے اس حکم کی اس وقت بھی تابعداری کر رہا ہو۔ کہ یہ کائنات میں نے بنائی ہے اس کو کھوجو۔ اور دن رات اسی کھوج میں صرف کرکے، انسان کی جھولی کائنات کے علم سے بھر جائے تو کیا مقرب نہیں ہے؟

کھجلی گروپ کو ہر اس انسان کی موت پر کھجلی ہوتی ہے جو ان کا گھڑا تصور خدا نہ مانے۔
اور ایسے لوگوں کی محنت شاقہ کو سلام کہ گھر کے گیٹ کی گھنٹی بجے تو۔ ہائے۔ کون آ گیا سے شروع ہوتی ہے۔ تاکہ گیٹ کھولنے تک نہ جانا پڑے۔
گیٹ کی گھنٹی پر۔ ہائے۔ سے شروع ہونے والے بھی اسٹفین ہاکنگ کی ذات پر تبصرے اور فتویٰ بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یقیناً ایک عالم کی موت کل عالم کی موت ہوتی ہے۔

ایک آدمی اور انسان کے بیچ فرق صرف یہی ہے۔ آدمی ایک مادی وجود ہے، اور انسان ایک اخلاقی وجود اور ان کے بیچ صرف کتاب آ جاتی ہے۔

چاہے وہ کتاب جو آسمانی ہو،
چاہے وہ کتاب جو الہامی ہو،
چاہے وہ کتاب ہو جو خوابوں کی تعبیر ڈھونڈھتی ہو،
زندگی کا حوالہ کتاب کے بغیر لکھے ہوئے حروف کے بغیر، نہیں ہے ۔ (قرة العین حیدر )
میں نے یہی سیکھا کہ انسان کے لیے اتنا ہی ہے جتنے کے لیے وہ سعی کرتا ہے۔ القرآن

فخر اقبال خان بلوچ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).