صرف زینب نہیں میرے زین کی بھی سن لو


روز صبح میرے آگے ایک وین چلتی ہے اور میں کوشش کر کے اپنی گاڑی اسی کے پیچھے رکھتی ہوں۔ وین میں ایک بھر پور شور ہوتا ہے جسے ہم آپ نہیں سن سکتے۔ ہاتھ کے اشارے ہنستے کھلکھلاتے، لڑتے، ناچتے، ہر بات سے انجان، وین میں جیسے اڑتے چلے جا رہے ہوں اور مجھے یہ شور نما سناٹا ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔

ہم گونگے بہرے بزدل لوگ۔ بھلا کیا جانیں یہ زندگی سے بھر پور خوشیاں۔ ان ننھے پھولوں کی خوشیاں۔ ہمیں تو اپنے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ قارئین مجھے شوق نہیں کسی ایک نظام کے خلاف لکھ کے اس کی دھجیاں اڑانے کا لیکن خون کھولتا ہے جب منہ میں زبان رکھتے ہوئے بھی ہم خاموش رہیں تو۔ سسکیاں سن کے بھی بہرے ہو جائیں۔ ہم درخت نما دیوتا ہیں جو پھل پھول رہے ہیں لیکن اٹھ کے کچھ کرنے کی سکت نہیں مگر صرف اس وقت تک کہ جب تک خو د پہ نہ آن پڑے۔

میری تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یہ تعلیمی نظام ہے۔ بگڑا ہوا بدکا ہوا۔ ہر بار نوجوانوں کی بات ہی کیوں کی جائے۔ آج کل قوم 7 سے 10 سالہ بچوں پہ بہت مہربان ہے۔ میرے دل پہ بھی کہیں یہ معصوم اپنی معصومیت بھری آنکھوں سے چوٹ لگا گئے ہیں۔ یہ حساس ننھے پھول جو اپنی کاغذ کی کشتیاں اور پلاسٹک کے کھلونے دل و جان سے سنبھالتے پھرتے ہیں آج کل اسکولوں میں اور بڑے بڑے اسکولوں میں بڑی بے دردی سے روندے جا رہے ہیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔

معاملات چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتے ہیں اور پہاڑ بنا دیے جاتے ہیں۔ والدین کی ایک چھوٹی سی شکایت کو گناہ ٹھہرا کر بچے کو سزاوار قرار دے دیا جاتا ہے۔ جس سے شکایت کرو وہ اپنی کرسی بچاتا پھرتا ہے اور ٹیچرز کی شکایت کر بھی دی جائے تو وہ اپنی نفرت کا شکار بچوں کو کرتی چلی جاتی ہیں اور اس ز مرے میں اس حد تک جذباتی ہو جاتی ہیں کہ بچوں کی معصوم نفسیات روند کے رکھ دیتی ہیں۔ خواہ جتنا بھی بڑا اسکول ہو، ایسے ظالم اساتذہ کو کچھ نہیں کہا جاتا کیوں کہ اساتذہ کے خلاف کارروائی کرنے یا انہیں نکالنے سے اعلٰی افسران کی کارکردگی کو برا تصور کیا جاتا ہے اور اس سے افسران بالا کی تنخواہوں پہ بر ا اثر پڑتا ہے۔

نتیجتاً والدین کو نفسیاتی مریض یا Fussy Parent قرار دے دیا جاتا ہے اور ان کی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ بچوں کو آفسوں میں بلا کے، الگ سے بلا کے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور معصوم بچے یا تو چپ چاپ سب سہتے رہتے ہیں یا والدین کے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ شکایات کے لیے اسکول نا آیا جائے۔ دوسری جانب والدین سب سے منہ چھپا کے بھاری فیسیں بھرتے رہتے ہیں کہ دنیا کے سا منے اونچے اسکول کے مقابلے پہ چلے آئے تھے۔ یہ اسکول رنگ برنگی جھنڈیاں لگا کر، رنگ برنگے یونیفارم پہنا کر 50 روپے کے کپ بچوں کو پکڑاتے رہتے ہیں اور فیس بک کو اپنے کھوکھلے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح دنیا اور والدین کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔

نصاب سے زیادہ زور غیر نصابی سر گرمیوں پر، جبکہ شاید ہی کسی اسکول میں درحقیقت لائبریری اور کھیل کا میدان ہو۔ ایسے ایسے دن منائے جاتے ہیں کہ ہم نے ا پنے تعلیمی دور میں ا ن کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ امتحانات میں کھلے دل سے مدد کی جاتی ہے اور بچوں کے نمبر بھی اچھے آجاتے ہیں اور عام اسکولوں سے پڑھے والدین کی نظریں خیرہ رہتی ہیں کہ ایسی چکا چوند پہلے کہاں دیکھنے کو ملی تھی۔ در حقیقت تو یہ معصوم بچے اندر ہی اندر دکھ، ہتک عزت اور آنسو د باتے چلے جاتے ہیں۔

اسکولوں میں اردو کا نا آنا فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے تو کون محنت کرے۔ انگریزی سکھانے میں کیا محنت کرنی، وہ تو آ ہی جاتی ہے او ر رہی بات باقی مضامین کی تو امراء کی اولادیں ہیں، ٹیوشن پڑھ ہی لیں گی۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتاکہ یہ پہلو ہماری قوم کو کیوں نظر نہیں آتا۔ قارئین میں کوئی مثال دے بھی دوں تو پڑھنے میں بہت معمولی ہی لگے گی لیکن جس پہ بیتی ہو درحقیقت درد اور کرب کا اسی کو علم ہوتا ہے۔ والدین کی ساری دنیا کا محور ان کی اولاد ہوتی ہے جسے وہ یقیناً یہ سب جھیلنے اسکول نہیں بھیجتے۔ میرے ہمسایوں کا بیٹا چوتھی جماعت کا طالب علم ہے۔ شوہر ڈاکٹر اور ماں پروفیسر ہیں۔ بچہ بہت لائق اور پڑھنے والا ہے۔ ماں باپ کسی بھی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے اور ہر کام بڑھ چڑھ کے کرواتے ہیں۔

شکایات کا سلسلہ کچھ اس وقت شروع ہوا کہ جب سے دیکھا گیا کہ اسکول میں مہینہ مہینہ کاپیاں چیک نہیں کی جاتیں اور کی جائیں تو آنکھیں بند کر کے۔ ٹیچر کو اپنا مضمون ٹھیک سے پڑھانا ہی نہیں آتا، امتحان میں ایک دن پہلے کروایا جانے والا کام دے دیا جاتا ہے، کوئی ٹاپک بہت مشکل ہو تو گھر پڑھنے بھیج دیا جاتا ہے، بچہ کسی تقریری مقابلے میں حصہ لینا چاہے تو اسے پہلے سے بتا دیا جاتا کہ وہ ہار جائے گا وغیرہ۔ کچھ خاص بچے ہی گھوم پھر کے ہر پروگرام میں نظر آتے تو والدین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ شکایات لے کے اسکول آنا شروع ہو گئے۔ ان کی ہر بات کو رد کر دیا گیا۔ بچے کے بارے میں کہا گیا کہ اسے جھوٹ بولنے کی عادت ہے۔ وہ بہت بدتمیز ہے۔ دوسری جانب بچے کو شدید طعنہ زنی کا شکار کیا جانے لگا۔ ہر پیریڈ میں ذلیل کرنا، ہر بات پہ طعنے دینا۔ یہاں تک کہنا کہ تمہاری ماں تو بہت قابل ہیں، دو لفظ ان سے بھی سیکھ لو۔ اپنے والد سے کہو کہ تمھارا بھی تھوڑا علاج کر دیں۔ ماں باپ نے بہت احتجاج کیا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور آخر کار ایک دن بچے نے اسکول کے اندر جانے سے انکار کر دیا، روتا رہا کہ آپ لوگ آئندہ میرے اسکول نہیں آئیں گے، وعدہ کریں پہلے۔

جس طرح گدھے کے گوشت اور گلے ہوئے پھلوں پہ چھاپے مارے جاتے ہیں۔ اسکولوں کے لیے ایسا کوئی پیمانہ کیوں نہیں، اور اگر ہے تو چیکنگ کرنے والے انسپکٹر اپنے آنے کا پہلے سے کیوں بتاتے ہیں؟ کیوں چھاپے نہیں مارے جاتے کہ ہمیں تو زبان ہی وہ سمجھ آتی ہے۔ کیوں والدین سے نہیں پوچھا جاتا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور کیوں ہمیشہ گونگے بہرے والدین کو ہی ہر جگہ مدعو کیا جاتا ہے۔

اساتذہ کے حق میں بہت بول لیا مگر یہ پہلو بھی کچھ اس طرح کی اذیت ہے کہ برداشت کے قابل نہیں۔ ایسے نفسیاتی ’مریض‘ اساتذہ کو اب گھر بیٹھنا چاہیے۔ جسے کوئی اور نوکری نہیں ملتی وہ استاد بن جاتا ہے۔ بیشتر لڑکیاں اس پیشے میں اس لیے آتی ہیں کہ گھر سے اجازت صرف اسی نوکری کی ملتی ہے۔ بچوں کے بچپنے کے قاتل تو یہ لوگ بھی ہیں جو نجانے کس ضرورت کو پورا کرنے زبردستی استاد بنے ہیں اور اگر کچھ نہیں بدل سکتا تو پھر لفظ استاد کو حقیقتاً خداحافظ کہے دیتے ہیں۔ آج کل ایک عنوان فیشن بنا ہوا ہے۔ کیا کمپیوٹر اساتذہ کی جگہ لے سکتے ہیں؟ قارئین، کیوں نا بے حس مشینیں ہی پروان چڑھائی جائیں جنھیں نا چوٹ لگے نا درد ہو۔

کم از کم اس گاڑی کے ننھے منے معصوم ان تلخ آوازوں سے تو نا آشنا ہیں جو قوت سماعت والے سن رہے ہیں اور جھیل رہے ہیں۔ اب کیا زینب اور کیا زین۔ پھول تو دونوں صورتوں میں ہی مسلے جا رہے ہیں۔

آجکل پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن قدرے متحرک نظر آرہی ہے۔ مگر کیا کہ چھٹی کم چھٹی زیادہ، تنخواہ کم فیس زیادہ، ناچ کم گانا کم، اس سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں پا رہے، وہ جو درحقیقت سوچنا ناگزیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).