ٹیلی ویژن مارننگ شو میں خوب صورتی کے نام پر نسل پرستی


بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ “کالے، اللہ میاں کے پیارے”۔ لیکن یہ کالے میڈیا والوں کے پیارے کب سے بنے؟ اس بارے میں ہماری معلومات خاصی محدود ہیں۔ شاید اس کا آغاز اس وقت سے ہوا جب میڈیا اداروں کے ریسرچ اور کانٹینٹ کے شعبوں سے وابستہ ماہرین نے کچھ نیا، سب سے مختلف دکھانے کے شوق میں نان ایشوز کو پروگرامز کا موضوع بنانا شروع کیا۔ یا پھر اس وقت سے جب رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہاروں نے یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ کیسے ان کی مصنوعات کا استعمال خواتین کی کامیابی کی راہ میں حائل واحد رکاوٹ یعنی ان کی رنگت کو بدلنے میں مدد دیتا ہے۔

وجہ جو بھی بنی ہو لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ سیاہ رنگت، ٹی وی، ریڈیو اور ابلاغ کے دیگر شعبوں کے ذریعے اپنا منجن بیچنے والوں کا پسندیدہ موضوع ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب سیاہ رنگت کو پر کشش دکھانا ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ یہ افسوسناک منظر دو روز قبل ہم ٹی وی کے مارننگ شو جاگو پاکستان جاگو میں دیکھنے کو ملا جہاں میک اپ ماہرین کے درمیان سیاہ رنگت والی خواتین کو سجانے سنوارنے کا مقابلہ تھا۔

یوں تو اس پروگرام میں ماورائے اعتراض شائد کچھ بھی نہیں لیکن سیاہ رنگت کے حامل افراد کی یہاں جس انداز میں توہین کی گئی اس پر پیمرا کو ادارے کے خلاف نسل پرستی اور نسلی تعصب برتنے پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ حبشی النسل ہونا اتنا ہی فطری ہے جتنا کہ آریائی، منگول یا پھر کسی دوسری نسل کا فرد ہونا۔ لیکن جب کسی فرد کی جسمانی ساخت کی تضحیک کے لئے  اسے کسی خاص نسل کا قرار دیا جائے تو یہ نسلی تعصب ہے اور یہی وہ تعصب ہے جس کا بارہا اس پروگرام میں اظہار کیا گیا ۔ ” میں نے گہری رنگت والی بہت سی خواتین کو دلہن بنایا ہے لیکن حبشی دلہن نہیں تیار کی”، یہ تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟ اس کے علاوہ نیگرو، شیدی یا مکرانی جیسے الفاظ بھی متعدد بار اس پروگرام کے دوران سننے کو ملے۔

یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب کسی مارننگ شو میں رنگت کو موضوع بنایا گیا بلکہ ماضی میں بھی ندا یاسر، ڈاکٹر شائستہ واحدی، فرح حسین و دیگر اس معاملے کو اپنے پروگرام کا موضوع بناتی رہی ہیں، گویا کہ سیاہ رنگت ایک معذوری ہے جس سے چھٹکارا پانا از حد ضروری ہے لیکن منفرد دکھائی دینے اور ریٹنگ کی دوڑ میں مذکورہ پروگرام اپنی حدود سے کچھ زیادہ ہی تجاوز کرگیا۔

مان لیا کہ گوری رنگت پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے جہاں حسن کا معیار ہی سفید چمڑی ہے اور جہاں خواتین اپنے بیٹوں کے لئے  دلہن ڈھونڈنے نکلتی ہیں تو اعمال نامے کی سیاہی یا سفیدی سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی البتہ چہرے کی سیاہی ان کے لئے  ناقابل قبول ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس نوع کے پروگرامز گہری رنگت سے جڑے ٹیبوز کو ختم کرنے کے لئے  تیار کیئے جاتے ہیں یا پھر بذات خود معاشرتی تخصیص کا سبب؟ اگر ایسا نہیں تھا تو کیا پروگرام کے لئے  گہری رنگت والی ماڈلز کا حصول ممکن نہیں تھا کہ جن کا میک اپ کیا جا سکتا؟

 پروگرام میں جب سرخ و سپید رنگت کی حامل ماڈلز کے چہرے اور گردن پر انتہائی گہری رنگت کی حامل فائونڈیشن جسے فائونڈیشن کے بجائے کالک کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، لیپ کے خواتین کو گہری رنگت کا حامل دکھانے کی کوشش کی گئی، جبکہ انکے دودھیا رنگت والے بازو اصل رنگت کا پتہ بھی دے رہے تھے تو دراصل یہ سیاہ رنگت کی حامل خواتین کا مذاق اڑانے کے مترادف فعل تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ گوری رنگت کو خوبصورتی اور سیاہ رنگت کو بدصورتی کی علامت بنانے میں اہم کردار خود میڈیا انڈسٹری نے بھی ادا کیا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ نیوز اینکرز سے لے کے مارننگ شوز کی میزبان خواتین تک، سانولی سلونی رنگت والے چہرے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے لئے  عام طور پر توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ ٹی وی پر قبول صورت نقوش کا حامل چہرہ ہی پیش کیا جاسکتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ قبول صورت چہرہ محض گوری رنگت والا ہی ہوسکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پچانوے فیصد ڈراموں کی ہیروئن یا مرکزی کردار عام طور پر صاف رنگت کی حامل خواتین ہی ہوتی ہیں۔ باقی ماندہ ڈراموں میں بھی عموماً سانولی ہیروئن محض اسی صورت میں دکھائی دیتی ہے جب ڈرامے کا موضوع ہی کم رنگت والا کردار ہو۔ اور اگر اس دلیل کو رد کر دیا جائے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج کل کی ٹاپ ماڈلز اور ہیروئنز میں محض آمنہ شیخ، آمنہ الیاس، اور صدف کنول کے علاوہ عوام کسی دوسری کم رنگت والی ماڈل کے نام سے واقف نہیں؟

گورے اور کالے رنگ کی جنگ کو ختم کرنے کے لئے  بے حد ضروری ہے کہ کم رنگت والے افراد خصوصاً خواتین کے لئے  قبولیت پیدا کی جائے اورہر رنگ کی حامل خاتون کو یکساں مواقع فراہم کیئے جائیں۔ اشتہاروں کے ذریعے گورے رنگت کی تشہیر کو میڈیا مالکان کی کاروباری مجبوری قرار دیا جاتا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ان اشہتاروں پر پابندی عائد کردی جائے، آخر کو سگریٹ کے اشتہاروں پر بھی تو پابندی عائد ہے اور اس پابندی کے باوجود بھی میڈیا کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi