لاہور قلندرز کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے!


لاہور قلندرز دو چار میچ کیا ہار گئی، یار لوگوں نے تو آسمان ہی سر پر اٹھا لیا۔ چلیں دو چار نہیں، تو پانچ سات میچ ہوں گے یا شاید دس بارہ!
بات غم و غصے سے شروع ہوئی اور تنقید سے ہوتی ہوئی جگت تک جا پہنچی، جس میں ہر کسی نے حسب توفیق حصہ ڈالا۔ روحانیت پر یقین رکھنے والے ہمارے ایک دوست کہنے لگے لاہوریوں کو معصوم گدھوں کی بد دعائیں لگ گئی ہیں۔ ایک اور دوست بتانے لگے میں نے اندر سے پتا کروایا ہے، کھلاڑیوں کو دبئی دکھانے کے بہانے لے گئے تھے وہاں جا کر بلے پکڑا دیے۔ اِدھر اُدھر دیکھ کر میرے کان میں سر گوشی کرنے لگے عمر اکمل کے ساتھ تو باقاعدہ دھوکا ہوا ہے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے گئے تھے، پٹی کھولی تو دور سے بالر گیند پکڑے بھاگتاچلا آرہا تھا، اگر عمر اکمل جان بچا کر فوراً پویلین نہ واپس آتا تو تم ہی بتاؤ کیا کرتا؟ میں نے جواب کیا دینا تھا میرا دل بھی عمر اکمل کی بے چارگی کا سن کر بھر آیا۔

ایک صاحب نے بتایا چھوٹے رانا صاحب شارجہ میں گیارہ عدد بر قعے خریدتے دیکھے گئے ہیں۔ بس اتنا سننا تھا کہ اب ہمیں ہر برقعے والی، بر قعے والی نہیں بر قعے والا لگنے لگا۔ ایک آدھ پر تو ہم نے جملہ بھی کس دیا، بعد میں مولوی صاحب کی منجھلی بیگم نکلی، ہم نے لاکھ صفائیاں دیں لیکن مولوی صاحب بضد تھے کہ ان کی بیگم ہمیں کس زاوئیے سے فخر زمان لگ رہی تھیں؟ اب ہم بھرے بازار میں کیا زاویہ بتاتے، مولوی صاحب کی تھوڑی کو ہاتھ لگا کر جان کی اور ایمان کی امان چاہی اور کفر کا فتوٰی واپس جیب میں ڈلوایا!

دہی لینے گئے تو دودھ والا بتانے لگا دبئی کا ایک حلوائی اس کا جاننے والا تھا، وہ بتا رہا تھا میرے پاس بڑے رانا صاحب آئے تھے (وہی بڑی بڑی مونچھوں والے جن کی مونچھوں کو نیچا کرنے میں ان کی ٹیم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، کوئی کم حوصلے والا ہوتا تو مونچھیں جھک کر کب کی زمین سے جا لگی ہوتیں)، کہنے لگے ذرا گیارہ گرما گرم سموسے تو تیا ر کر دو، بلکہ بارہ کر دو اب تو شعیب اختر بھی ہمارے ساتھ آن ملا ہے، بس ذرا چٹنی میں یہ سفوف ملا دینا۔ وہ تو میں نے نیلا تھوتھا پہچان لیا ورنہ بنیان پہن کر دبئی کی کسی جیل میں چکی پیس رہا ہوتا۔ بہر حال رانا صاحب کے بے حد اسرار پر نیلا تھوتھا تو نہیں البتہ میں نے چٹنی میں جمال گھوٹا اچھی طرح سے گھول کے رانا صاحب کے حوالے کر دیا۔ اب ہمارے جو کرمفرما نہیں جانتے کہ جمال گھوٹا کیا ہوتا ہے اور کیا کرتا ہے ان کی معلومات کے لئے یہ کافی ہے کہ چٹنی کھانے کے بعد سٹیڈیم کے بغل والی مسجد کے غسلخانوں کے سامنے ایک عرصہ تک کھلاڑی لائن میں لگے رہے!

ایک گھر چھوڑ کر نوید صاحب بتانے لگے ان کے ایک عزیز کے رشتے کی بات چل رہی تھی مگر یہا ں آکر رک گئی کہ لڑکی والے کہنے لگے ہماری بچی دل کی بڑی کمزور ہے جبکہ آپ کے لڑکے کی طبیعت سخت لگتی ہے، وہ تو گھر والوں نے شور ڈال دیا کہ ہمارے لڑکے کی درویش صفتی اور تحمل مزاجی کا تو اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ایک دو نہیں، پورے تین سال سے لاہور قلندرز کا سپورٹر ہے۔ یہ سننا تھا کہ لڑکی کے والد صاحب جو تائب ہونے سے پہلے خود بھی کسی زمانے میں قلندرز کے سپورٹر رہے تھے انہوں نے اٹھ کر لڑکے کو گلے لگا لیا اور دونوں نے مل کروہ آہ و زاری کی کہ محفل میں موجود تقریباً سب لوگوں کی ہی آنکھیں بھیگ گئیں۔

ہمارے والد صاحب کے ساتھ ایک بزرگ صبح نماز کے بعد سیر کرتے ہیں اور علم نجوم سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ ستاروں کی چال یا شاید لاہور قلندرز کے کھلاڑیوں کا کھیل دیکھ کر پیشین گوئی کرنے لگے چھ ٹیموں کے اس مقابلے میں لاہور قلندرز ساتویں نمبر پر آئے گی، ہم نے لاکھ کہا ٹیمیں چھ ہیں مگر اپنی دھن کے پکے رہے، یہ تو لاہور قلندرز نے بعد میں بڑی محنت سے ثابت کیا کہ وہ ایسا کرنے کے بھی مکمل اہل تھے۔

بزرگ یہ بھی فرمانے لگے لاہور قلندرز اسم بامُسَمّیٰ ہیں، قلندروں کو ہار جیت بلکہ دنیا داری سے ہی کیا مطلب، بس اپنے حال میں گم ہیں!

ان بزرگوں کو تو چھوڑیں وہ سو لفظوں کی کہانی والے مبشر علی زیدی نے تو یہ تک لکھ ڈالا کہ جب کسی کرکٹ ٹیم سے قلندرز نہ جیتے تو ہندوستانی فلم لگان میں کھلاڑیوں کا کردار ادا کرنے والے اداکاروں کی ٹیم کے ساتھ میچ رکھوا دیا گیا کہ سیزن میں کوئی فتح تو قلندرز کے نام لکھی جاسکے۔ اداکاروں کو کیا کرکٹ آنی تھی، ساری ٹیم صفر پر آٖؤٹ ہو گئی۔ بھلا ہو قلندروں کا، وہ میچ بھی ڈرا ہو گیا!

شکور صاحب پراپرٹی کا کام کرتے ہیں، کہتے ہیں وہ ملک ریاض کو بلکہ ملک ریاض ان کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، ثبوت کے طور پر ایک تصویر بھی دکھاتے ہیں جس میں ملک ریاض میڈیا سے بات کر رہے ہیں اور عقب میں چودہ افراد نے کیمرے کے فریم میں اپنا چہرہ پھنسا رکھا ہے۔ ملک ریاض صاحب کی بائیں کہنی کے عین پیچھے شکور صاحب کا پورا چہرہ تو نہیں البتہ ناک ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔ صرف میں ہی نہیں اور بہت سے بھی تصویر دیکھ کر شکور صاحب اور ملک ریاض کی نہ صرف قربت کے قائل ہوگئے بلکہ رشک بھی کرتے رہے۔ شکور صاحب ایک روز بتانے لگے ملک ریاض نے لاہور قلندرز کی کارکردگی دیکھتے ہوئے بحریہ ٹاؤن میں قبرستان کا دو کنال کا پلاٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور لاہور سے ان کی وابستگی کے سبب یہ ہو گا بھی کارنر پلاٹ!

”اگر شکل اچھی نہ ہو تو بات تو اچھی کرنی چاہیے‘‘ میں نے فوراً احتجاج کیا۔ وہ نا ہنجار کہاں ماننے وا الا تھا، کہنے لگا اچھا میں بھی کہوں تم اتنی اچھی باتیں کیسے کرتے ہو!
ایک صاحب نے مفت مشورہ دیا کہ بڑے رانا صاحب کو چاہئیے بلا لے کر خود میدان میں پہنچ جائیں، اگر دوسری ٹیم کے بالروں کا سامنا نہ بھی کر سکے تو کم از کم اپنے کھلاڑیوں کی تو ٹھکائی کر لیں گے۔

ہمارا دوست ’ف‘ ہمیشہ اندر کی خبر لاتا ہے، اس نے بتایا کھلاڑیوں نے اجتماعی طور پر شکایت کی ہے بڑے رانا صاحب کی ہم سے زیادہ توجہ اپنی مونچھوں پر ہے۔ جب رانا صاحب سے اس کی بابت پوچھا گیا تو کہنے لگے میری مونچھوں نے مجھے کبھی دھوکا بھی تو نہیں دیا۔ رانا صاحب نے اس بات کی بھی سختی سے تردید کی کہ وہ سلفیاں بہت کھنچواتے ہیں۔ ویسے پریس کانفرنس کے اختتام پر انہوں نے صحافیوں سے گزارش کی کہ ذرا جانے سے پہلے اک سیلفی ہو جائے!

پریس کانفرنس سے تو کپتان میکالم نے بھی خطاب کیا، کہنے لگے نقادوں کو تو صرف ہماری خامیاں ہی نظر آتی ہیں، یہ نہیں دیکھتے جہاں دوسری ٹیمیں ہر ٹورنامنٹ میں پوزیشن تبدیل کر لیتی ہیں، ہم کس قدر استقامت اور مستقل مزاجی سے آخری پر ڈٹے ہوئے ہیں اور کسی کو اندازہ ہی نہیں ہمیں اس کے لئے کس قدر محنت کرنا پڑتی ہے!
ایک صحافی نے تو میکالم سے یہ بھی پوچھا کہ وہ پی ایس ایل کی بہتری کے لئے کرکٹ بورڈ والوں کو کوئی تجویز دینا چاہیں گے، لجاجت بھرے انداز میں کہنے لگے اگر ہو سکے تو گیند کا سائز فٹ بال جتنا کروادیں۔

نسیم فضولی ہمارا دوست تخلیقی ذہن کا آدمی ہے، دو سو روپے ادھار لینے آیا تو بتانے لگا لاہور قلندرز کے ساتھ دوسری ٹیموں نے جو کچھ کیا ہے، اس سے متاثر ہو کر اس نے ایک مسودہ لکھا ہے، جس دن( یا رات)، کوئی ڈھنگ کا پروڈیوسر مل گیا فوراً فلم بنا ڈالے گا۔ ہمارے پوچھنے پر بتانےلگا فلم کا نام رکھا ہے”رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی!‘‘

غرضں جتنے منہ اتنی باتیں، اور اب تو اس میں ہم نے بھی اپنا حصہ بقدر جُثّہ ڈال لیا ہے، الحمدللہ، لیکن اگر ایک بات کی گواہی نہ دی تو قلم کا حق ادا نہ ہو سکے گا۔ ڈیڑھ سال سے کچھ زائد عرصہ ہوا چاہتا ہے، ہم ان دنوں بہاولپور کے رہائشی تھے، شہر میں شور اٹھا کہ کچھ لوگ پنجاب بھر سے نوجوان کھلاڑی ڈھونڈنے نکلے ہیں اور اس سلسلے کا آغاز بہاولپور سے ہو رہا ہے۔ ہم بھی میدان کی طرف ہو نکلے۔ نوجوانوں کا اک اژدھام تھا کہ جو اپنا ہنر دکھانے کو میدان میں آن پہنچا تھا۔ لڑکے بالوں کا رش دوسرے روز بھی نہیں تھما، شام ڈھلے سولہ رکنی ٹیم کا اعلان ہوا، منتخب ہوئے لڑکوں کی خوشی دیدنی تھی۔ لاہور قلندرز والے بھی عجب لوگ تھے، خوشی بھی خود دی اور منانے کا اہتمام بھی خود ہی کیا۔ کھلاڑیوں سمیت ایک کھلے ٹرک پر ہمارے پیارےشہر کا چکر لگایا اور لڑکوں کے ساتھ مل کر ڈھول ڈھمکا بھی خوب کیا۔ اور تو اوربڑے رانا صاحب نے بھی لڈی اور بھنگڑے میں اپنے جوہر دکھائے۔

منتخب ہو جانے والے لڑکوں کی مزید تربیت کے لئے قومی ٹیم کے ایک سابقہ کھلاڑی کو کوچ مقرر کر کے قلندرز اگلے شہر کو عازمِ سفر ہوئے۔ سننے میں آیا کہ اس مہم کے دوران کرکٹ کے ان دیوانوں نےایک لاکھ سے زائد کھلاڑیوں کی آزمائش کی۔ کچھ روز بعد ہم نے ٹی وی پر کہیں اور نہیں بلکہ قذافی سٹیڈیم میں کہ جہاں کھیلنا ہر نوجوان کے لئے ایک خواب ہوتا ہے، بہاولپور کے لڑکوں کو دوسرے شہروں کی ٹیموں سے مقابلہ کرتے دیکھا۔ کیا یہ کم تھا کہ ہمیں پتا چلا ان سب لڑکوں میں سے بھی ایک ٹیم منتخب کر کے وہ آسٹریلیا لے گئے ہیں اور ان میں ہمارے شہر کا ایک کھلاڑی رافع احمد بھی شامل ہے۔ گویا وہ کھلاڑی جو شاید ساری زندگی گمنامی میں ہی گزار دیتے، انہیں عالمی سطح پر اپنی صلاحیتیں دکھانے کا کم عمری میں ہی موقعہ مل گیا۔

اگلے برس بھی یہ سلسلہ جاری رہا، بلکہ خبروں میں ہم نے دیکھا کہ آزاد کشمیر تک جا پہنچا۔ ہم اپنی نادانی میں سمجھتے رہے کہ اس میں لاہور قلندرز کا اپنا کوئی غرض پوشیدہ ہو گا، بعد میں پتا چلا کہ پی ایس ایل کی ترتیب ایسی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک ایسا نوجوان شامل کیا جا سکتا ہے۔ گویا فائدہ تھا تو ان نوجوانوں کا اور پاکستان کر کٹ کا۔ اور پھر ٹیلنٹ کا ملنا ایک امر ہے اور اس کا نکھرنا دوسرا۔ امید ہے وقت کے ساتھ ساتھ یہ کھلاڑی نتائج بھی دیں گے۔ میرا دوست سلمان کبھی کبھی کام کی بات بھی کرتا ہے، اور ابھی پچھلے سال ہی اس نے ایک کام کی بات کی تھی، کرکٹ پر گہری نظر رکھتا ہے، کہنے لگا لاہور قلندرز ہار ے یا جیتے، وہ پاکستانی کرکٹ کو ضرور جتوا دیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).