ریاست میں پڑے کچرے پر سیاست!


پچھلے دنوں شہر قائد کے قیمتی کچرے پر مرتب ایک جامع رپورٹ نظر سے گزری، دل خوش ہواکہ چلو یہ زحمت کے ڈھیر ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں تو کیا ہوا، کہیں نہ کہیں درجنوں افراد پر مشتمل مفلس کنبے اس رحمت سے اپنی ظالم بھوک کو مٹا رہے ہیں۔ روشنیوں کے شہر میں سفر کے دوران شاہراہوں کے دونوں جانب کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر جب بھی میری نگا ہ جاتی ہے تو ذہن کی اسکرین پر گلابی بے ترتیب لباس میں بے قصور چھوٹےسے جسم کی جھلک عیاں ہوجاتی ہے۔ کم سن زینب پر بیتے دل دہلا دینے والے سانحے نے الیکٹرانک میڈیا کو تقریبا ایک ماہ تک ہیڈلائنز کا بھرپور مواد فراہم کیا۔ اسی واقعے نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر نظر آنے والے ملزم کی گرفتاری کےلیے حکومت پنجاب کی دوڑیں لگوادیں۔

آج اسی بے قصور بچی کا غمزدہ بوڑھا باپ اعلیٰ عدلیہ کی دہلیز پر اپنے باقی ماندہ خاندان کی سیکیورٹی کے لیے کھڑا ہے۔ کیس کی تفتیش اور جسمانی ریمانڈ کے دوران اعتراف جرم کرنے والے عمران علی کے والی وارث اپنے مجرم بیٹے کی جان بخشی کے لیے مقتولہ زینب کے دکھی لواحقین کو ہراساں کر رہے ہیں۔ نا سمجھ میں آنے والا معاملہ یہ ہے کہ بچی کے اغوا اور اس کے ساتھ مسلسل زیادتی کے بعد قتل کے واقعے کے تمام شواہد ملنے کے بعد مجرم اتفاق سے قانون کے ہتھے چڑھ ہی گیا تو قصوروار کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں اتنی تاخیر سے کا م کیوں لیا گیا کہ مجرم کو اپنا بیان تبدیل کرنے اور عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا بھرپور موقع مل گیا۔ دوسری طرف سفاک انسان کے خاندان کے افراد مجرم کی رہائی کےلیے سر دھڑ کی بازی لگانے میں مصروف ہیں۔ (نوٹ: عدالتی نظام میں یہ طریقہ موجود ہے کہ سیشن کورٹ یا انسداد دہشت گردی کورٹ وغیرہ سے سزا کی صورت میں بھی مجرم کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا باقاعدہ وقت دیا جاتا ہے تاکہ کوئی بے گناہ سزا نہ پا لے۔ قانون کا اصول ہے کہ چاہے سو مجرم چھوٹ جائیں مگر ایک بے گناہ کو سزا نہ ملے۔ ان اپیلوں سے مجرم کو محروم نہیں رکھا جا سکتا ہے: مدیر)

معصوم بچی کے قتل پر سیاست بھی چمکائی گئی، خوب فوٹو سیشن ہوئے، جذباتی بیانات کا تانتا بندھ گیا۔ واقعے نے صرف سیاسی و سماجی برادری کو متاثر نہیں کیا۔ فلم نگری کے چمکتے ستارے پرُ نم آنکھوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپنے تاثرات کا اظہار اور حکومت وقت سے مظلوم خاندان کے لیے انصاف کی اپیل کرتے نظر آئے۔ زینب کو منوں مٹی تلے سوئے ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایک صحافی نے مجرم عمران علی کے حوالے سے من گھڑت دعووں اور بے بنیاد معلومات کا پہاڑ کھڑا کرکے نیا تنازعہ کھڑا کردیا۔ سنا ہے کہ نامور اینکرپرسن کے خلاف اب کیس چلے گا۔ غلط خبر دینے پر معافی نہ مانگنے والے کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ عوامی حلقوں کی خواہش اور مقتولہ زینب کی والدہ کی حسرت کے مطابق مجرم کو سر عام پھانسی تو دور کی بات، اسے تاحال پھانسی گھاٹ پر ہی پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ ایسا ہی کچھ شاہ زیب قتل کیس میں ہوا، مجرم شاہ رخ جتوئی کو سزائے موت سنائے جانے کے باوجود فخریہ انداز میں رہائی اور دوبارہ حراست میں لیے جانے کا معاملہ ہمارے قانونی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔

بے قصور زینب اور اس جیسی درجنوں ننھی کلیوں کے مسلسل مرجھانے پر ارباب اختیار کی بے حسی کا رونا پھر کبھی سہی، اب ذکر وہی جہاں سے بات شروع ہوئی تھی۔ دنیا کے دسویں بڑے شہر کراچی کا حسن منوں ٹنوں کچرے کے ڈھیر میں چھپا ہوا، چودہویں کے چاند کی طرح کبھی کبھار کچرے کی اوٹ سے اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ شہر کی شاید ہی کوئی شاہراہ ایسی ہو جہاں کچرے پر بھنکتی مکھیاں، راہ چلتے مسافر کا استقبال نہ کرتی ہوں۔ یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ کوڑے کے یہ ڈھیر ن لیگی حکومت کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی کی داستان بیان کر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ٹوٹی سڑکوں پر سیوریج کے پانی بہنے کی رفتار مجھے اپنی گاڑی کی رفتار سے کہیں زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔

تازہ ترین تحقیق کے مطابق کراچی میں یومیہ 15 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہےجس میں سے بہ مشکل 9 ہزار ٹن کچرے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے جبکہ باقی کا بچا کھچا کچرا شہر کی شاہراہوں، چوراہوں، پارکوں اور گلیوں میں ہی سڑنے کےلیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوڑے کے یہ ڈھیر آس پاس کے رہائشی علاقوں میں بسے باسیوں کی ذہنی و جسمانی صحت اور چلتی سانسوں کے لیے کڑا امتحان ثابت ہورہے ہیں۔ عوام بھی کیا کریں کہ اگر وہ اسے حکومتی نا اہلی کہنا چاہے تو شہر کے نام نہاد میئر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کےلیے فنڈز کی کمی اور اختیارات نہ ملنے کا شور مچانے لگتے ہیں۔

وزارت سے یاد آیا ، گذشتہ صوبائی وزیر اعلیٰ سائیں قائم علی شاہ نے اہم مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے پورے شہر کا کچرا اُٹھانے کےلیے کشمنر کراچی کو تین روز کا الٹی میٹم دیا۔ کچرا تین دن تو کیا تین ماہ تک اپنی جگہ سے نہ ہلا لیکن سائیں کی وزارت ضرور اپنی جگہ سے ہل گئی۔ نئے وزیر اعلی ٰکو بھی دو سال ہونے کو آئے، شہر کی صور ت اور حال دونوں جوں کے توں ہیں۔ معاشی حب کراچی کو خدا خدا کرکے نسبتا متحرک وزیر اعلیٰ نصیب ہوا۔ مراد علی شاہ کی دبنگ انٹری اِس جانب اشارہ کررہی تھی کہ شاید وہ ماضی کی حکومتی غلطیوں کا ازالہ کرسکیں گے لیکن افسوس ایساتاحال ممکن نہ ہوسکا۔ اہم سوال تو یہ ہے کہ حکومت سندھ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو کروڑوں روپے فنڈز کی مد میں دے رہی ہے وہ کہاں خرچ ہورہا ہے؟

کراچی کے دعویداروں اور مینڈیٹ کا رونا رونے والوں نے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے علاقوں کو کچرا کنڈ ی اور اُبلتے ہوئے کھلے گٹروں کا تحفہ دیا۔ موسم گرما کچھ دن بعد اپنے جوبن پر ہوگا تب تعفن زدہ کچرے کے یہ ڈھیر مزید آلودگی کا سبب بننے لگیں گے۔ شہر کی اس منظر کشی کا ذمہ دار صرف حکومتی ادارے اور ضلعی انتطامیہ کو کیوں ٹھہرایا جائے۔ ہمارے عوام کے کیا کہنے، اپنے گھر کی چوکھٹ صاف کرنے پر آئیں تو کچرا ساتھ والے گھر یا پارک کے کونے میں ڈال دیتے ہیں۔ نالوں کے پاس سے گزرتے ہوئے کوڑے کے تھیلے نالے کے اندر اُچھال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کیا ہم ان عوام سے یہ توقع باندھ سکتے ہیں کہ ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کےلیے شجرکاری جیسے مہم کا حصہ بن سکیں۔ کچرے کو درست مقام پر ٹھکانے نہ لگانے والے عوام کیا ایک پودے کو روزانہ پانی بھی دے سکتے ہیں؟ کیا اجتماعی مسئلے کے حل کےلیے انفرادی طور پر کوششوں کی ضرورت نہیں؟

شہر کراچی کے مسائل حل ہوں بھی تو کیسے؟ اس شہر کے دعویدار اور ووٹوں کے بھوکے وزرا خود اپنی سیاسی جماعت کی صفائی درست انداز میں نہیں کر پارہے۔ یہاں تک کہ اندرونی اختلافات سے آلودہ ذہنوں کو اس داغ سے نجات پانے کےلیے انھیں لانڈری والی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے مشورے بھی ملنے لگے۔ دھڑوں کا ملن عوامی مفاد کےلیے بھی افسوس ممکن نہیں نظر آرہا۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا اس سنگین اور اہم مسئلے سے نمٹا واقعی ناممکن ہوگیا ؟ حکومتی ناکام پالیسیوں اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث عوام کی بڑی تعداد سیوریج ملے پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہونے کے بعد مختلف امراض سے جنگ لڑ نے میں مصروف ہے۔ سنا ہے کہ مسئلہ کے حل کےلیے انتظامیہ نے نیا حل ڈھونڈ نکالا۔ کھلے مقامات جیسے گھر سے باہر، سڑکوں، بازاروں اور پارکس کے اطراف کچرا پھینکنے پرپابندی عائد کر دی گئی۔ جی ہاں، اب کچرا پھینکنے والوں پر مقدمات چلیں گے، سزائیں ہوں گی۔ گویا عدالتوں میں اب کرپشن اور توہین عدالت کے مقدمات سمیت ، چوری و ڈکیتی اور قتل کے سنگین کیسز کی سنوائی کے ساتھ کچرا پھینکنے والے ملزم کی پیشی پر بھی عدالتیں سجیں گی، سماعتیں ہوں گی۔

ایک ایسا ملک جہاں کی 91 فیصد آبادی غیر صحت بخش اور آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ یہاں ایوان بالا میں بالادستی کی جنگ کی بچھی بساط پر تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے مہرے دوڑادیئے۔ چار ماہ بعد اسی ایوان میں شامل کوئی شنا سا چہرہ وزیر اعظم کی گدی پر براجمان ہوگا۔ سینیٹروں کے انتخاب کے بعد وزیروں مشیروں کے چناؤ ہوتے رہیں گے۔ اہم سوال یہ ہےکہ آلودگی زدہ صوبے کی صفائی اور ستھرائی ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں کب شامل ہوں گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).