عرب ثقافت یا چاولوں میں گھری بکرے کی لاش


اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ قوموں کو قوموں پر؛ زبانوں کو زبانوں پر؛ ادوار کو ادوار پر؛ کردار کو کردار پر؛ انسان کو انسان پر، اور پکوان کو پکوان پر۔ اس میں حتی الامکان غیر منطقی تقابل سے گریز کرنا چاہیے۔ یعنی انسان کا موازنہ قوم سے نہیں ہوسکتا اور کردار کا موازنہ ادوار سے ممکن نہیں۔ اگر کسی دور کو فضیلت دی گئی ہے تو یہ مطلب نہیں کہ اس دور کی ہر قوم کو فضیلت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جس قوم کی زبان کو فضیلت دی گئی ہے، اس کے پکوان بھی لذیذ ہوں۔ کھانوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے برِصغیر کے کھانوں کو باقی دنیا پر فضلیت بخشی ہے۔

بس اتنی سی بات ہمارے دوستوں کی سمجھ نہ آسکی۔ عرب شیوخ سے اپنی بے لوث محبت اور لگاو کے اظہار کے لیے ان کے پکوان دوستوں کو کھلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کل رات بھی انھیں مقاصد کی تکمیل میں ’مندی‘ کی دعوت دی گئی۔

اب قابلِ احترام دوستوں کو یہ کیسے سمجھائیں، کہ قبلہ! یہ مردہ بکرا اور پھیکے چاول، زیتون کے تیل میں بھگو کر کھانے کے تصور ہی سے جھرجھری طاری ہوجاتی ہے۔ اوپر سے اس میں خاص اہتمام کے ساتھ متضاد ذائقوں والی اشیا شامل کردی جاتی ہیں، یعنی تلے ہوئے بادام کے ساتھ کچے کھیرے اور ابلے ہوئے انڈوں کے ساتھ ثابت کشمش۔ تصورکیجیے آپ ایک داڑھ سے کھیرا چبارہے ہیں، اسی لمحے دوسری داڑھ میں کچ سے کشمش پھوٹے اور زیتون کا تیل مَلے تالو پر زبان سے بکرے کی چربی مَسلی جائے۔ اُف میرے خدا! بجائے نگلنے کے اُگلنے کا جی چاہے۔ ایسی بے ہنگم ترتیب تو چھوٹی لڑکیوں کی ہنڈکلیا میں بھی نہیں ہوتی۔

کھانے پینے کی چیزوں میں ایک حسن ترتیب رکھی جاتی ہے، اس لیے بھنڈی بیگن کے ساتھ، آلو ککڑی کے ساتھ، قیمہ مولی کے ساتھ، اور لوکی پالک کے ساتھ کسی سلیم الفطرت گھرانے میں نہیں پکایا جاتا۔

اللہ اس کیفیت سے بچائے جس میں انسان آنتوں کی محبت میں، زبان پر ظلم کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ یہ ’مندی‘ آنتوں سے زیادہ زبان اور اس سے بھی زیادہ طبعیت پر بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ عربی زبان میں اردو کی طرح حفظِ مراتب نہیں ہوتے۔ اب معلوم ہوا کہ عربوں کے کھانوں میں بھی نہیں ہوتے۔ مولائی (مولانہ صہیب نسیم) اور قبلہ عالم (علامہ منیب احمد) جس طرح اس بے ہنگم پکوان کی تعریف میں رطب السان تھے، چند لمحوں کے لیے ہمیں ان دو حضرات سے اپنی عقیدت و مودت پر تشویش ہونے لگی، مگر پھر ’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘ کے مطابق یہ تصور کرلیا کہ یا تو ان دونوں بزرگانِ دین کے حواس پر ’مندی‘ کے اثراتِ بد مرتب ہوئے ہیں، یا یہ فقط اس لیے تعریف کررہے ہیں، کہ یہ ایک عربی کھانا ہے۔

ہمارا دل کہتا ہے کہ اگر تحقیق کی جائے تو یقیناَ یہ کھانا بعثتِ نبویﷺ سے پہلے کا ہوگا اور عربوں نے دورِ جہالت میں اس کھانے کا آغاز کیا ہوگا۔ یہ بھی بعید نہیں کہ ’عمر بن لحی‘ کہ جس نے عربوں میں بت پرستی کا آغاز کیا تھا، یہ کھانا بھی اسی کے دور میں ایجاد کیا گیا ہو۔

ہر چند اللہ تعالیٰ نے ہم پر بکرے حلال کیے ہیں، تاہم محض ’مندی‘ کے لیے ایک زندہ بکرے کا قتل کردینا سمجھ میں نہ آنے والا معما ہے۔ پھر اس بکرے کی لاش کا مثلہ کرکے اس میں اناج بھرنا، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عرب دورِ جہالت میں، اس طرح بکرے کی ’بَلی‘ چڑھا کر دیوی دیوتاؤں کے آگے رکھتے ہوں گے۔

بہرحال مولائی و قبلہ کی کل رات کی تعریف نے ہمیں مجبور کیا، کہ یا تو ہم معصوم بکرے کے بے مصرف قتل پر صدائے احتجاج بلند کریں، یا قبلتین سے اپنی مودت پر نظرِ ثانی کریں۔ کیوں کہ آپ تو عرب شیوخ کی محبت میں کھانا کھا کِھلا رہے ہیں مگر ہمارے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ:
تمھیں چاہوں، تمھارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

ہم نے فیصلہ کیا کہ قتلِ ناحق اور بربادیِ اجناس کے خلاف آواز اُٹھائیں گے اور علمائے حق سے درخواست کریں گے کہ آپ علمائے عرب کی محبت میں ہمیں عربی سکھا دیں، قران پڑھا دیں یعنی جن چیزوں میں عرب کو ہم پر فضیلت ہے، مگر خدارا ’مندی‘ کی خاطر بکروں کا قتل عام اور دوستوں پر غذائی تشدد سے اجتناب کیجیے۔ اپنے دل سے فیصلہ کیجیے کہ نفاست سے بنی بریانی اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے زیادہ نزدیک ہے یا چاولوں میں گھری بکرے کی لاش؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).