خیبر پختونخواہ کے بیروزگار پی ایچ ڈی کپتان کو پیار سے یاد کر رہے ہیں


وہ اب دوسری پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے ۔ وہ میرے ایک دوست کا کلاس فیلو ہے۔یہ چین سے پی ایچ ڈی کرکے بڑی امیدیں لگا کے واپس پاکستان آیا تھا۔  یہاں آکر نوکری کی مصروفیت میں پڑے سے پہلے اس نے شادی کر لی ۔ یہ اس کے والدین کی خواہش تھی ۔ اس کے والد کو کسی نے بتایا تھا جتنی تعلیم آپ کے بیٹے نے حاصل کی ہے ۔ اتنی پورے علاقے میں کسی کی نہیں ہے ۔اب آپ کے دن بدلنے والے ہیں ۔

اس سے پہلے کے بیٹا ہی بدل جائے اس کی شادی کر دو ۔

نوکری تو اب اُسے ملنی ہی ملنی ہے ـ اُس کے والد نے بھی اپنے پی ایچ ڈی بیٹے کی شادی کرنے میں پھر پھرتی دکھائی ۔ ڈاکٹر صاحب شادی ہنی مون سے فارغ ہوئے تو نوکری کی تلاش میں جڑ گئے ۔ اپنی ڈگریوں کی فائل بنا کر اپنے گھر والوں اور اپنی دلہن سے رخصت لی ۔ ایک یونیورسٹی پہنچے یہ سوچ کر کہ میری ڈگری دیکھ کر فوری نوکری دے دیں گے ۔

وہاں ڈاکٹر کو پہلا بجلی کا جھٹکا یونیورسٹی کے گیٹ پر ہی لگا ۔ اسے سیکیورٹی گارڈ نے گیٹ پر روک کر تفتیش کی ۔ اس سے پوچھا کہ کس سے ملنا ۔ جب ڈاکٹر نے کہا کہ وائس چانسلر سے تو اگلا سوال پوچھا ۔ اس سے کیوں ملنا ہے ؟ ڈاکٹر کو سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو اخبار میں اشتہار دیتی ہے ۔ ایسے نہ تو وی سی کسی سے ملتے ہیں ۔ نہ ایسی ملاقات سے نوکری ملتی ہے ۔

ڈاکٹر نے بچی کھچی ہمت جمع کر کے کہا تم مجھے اک بار اندر تو جانے دو۔ سیکورٹی گارڈ نے کہا وی سی اپنے طے شدہ ملاقاتوں میں بزی ہیں ۔ پھر بھی جا کر ان کے پرسنل سیکرٹری سے مل لو اگر ملتا ہے تو ـ ڈاکٹر صاحب جب وی سی افس پہنچے تو وی سی صاحب میٹنگ میں تھے ـ ڈاکٹر سے کہا گیا کہ سی وی دے دو آپ سے رابطہ کر لیں گے ۔ ہفتہ گزر گیا کوئی جواب نہیں آیا ۔

ڈاکٹر دوبارہ یونیورسٹی چلا گیا ۔ اس بار وی سی صاحب سے ملاقات کرنے میں بھی کامیاب ہو گیا ۔ اس ملاقات میں وی سی نے ڈاکٹر کو کافی سخت سست کہا۔ ڈاکٹر کو اپنی ڈگری کی تحقیر کا اچھی طرح احساس دلایا گیا ۔ یہ احساس لے کر وہ وہاں سے واپس آ گیا ۔

پھر ڈاکٹر دوسری یونیورسٹی پہنچ گیا ۔ وہاں وی سی نے ڈاکٹر کی پی ایچ ڈی کی جانچ ایم ماسٹر ڈگری رکھنے والے استاد سے کرائی ۔ اس استاد کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ امپیکٹ فیکٹر کیا ہوتا ہے ۔  لیکچرر کو  تحقیقی مقالوں کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات ضرور تھیں ـ ڈاکٹر سے جو سوالات کئے گئے وہ البتہ سارے ہی آوٹ ڈیٹیڈ تھے ـ ڈاکٹر نے لیکچرر کو بتایا کہ دنیا ان سوالات سے آگے جا چکی ہے ۔

لیکچرر نے جو رپورٹ ہمارے ڈاکٹر صاحب کے بارے جمع کرائی ۔ اس میں لکھا کہ موصوف کی ڈگری ہمارے مضامین اور ضروریات کے ساتھ میچ نہیں کرتی ۔ یوں دوسری یونیورسٹی سے بھی ڈاکٹر ناکام واپس آ گیا ۔

اب تیسری یونیورسٹی کی راہ لی وہاں ایک کلرک نے اس کی ایسی عزت افزائی کی کہ بندے کی برداشت جواب دے گئی ـ وہ مایوس ہو کر واپس گھر پہنچ گیا ۔ گھر سے وہ جاب کے لیے اپلائی کرتا رہا ۔ لیکن اسے کبھی کوئی جواب نہ آیا ۔ آٹھ مہینے بیروزگار رہنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ چین واپس جائے گا۔ وہاں نئے ٹاپک پر ایک اور پی ایچ ڈی کرے گا ۔ ڈگری کے دوران جو وظیفہ ملے گا اس سے گھر چلاتا رہے گا ۔

یہ صرف ایک پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر کی کہانی نہیں ہے ـ

خیبر پختونخوا میں  پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والے اکثر بیروزگاروں کی ایسی ہی کہانیاں ہیں ۔ یہ تبدیلی سرکار کے بس دعوے دیکھتے ہیں، ہنستے ہیں ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک سال تک ہر پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر کو وظیفہ دیتا ہے ۔ اس دوران اگر وہ نوکری پر لگ جائے تو ٹھیک ۔ ورنہ سال بعد اس کی مرضی ہے کہ وہ ریڑھی لگائے یا کچھ اور سوچے ۔

اکثر یونیورسٹیوِں میں ایسے ڈاکٹروں کے حالات کو ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے ۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ کو ملازمت دے دیتے ہیں ۔ بانڈ لکھ کر دو کہ ایک سال تک آپ یونیورسٹی میں نوکری کرو گے ۔ یہ وہ سال ہوتا ہے جس کی تنخواہ کی ذمہ داری ایچ ای سی کی ہوتی ہے ۔ اس کے بعد یونیورسٹی مزید نوکری دینے سے گریز کرتی ہے ۔ سال مکمل ہونے کے یہ ڈاکٹر کیا کرے ؟

حکومت نےرٹائرمنٹ کی عمر بھی  65 سال کر دی ہے ۔ اس کی وجہ سے نئی اسامیاں پیدا نہیں ہو رہیں کہ پرانے لوگ رٹائر ہی نہیں ہو رہے ۔ بیکار قسم کے بزرگ پروفیسر جنہیں نئی تحقیق کا کچھ پتہ نہیں ان کی موج لگی ہوئی ہے ۔ وہ اپنے عہدوں پر براجمان رہیں گے ۔ ان میں سے بعض کی اپنی تحقیق بھی سرقہ ہے کیونکہ جس زمانے کے یہ بزرگ ہیں تب تحقیق میں سرقہ کرنے کے حوالے سے قوانین متعارف ہی نہیں ہوئے تھے ۔

یہ بزرگ کسی سائنسی جنرل میں اپنا پیپر تک شائع نہیں کر اسکتے ۔ جبکہ یہ لوگ یونیورسٹیوں سے تین تین لاکھ تک تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ۔ پی ایچ ڈی کر کے آنے والے نئے لوگ بیروزگار پھر رہے ہیں ۔

 کے پی حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی منصوبہ شروع کر رکھا ہے ؛۔ اس میں پی ایس ٹی کی آسامی متعارف کرائی ہے ۔ اس کے لیے اہلیت ایف اے یا ایف ایس سی ہے ۔ حال ہی میں سولہ پی ایچ ڈی ڈاکٹروں نے اس کے لیے درخواستیں جمع کرائی ہیں ۔ جبکہ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر  نے کلاس فور اور ایک نے کلرک کے عہدے کے لئے بھی اپلائی کیا ہے۔

ہزارہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے والے ایک ڈاکٹر  صاحب بھی بیروزگار ہیں ۔ وہ بارہ یونیورسٹیوں کے دھکے کھا کر تھک ہار کر اپنی پی ایچ ڈی کو کوس رہے ہیں ۔ پی ایچ ڈی کر کے بیروزگار پھرنے والے یہ سب لوگ عمران خان کو بھی کوستے رہتے ہیں ۔ کپتان اپنی تعلیمی پالیسیوں کے بارے میں بہت بڑے دعوے اور اعلان کرتا رہتا ہے ۔ ان پی ایچ ڈی ڈاکٹر حضرات کا دکھ تب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے دوسرے ساتھی جن کا تعلق ان کے صوبے سے نہیں ہے وہ اپنے اپنے صوبوں میں نوکری حاصل کر چکے ہیں ۔

خیبر پختون خواہ کے یہ سب بیروزگار پی ایچ ڈی ڈاکٹر کپتان کو بہت پیار سے یاد کر رہے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).