نوروز یعنی نئے سال اور موسم بہار کا استقبال


سب سے پہلے تمام دوستوں کو میری طرف سے نوروز یعنی نئے سال کا نیا دن مبارک ہو جس میں ہر کوئی موسم بہار کی آمد کا استقبال کرتا ہے تاکہ ان کا پورا سال سرسبز اور حسین وادیوں کی طرح معطرکن رہے، ان کی زندگیوں میں خوشیاں ہی خوشیاں ہو اور کوئی غم ان کے قریب نہ آنے پائے۔

مگر بحیثت زی شعور انسان، میں آج سارا دن یہی سوچتا رہا کہ کیا واقعی ہمارے لیے یہ نوروز یا نئے سال کا نیا دن ہوسکتا ہے؟ کیا پچھلے سالوں کی طرح ہم دوبارہ نا ختم ہونے والی اذیتوں کا شکار تو نہیں ہوں گے؟ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا بغیر کسی جرم کے پھر سے ہمارے پھول مرجھا تو نہیں جائیں گے؟

کیا پھر سے اسی طرح پنڈال تو نہیں سجایا جائے گا جس میں مداری معصوم اور بےگناہ لوگوں کے قتل کی سینچری مکمل ہونے پر ڈگڈگی بجا کرداد تحسین وصول کر رہا ہوگا؟ کیا پھر سے ہمارے بے گناہ بزرگوں، جوانوں، مردوں، عورتوں اوربچوں کا لہو پانی کی طرح سڑکوں اور گلیوں میں تو نہیں بہایا جائے گا؟
کیا پھر سے کوئی بزرگ باپ اپنے شہید بیٹے کی قبر پر گھنٹوں رو رو کر باتیں تو نہیں کرے گا؟

پھر خیال آیا کہ میرا ان لوگوں سے کیا تعلق؟ جن کے پیارے دہشت گردی کی بھینٹ چھڑ گئے۔ جنہوں نے یہ ظلم تن تنہا سہی اور پل پل کی اذیتیں برداشت کرتے آ رہے ہیں۔ کیا پوری قوم میں ایسا کوئی نہیں جو ان خاندانوں کے دکھ۔ درد کو محسوس کر سکے اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھکر ان کی مدد کریں؟ جو ستم دیدہ لوگ ہماری راہ دیکھ رہے کہ شاید ہم ان کا درد سمجھکر انہیں بانٹنےکی کوشش کریں۔
ویسے تو ہم سب باشعور اور پڑھے لکھے ہیں اور دوسری اقوام بھی ہمارے اتحاد کے بہت معترف نظر آتی ہیں مگر کیا واقعی میں ہم دوسروں کے دکھ۔ درد کا مداواکرنے کی سعی کریں گے؟
یہ شاید سال نو کا سب سے بڑا چیلنج ہو۔

معذرت خواہ ہوں اگر میں نے اس خوشی کے موقع پر کڑوی بات کرنے کی کوشش کی جسے شاید کچھ لوگ ناپسند بھی کرے مگر کروں بھی تو کیا کروں کہ میں خود کو متاثرہ لوگوں سے جدا نہیں کر سکا۔ میں انہیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتا ہوں۔ یہ سب سوچ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ شہداء کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں اور سات سالہ سحر بتول جنہیں بے دردی سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر کچرے میں پھینک دیا گیا تھا ان کے والد آج بھی یہی سوچتے ہوں گے کہ یہ قوم تو دن میں لاکھوں، کروڑوں روپے اپنی شاہ خرچیوں میں اڈا دیتی ہیں مگر مجھ جیسے مجبور اور بے بس انسان کا سہارا بننے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ قوم کی مدد کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اپنی پیاری بیٹی کو انصاف دلاسکوں۔

ہماری روایات، اقدار اور اخلاقیات تو ایسی ہوا کرتی تھی کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے اور ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامےنظر آتے تھے۔ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ اب ہمیں ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں؟ ہم سب عالم و فاضل بن گئے ہیں اب تو ہم پر شہداء کے خون کا بھی کوئی اثر نہیں رہا۔ بس ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں ہے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بندکیے یہ سوچ رہا ہے کہ کوئی مجھے نہ دیکھ لے۔ لیکن شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جب جنگل میں آگ لگتی ہے تو سب کچھ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ ہم بھلے محسوس نا کرے لیکن وہی آگ ہمارے دروازے تک پہنچ چکی ہے۔

بس پروردگار سے آج کے دن یہی دعا ہے کہ ہم پہلے کی طرح ایک ہوکر پوری دینا میں اپنے قدم جمائے، ہرمیدان میں دوسروں سے آگے ہو اور اپنوں کے ساتھ دکھ سکھ بانٹنے کا احساس پیدا کرے جہاں نفرتوں کی کوئی گنجائش نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).