تحریک نسواں پاکستان اور نعرے


ابھی کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ میرے چھوٹے بھائی نے گھر آ کر معمول کے مطابق مجھ سے کھانا گرم کر کے لانے کو کہا۔ میرا 8 مارچ کا خُمار ابھی تک اُترا نہیں تھا اور میں فی الحال خواتین ڈے پر لگائے گئے نعروں کے زیر اثر تھی چناچہ میں لہجے میں ذرا نخوت بھر کر اپنے بھائی سے مخاطب۔ ہوئی کھانا خود گرم کرلو۔ میرے برادرنے دو سیکنڈ کے لئے مُجھے گھور کر دیکھا اور پھر قہقہے لگاتا وہاں سے چلا گیا۔ اپنی کامیابی پر نازاں میں اس نعرے کی افادیت کی دل سے قائل ہو گئی تاوقتیکہ دو دن بعد میرے لیپ ٹاپ کے خراب ہونے پر جب میں نے اُسی بھائی سے لیپ ٹاپ ٹھیک کروانے کا کہا تو اُس نے میرے ہی لہجے میں کہا خود ٹھیک کروا لو۔ تب میری وہ ہی حالت تھی جو طاہرالقادری کی نقالی کے بعد میاں صاحب۔ خیر جانے دیجئے ہمیں سیاست سے کیا لینا دینا۔

تو بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم منفرد طرز کے نعرے بنانے میں ازحد ماہر ہیں جیسے شیر ایک واری فیر، میاں صاحب جان دیو ساڈی واری آن دیو، رو عمران رو، گو نواز گو، روک سکو تو روک لو کے بعد پیش خدمت ہے کھانا خود گرم کر لو۔ میں نے بہت کوشش کی لیکن میرا قلم سیاسی ہو ہی جاتا ہے۔

بات ہو رہی تھی حالیہ برسوں میں پاکستان میں مقبول ہونے والی تحریک نسواں کی۔ بیسویں صدی کے وسط میں مغرب میں جنم لینے والی اس تحریک کے مقاصد بالکل واضح تھے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق کی برابری، یکساں معاشی مواقع، معاشرے میں باعزت مُقام، اور اپنی زندگی سے متعلق فیصلے لینے کی آزادی۔ یاد رہے کہ تحریک نسواں کے کسی بھی نعرے میں کم لباس کو ترقی کا پیمانہ اور گھریلو کام کو کمتر نہیں کہا گیا۔ یہ ہماری قوم کا ہی وصف ہے کہ تحریک نسواں پاکستان کے ٹھیکیداروں کی نظر میں چادر اور چار دیواری صرف گلی سڑی لاش کے لئے اور گھریلو کام کاج کرنا نہایت ادنی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم پاکستانی اول تو کسی تبدیلی کو قبول کرنے میں سالوں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور اپنانے کے بعد شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر دکھاتے ہیں۔

ایک ایسا مُلک جہاں مردوں کے مقابلے میں 55 فیصد زنانہ آبادی ناخواندہ ہے۔ ایسا مُلک جہاں بیٹی کی پڑھائی پر خرچ کرنے کی بجائے اُسکے جہیز پر خرچ کرنا عقلمندی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا مُلک جہاں عورتوں کی محض25 فیصد آبادی افرادی قوت کا حصہ ہو اور اُن میں سے بھی بیشتر شادی کے بعد نوکری ترک کر دیتی ہوں۔ ایسا مُلک جہاں شادی جیسے زندگی کے سب سے بڑے فیصلے کو لے کر لڑکی کی رضامندی کو غیر ضروری خیال کیا جاتا ہو۔ ایسے معاشرے میں جب لڑکیوں کے مغربی لباس پہننے یا نہ پہننے، سر پر دوپٹہ اوڑھنے یا ننگے سر گھومنے جیسے نان ایشوز پر بات کی جاتی ہے تو قہقہے لگانے کو جی چاہتا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ اگر لباس کی تبدیلی ہی سے عورت کی زندگی میں بہتری آتی تو پنجاب پولیس کی وردی کی تبدیلی سے پورا تھانہ کلچر ہی بدل کر رہ جاتا۔

ہمارے ہاں مغرب سے ہر چیز میں موازنہ کرنا عام بات ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ مغرب کی عورت معاشی خود مُختاری کے جس مقام پر کھڑی ہے وہ زینہ در زینہ محنت کا صلہ ہے۔ ہماری عورت تو اپنے حقوق سے آگہی کا پہلا زینہ بھی عبور نہیں کر پائی اور تحریک نسواں پاکستان کے نام نہاد علمبردار اُسے مغرب کی عورت کے برابر لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔

ذرا تصور کیجئے ایک ان پڑھ اور روایات میں جکڑے خاندان کا جس کی ایک عورت فیمنزم کے ان اوٹ پٹانگ پاکستانی نعروں کی لہر میں بہہ کر باغی ہو جاتی ہے۔ کیا آپ نے اُسے اتنا معاشرتی فہم اور مناسب تعلیم دی ہے کہ وہ سینہ تان کر اپنے باپ بھائی شوہر بیٹے کے آگے کھڑی ہو جائے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہے تونتیجے میں مار یا موت اُسکا مُقدر بنتی ہے۔ یہاں اس گھرانے کا مرد سربراہ ایک نرسری کے اُس طالبعلم کی مانند ہے جسے حل کرنے کے لئے الجبرے کاسوال دے دیا جائے۔

اُس مرد کو نہ تو کبھی کسی نے احساس دلایا کہ عورت بھی انسان ہے اور نہ ہی یہ کہ اس انسان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ اگر غلطی سے وہ چار جماعتیں پڑھ بھی چُکا ہے تو فرسودہ نظام تعلیم کی بدولت ان چار جماعتوں کی اہمیت گدھے پر لدی کتابوں سے زیادہ ہر گز نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اُس عورت کے ساتھکیے گئے سلوک کا ذمہ دار صرف وہ مرد نہیں ہے بلکہ یہ معاشرہ، حکومت وقت، اور عہد حاضر کے عُلماء ہیں جنہوں نے کسی مثبت کو پروان چڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔

ہمارا معاشرتی المیہ عورتوں کا پردہ نہیں ہے ہمارا المیہ مناسب تعلیم و تربیت کی کمی ہے۔ مردانہ غلبے کے زیر اثر اس معاشرے میں عورت کا اپنے حقوق سے آگاہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا اگر مرد اس اہمیت کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ آپ ہر خاندان کی ہر عورت کو شعور عطا کریں اور اُسکے مقابلے میں اُس خاندان کے مرد کی تربیت روایتی طریقے سے کریں وہ ایک مرد اُن ساری باشعور عورتوں کوگھر میں بند رہنے ہر مجبور کر دے گا۔ پردہ کرنے نہ کرنے کی آزادی تو ایک طرف سانسوں پر پہرہ نہ بٹھا دیا جائے تو جو چور کی سزا وہ میری۔

عورتوں کو تعلیم، صحت، معاشرے میں برابر مقام، عزت، آزادی سب دیجئے لیکن خدارا اس سے پہلے معاشرے کو عورت کو ایک انسان سمجھنا سکھائیے۔ اپنے بیٹوں کو صرف تعلیم مت دیں بلکہ اُنکو عورتوں کے حقوق کی پاسداری کرنا بھی سکھائیں۔ اُنہیں سمجھائیں کہ عورت صرف اس لیے قابل احترام نہیں ہے کہ وہ کسی کی بہن ماں یا بیٹی ہے۔ اُسکی عزت کرنے کے لئے اُسکا صرف عورت ہونا ہی کافی ہے۔ اپنی صنفی کمزوریوں کی بنا پر وہ آپ کے شانہ بشانہ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لیکن اُسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی آزادی تو مل پائے۔ کھوکھلے اور مضحکہ خیز نعروں کے سحر سے باہرآئیے کوئی حقیقی قدم اُٹھائیے ورنہ جگ ہنسائی تو پہلے ہی بُہت ہو چُکی۔

اس سے پہلے کہ مجھ پر اسلامی روایات کی پامالی کا الزام آئے مجھے کہنے دیجئے کہ یہ دور حاضر کے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ آج کی عورت کو اسلام کے دائرہ کار میں رکھ کر معاشرے کا فعال رُکن بنانے کی کوشش کریں کیونکہ اسلام میں کہیں بھی عورت کے کام کرنے پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔

اور مت ہوس کرو اُس فضیلت میں جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہے۔ مردوں کو اپنی کمائی سے حصہ ہے اور عورتوں کو اپنی کمائی سے حصہ ہے۔ اور اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ بے شک اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔
(سورہ النساہ 32:4)
اس آیت کی موجودگی کے باوجود اگر آپ عورت کو اُسکا جا ئز حق اور آزادی نہیں دیتے تو پھر مغربی تہذیب کے غلبہ پر شیر آیا شیر آیا کی طرح واویلہ مچانا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ واللہ علم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).