درسگاہوں کو بدنام ہونے سے روکنا ہوگا


ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو سرکاری درسگاہوں کو عمومی اور غیر سرکاری درسگاہوں کو خصوصی طور پر عیاشی کا اڈہ سمجھتے ہیں۔ اور کچھ تو اس تفریق کا تردد بھی نہیں کرتے۔ ان کے حساب سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یونیورسٹی جاتے ہی مزے کرنے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے باہر سے ایک بس میں سوار ہوا تو کنڈیکٹر نوجوان تھا مجھے دیکھ کر مسکرادیا کہنے لگا آپ کے تو مزے ہوں گے؟ دریافت کیا وہ کیوں؟ تو جواب آیا اتنی ساری لڑکیاں جو ہوتی ہیں یونیورسٹی میں۔ پھر اندر تو پارٹی وغیرہ بھی ہوتی ہے۔ میں اس کا جواب سن کر دنگ رہ گیا۔ اگلے ہی لمحے ترس آیا اس خاتون پر جو اس کے خاندان میں سے تعلیم کے حصول کے لئے گھر سے باہر قدم رکھنے کے خواب دیکھ رہی ہوگی۔

ایک اور دلچسپ تجربہ اس وقت ہوا جب جمعے کی نماز کے لئے ابا جان کے ساتھ مسجد میں موجود تھا اور ممبر موجود مولوی صاحب نے یونیورسٹیوں میں پڑھتی خواتین کو بے لباس، بے غیرت اور پتہ نہیں کیا کیا کہنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ اگر اولاد گناہ کرتی ہے تو ذمے دار والدین ہوں گے۔ میں تو شرم کے مارے ابا کی طرف دیکھنے سے بھی قاصر تھا۔ گھر تک کا سفر خاموشی سے ہی ہوا۔

مگر سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ یہ تمام تر مرد جو آج یہ تعلیم لے کر گھر جارہے ہیں۔ اگر ان کی کوئی بہن، بیٹی کسی کالج میں داخلہ کروانے کا مطالبہ کرے گی تو اس کے ساتھ کس قسم کا سلوک ہوگا۔ اسے کیا کچھ کہا جائے گا اور کیسے روکا جائے گا۔

قابل اطمینان بات یہ تھی کہ ایسی منفی سوچ کو فروغ دینے والوں کی تعداد قلیل تھی اور یہ رویہ بہت دھیرے سے ہمارے معاشرے میں تباہی پھیلا رہا تھا کہ کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے پروفیسر پر ہراساں کرنے کا الزام لگادیا۔ یہاں تک تو صورتحال قابل فہم تھی۔ مگر اس سارے مسئلے کو ایک نیوز چینل نے خاص طرح سے ہوا دی۔ بہت سی خواتین نے اس کے بعد الزام عائد کیے اور مخصوص ماحول بنا دیا گیا۔
سوچ رہا ہوں مولوی صاحب کی تقریر سننے والوں کی تعداد کم تھی۔ چند ہی لوگوں پر ان کی تقریر کا اثر ہوا ہوگا۔ مگر ٹی وی!

ٹی وی جس پر دو روز سے یہی نشر ہوتا رہا کہ درسگاہوں میں خواتین کو حراساں کیا جا رہا ہے۔ امتحان میں پاس کرنے کے لئے پروفیسر لڑکیوں سے سیکس کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایسے میں کون سا والد، کونسا بھائی اور کونسا شوہر اپنے گھر کی خواتین کو تعلیم کے حصول کے لئے گھر سے باہر بھیجے گا؟ ایسے میں تو اگر کوئی خاتون کسی امتحان میں امتیازی اعداد سے کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ حراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام نہیں ہونی چاہیے۔ ضرور ہونی چاہیے۔ سزا بھی ملنی چاہیے۔ مگر اس کی آڑ میں جو پیغام دیا جارہا ہے اسے ضرور روکنا چاہیے۔
وہ دن دور نہیں جب ہمارے معاشرے میں پکنے والا لاوا پھٹے گا اور اس آتش فشاں کی زد میں نہ جانے کتنے گھر آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).