نوروز کا تہوار کیا ہے؟


تہوار سنسکرت زبان کے لفظ” تیوہارـ” سے نکلا ہے جس کے معنی ایسی تقریب کے ہیں جو اجتماعی طور پر مقررہ تاریخ میں غم یا خوشی کے طور پر منائی جائے۔ تہوار کسی بھی معاشرے کی ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں، ہر ملک میں موسم کے تغیر و تبدل اور ماہ و سال کے آٖغاز و اختتام پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو مختلف انداز میں منایا جاتا ہے۔ معاشرتی ہم آہنگی کو استوار رکھنے میں مدد دینے والے یہ تہوار بعض خطوں کی منفرد پہچان بنتے جا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر تہوار کسی بھی ملک و قوم کی ثقافتی و مذہبی وحدت اور قومی تشخص کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے تہوار جوش و خروش سے مناتی ہیں کیوں یہ تہوار انہیں دوسروں قوموں سے منفرد اور جداگانہ حثیت عطا کرتے ہیں۔

لگ بھگ ہر مذہبی تہوار میں ثقافتی تہوار والی تمام تر خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اینتھروپولوجی کے نزدیک تو مذہبی اور ثقافتی تہوار دراصل ایک ہی چیز ہیں۔ بلکہ مذہبی تہوار قدرے زیادہ بڑا ثقافتی تہوار ہوتا ہے کہ اس پر عمل کرنے والوں میں مذہبی مقاصد کے حصول کے طلبگاروں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ اسلام نے تو فقط یہ کیا کہ اچھی باتیں رہنے دیں اور بری رسمیں ختم کردیں۔ اسی طرح باقی علاقوں کی اچھی باتیں بھی باقی رکھیں، اور جو بری تھیں وہ ختم کردیں۔ اسی کو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا جاتا رہا ہے۔ معروف عمل کون سا عمل ہے؟ ’’وہ عمل جو آپ کے لوگ خوش دلی سے قبول کرتے ہوں‘‘۔ معروف کے لفظی معنی ہی یہی ہیں ’’جو جانا پہچانا ہو‘‘۔ ہم جہیز کو خوشدلی سے قبول نہیں کرتے چنانچہ یہ رسم جس بھی قوم سے مسلمانوں میں داخل ہوئی ہوگی، بری ہی کہلائے گی۔ اسلام نے جب یہ کِیا کہ جن علاقوں تک پھیل گیا، وہاں کی اچھی رسمیں اور ثقافتی تہواروں کو بھی باقی رہنے دیا اور جو بری رسمیں تھیں انھیں ختم کیا تو ایک مشترکہ اسلامی تہذیب قائم ہو گئی۔

نوروز کے معنی نیا دن جو کہ شمسی سال کا پہلا دن بھی ہے اور عیسوی حساب سے 21 مارچ کو اس خطے کے ممالک خاص طور پر فارسی زبان بولنے والے افراد یہ دن جش کے طور پر مناتے ہیں۔ حقیقت میں یہ دن اہل مشرق کے لیے بہار کی آمد پر مسرت اور شادمانی کا اظہار ہے۔ ہزاروں برسوں سے جاری یہ جشن اور تہوار موسم سرما کے خاتمہ اور بہار کے موسم کی نوید لے کر آتا ہے۔

جیسے بہار کی آمد پر ہندوستان اور پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں بسنت کا تہوار روایتی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے لوگ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اور اسکو ایک جشن یا تہوار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح مسیحی حضرت عیسی (ع ) کی پیدائش کے دن کو سال کا آغاز قرار دیتے ہیں، مسلمان ہجرت پیامبر اسلام ﷺ کو آغاز اسلامی سال قرار دیتے ہیں اور ایرانی شمسی نظام یعنی زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے کو سال آغاز شمار کرتے ہیں، ایرانی اس آغاز کو ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیں اور یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ فارسی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں جیسے تاجیکستان، افغانستان،آذربائیجان، اور ہندوستان اور پاکستان کے بعض لوگ اس کو جشن یا تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ اس جشن کا وجود حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے ملتا ہے۔ نوروز کی علامتیں آگ ، روشنی اور سورج ہیں۔ ان مظاہر قدرت کی عبادت اس خطہ ارض میں ”جس میں ایران، آذربائیجان اور موجودہ عراق و شام کے چند علاقے شامل ہیں تین ہزار سال قبل مسیح بھی کی جاتی تھی۔ مشہور ایرانی بادشاہ زرتشت کے دور میں نوروز کو خصوصی مقام حاصل ہوا۔ زرتشت کے دور میں نوروز چار قدرتی عناصر پانی ، مٹی ، آگ اور ہوا کا مظہر اور علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس عقیدے اور حکومتی دلچسپی نے نوروز کو بہت رنگا رنگ اور پُر وقار بنا دیا۔ مغربی چین سے ترکی تک کروڑوں لوگ نوروز منا تے ہیں جو شمسی سال کے آغاز اور بہار کی آمد کا جشن بھی ہے اور ایران، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، اور شمالی عراق کے علاوہ کے کچھ علاقوں میں کیلنڈر سال کا نقطہ آغاز بھی ہے۔

 پاکستان کے بھی کچھ علاقوں میں نوروز کا جشن مذہبی اور روایتی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ وسطی ایشیا میں نوروز منانے کا رواج سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ہی شروع ہوا لیکن اب لوگ اس کے نہ صرف عادی ہو گئے ہیں بلکہ آذربائیجان میں تو رسومات کئی ہفتے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔

 نوروز قدیم ایرانیوں کی عید ہے جو بہار کی آمد پر منائی جاتی ہے، سال کے نئے ہو جانے، موسم گرما کی آمد، سرما کا اختتام او اور خواب و غفلت سے انسان کے بیدار ہوجانے اور معاشرتی حیات کی طرف لوٹ کر آنے کی علامت ہے۔ نوروز، تبدیلی اور تحول و تغیرکی علامت ہے اور موسم بہار کا آغاز ہے۔ اس موسم میں بے جان فطرت میں نئی جان پڑتی ہے اور قدیم ایران کے رہنے والے بھی گھروں کی صفائی اور گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء کی دھلائی کرکے نیا لباس زیب تن کرتے ہیں اور اس فطری تبدیلی کا خیرمقدم کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ بے شک یہ تبدیل اچھائی اور بہتری کی طرف قدم ہے۔ یہ سب اچھائی اور نیکی اور نیک پسندی اور خیر و خیر پسندی اس وقت انتہائے خیر پر عروج کرگئی جب قدیم ایران کی ثقافت اسلام کے سعادت آفرین معارف و تعلیمات سے بہرہ مند ہوئی اور اسلام نے حقیقت پسند آنکھوں کو طبیعت و فطرت کی تبدیلی و تغیر سے باطنی انقلاب و اصلاح کی جانب متوجہ کردیا۔

قدیم زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور نوروز ہر سال کے دوران آنے والا وہ مقام یا وقت ہے جب سورج برج دلو کو چھوڑ کر برج حمل میں داخل ہوتا ہے اور اس لیے اس مقام یا مرحلے کو موسم بہار کا مقام اعتدال بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں نوروز سخت موسم سرما کے بعد موسم بہار کی نوید ہے۔ آج کل ہم نیا سال سورج کے گرد زمین کا ایک چکر مکمل ہونے پر مناتے ہیں۔ ماہر فلکیات کے لیے اب نوروز کے بالکل صحیح وقت کا تعین کرنا بھی ممکن ہوگیا ہے لوگ جشن کے اس وقت پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے اور زور شور سے گاتے بجاتے ہیں۔ حکومتی دفاتر پانچ دن کے لیے بند رہتے ہیں اور لوگ دو ہفتے تک خاندان کے افراد اور دوستوں کے ساتھ تفریح کرتے ہیں اور دعوتیں اڑاتے ہیں۔

ایران جہاں اس تہوار کا آغاز ہوا وہاں اس وقت بھی تمام مذاہب مل کر نوروز کو قومی تہوار کے طور پر مناتے ہیں، ایران کے علاوہ دوسرے ملکوں جیسے افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجیکستان، ازبکستان، آذربائیجان میں بھی تمام مذاہب مل جل کر جشن نوروز کو روایتی طور پر مناتے ہیں اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں بالکل اس تہوار کو نہیں منایا جاتا جبکہ تمام مکاتب فکر وہاں زندگی گزارتے ہیں جیسے بحرین ، کویت ، لبنان اور عراق وغیرہ۔ کمیونسٹ روس نے اقلیتوں اور مفتوح قوموں کو روسی بنانے کے لئے مقامی مذہبی اور ثقافتی تہواروں پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر مقامی لوگوں کو سخت اور کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان تمام سختیوں اور پابندیوں کے باوجود نوروز کی اہمیت اور مقام لوگوں کے دلوں میں موجود رہا اور لوگ اس کو ہر صورت میں مناتے رہے۔ ہر خاندان انفرادی طور پر اس ہزاروں سال قدیم روایت و رواج کو مناتا رہا۔ 1991ء میں آذربائیجان کے آزادی حاصل کرتے ہی نوروز کی رونقیں بحال ہو گئیں اور اس دن کو قومی تعطیل قرار دیا گیا۔ آذربائیجان کے قومی ہیرو حیدر علی یو اس تہوار کو بہت اہمیت دیتے تھے اور نوروز کے تمام پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ یہ روایت آذربائیجان کی موجودہ قیادت نے بھی قائم رکھی ہوئی ہے۔

نوروز کا ایک اور دلچسپ رواج آگ پر سے کودنا ہے۔ آج کل یہ رواج کچھ زیادہ عام نہیں، زیادہ تر خاندان صرف موم بتیاں جلا لیتے ہیں یا لکڑی کی کچھ شاخوں کی مدد سےایک چھوٹا سا الاؤ جلا لیاجاتا ہے۔ یہ رواج قدیم فارس کی یادگار کے طور پر اب بھی رائج ہے۔ یہ ایران اور وسطی ایشیاء کے ممالک کا قدیم ترین روائتی تہوار ہے۔ جس کا آغاز عہد زرتشت سے ہوا۔ یہ جشن ایرانی شمسی سال کی آخری بدھ کی رات کو منایا جاتاہے۔ نوروز بہار کی آمد کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جب زرعی سرگرمیاں زوروں پر ہوتی ہیں ۔ فطرت کا نیا دور شروع ہوتا ہے اور گرمیوں کا آغازہوتا ہے۔ یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے متعلق بہت سی روایات اور رواج وابستہ ہیں۔ اصل دن سے قریباً ایک ماہ قبل تقریبات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ چار ہفتے دراصل چہار شنبے ہیں۔ ہر بدھ یا چہار شنبہ فطرت کے چار عناصر سے منسوب ہیں۔ ان کے نام مختلف جگہوں پر مختلف ہیں۔ ان چار بدھ یا چہار شنبوں کے بارے میں آذربائیجان کے علاقے شیروان میں دلچسپ کہانی مشہور ہے۔ چار چہار شنبوں میں سے پہلا ہوا کے لئے مخصوص ہے، دوسرا پانی ، تیسرا زمین اور چوتھا درختوں اور پودوں کے احیاء کے لئے مخصوص ہے۔ ان چار مخصوص چہار شنبوں میں سے آخری یعنی ہوا کا چہار شنبہ سب سے اہم ہے کیونکہ اس دن سب سے اہم تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ تقریبات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوتی ہیں۔ یہ رسومات انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد گزشتہ سال کے مصائب اور تکالیف سے چھٹکارا پانا اور نئے سال کے ایسے مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔

آذربائیجان میں جشنِ نوروز کے سلسلے میں لوگ گھروں، چھتوں، گلیوں اور مکانوں کے شیڈز پر چھوٹی چھوٹی آگ جلاتے ہیں۔ آخری بدھ یعنی چہار شبنے کے دن آگ کے اوپر سے چھلانگ کا لگانا ہوتا ہے۔ اس کے لئے عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ یہ نوروزکی تقریبات کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ سوسائٹی کے تمام افراد اس میں حصہ لیتے ہیں۔ جمپ لگانے کے لئے ضروری ہے کہ یا تو آدمی ایک ہی آگ کے او پر سے سات دفعہ گزرنے اور یا پھر آگ کی سات جگہوں کو پھلانگے۔ پرانے قدیم دور میں آگ کسی چھوٹے لڑکے سے لگوائی جاتی تھی اور ایسی آگ کو صحیح اور پاک سمجھا جاتا تھا۔ چھٹیوں کے دنوں میں گھریلو صفائی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور کھانے بنائے جاتے ہیں۔

ان کھانوں کی بھی اپنی روایات ہیں۔ ایران میں قدیم زمانے سے نوروز کے تیرہویں دن کو یوم فطرت کا نام دیا گیا ہے اور ایرانی عوام ہر سال دو اپریل کو یوم فطرت مناتے چلے آرہے ہیں۔ اس روایت کے تحت ایرانی عوام اپنے گھروالوں اور بال بچوں کے ساتھ صبح سے شام تک سرسبز و شاداب وادیوں پارکوں اور قدرتی مناظر کے درمیان رہتے ہیں۔ اس موقع پر تہران سمیت ایران بھر کے پارکوں، تفریحی مقامات اور قدرتی وادیوں میں لوگ اپنے اپنے بال بچوں اور گھر بھر کے افراد کے ساتھ پکنک منا رہے ہیں۔ بچے اور نوجوان پارکوں اور باغات میں کھلتے کودتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ بڑے بوڑھے حضرات قالین اور دریاں بچھائے ماضی کے قصے ایک دوسرے سے بیان کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ اس موقع پر لوگ طرح طرح کے کھانے تیار کرتے ہیں اور پارکوں ، باغات اور قدرتی وادیوں کے درمیان دسترخوان بچھا کر ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ روایات کے متعلق پہلا دن موسم بہار کی علامت ہوتا ہے۔ دوسرا گرمی، تیسرا خزاں اور چوتھا سردی کے موسم کی نشاندہی کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).