72 حوروں کے بارے میں علما کے خود ساختہ تصورات اور سچائی


اسلام وہ مذہب ہے جو انسانی حقوق کی بات سب سے مؤثر انداز سے بیان کرتا ہے لیکن علما کے خود ساختہ ترجیحی نظریات نے انسانی حقوق کی اہمیت کو عام انسان کی نظر سے اوجھل کر دیا ہے۔ ان میں چند بہت اہم نظریات وہ ہیں جو ایک ایسی تخیلاتی دنیا پیش کرتے ہیں جو اسے اس دنیا میں اپنے فرائض سے غافل کر دیتے ہیں۔ اسلام امن کا دین ہے جو دنیا میں ہر انسان کے لیے امن کا ضامن ہے۔ قرآن واضح کہتا ہے” لا اکرہ فی الدین” دین میں زبردستی نہیں ہے۔ قرآن کے احکامات واضح ہیں لیکن چند علما نے اپنے ایسے نظریات کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے انتہا پسندی بڑھی ہے۔ اور عدم برداشت کے کلچر نے فروغ پایا ہے۔ حال ہی میں مغربی لندن میں ٹرین میں دھماکہ کرنے کی کوشش کرنے والےاحمد حسن کو جسٹس مسٹر ہڈن کیوو نے 34 سال قید کی سزا سناتے ہوئے کہا،

”آخر میں احمد حسن میں کہوں گا کہ آنے والے برسوں میں آپ کے پاس جیل میں کافی وقت ہو گا کہ آپ قرآن کا مطالعہ کریں۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ قرآن پاک امن کی کتاب ہے اور اسلام امن کا مذہب ہے۔ اسلام انتہا پسندی سے منع کرتا ہے خواہ وہ دین میں ہی کیوں نہ ہو۔

اسلام زمینی قوانین کو توڑنے سے منع کرتا ہے۔ اسلام دہشت گردی (حرابہ) سے منع کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں فساد فی الارض انتہائی نوعیت کا جرم قرار دیا گیا ہے۔

یہ برطانیہ کا قانون ہے اور اس کے تحت آپ کو انتہائی سخت سزا دی جاتی ہے۔ آپ نے اپنے عمل سے نہ صرف قرآن و سنت کے قانون کو توڑا ہے بلکہ اس سرزمین کے قانون کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ آپ یہ بات ایک دن سمجھ جائیں گے۔ ”

یہاں ایک بات واضح ہے کہ اسلام کے امن کا مذہب ہونے کے غیر مسلم بھی معترف ہیں۔ لیکن چند علما نے قرآن کے اصل احکامات سے ہٹ کر ایسے تصورات کو پروان چڑھایا ہے جس سے کچے ذہنوں میں یہ بات پروان چڑھی کہ اسلام کسی دوسرے مذہب کو جگہ نہیں دیتا اور ساتھ ہی وہ اپنے سے مختلف نظریات کے لوگوں کو قتل کر کے جنت حاصل کر سکتے ہیں جہاں انہیں ہر جسمانی و روحانی خوشی حاصل ہوگی۔ یہاں دو تصورات ایک دوسرے سے منسوب ہیں ایک تو قتال اور دوسرا تصور حور۔

  • بہتر حوروں کے بارے میں سچائی یہ ہے کہ قرآن تعداد نہیں بیان کرتا۔ (اس سے بہت سے علما کی دکان بند ہوتی نظر آتی ہے۔) بہتر کے ہندسے کا تذکرہ قرآن میں کہیں نہیں ملتا لیکن علما اسے استعمال کر کے لوگوں کو اکساتے ہیں کہ وہ یہ انعام حاصل کرنے کے لیے زمین پر فساد پھیلائیں۔
  • ”قتال فی سبیل اللہ” اس انداز میں کافروں کو قتل کرنے کے لیے نہیں کہا گیا جیسا اس کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ (ملاوں کا ایک اور خود ساختہ تصور جو دکانداری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔) قرآن میں صرف مذہب کی بنیاد پہ کسی کے قتل کا نہیں کہا گیا۔ بلکہ اسلام کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اس میں کسی بھی قسم کی تخصیص نہیں رکھی گئی ہے۔

لیزلے ھیزلٹن حضرت محمدؐ کی داستان حیات لکھنے کی تیاری میں تھی۔ اسی وجہ سے اسے محسوس ہوا کہ اسے قرآن کو جتنا ہو سکے مکمل اچھی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ اس کے لیے اسے اپنی بھر پور کوشش کرنا چاہیے،اس مقصد کے لیے اس نے قرآن کے چار مشہور تراجم لیے اور ان کا مطالعہ ایک ایک آیت کا نہ صرف ترجمے کا بلکہ ساتویں صدی کے اصل عربی متن کے ساتھ کیا۔

جب وہ قرآن کا مطالعہ کرنے لگی تو اس نے اس بات کو جانا کہ ایک غیر مسلم اور اسلام کی مقدس کتاب کے خود شناس ”سیاح” کے طور پہ وہ جو توقع کر رہی تھی یہ ویسا نہیں تھا۔

چونکہ وہ اپنی سابقہ کتاب میں سنی شیعہ اختلاف کی کہانی پر کام کر چکی تھی۔ اور اس مقصد کے لیے اس نے اسلام کی ابتدائی لکھی گئی تواریخ کا بغور مطالعہ کیا تھا،اس لیے وہ ان واقعات سے آگاہ تھی جن کا حوالہ قرآن باربار دیتا ہے،اور ان حوالہ جات کا مخصوص پس منظر بھی جانتی تھی۔ اس نے اس پراجیکٹ کے لیے تین ہفتے مقرر کیے تھے لیکن یہ تین ہفتے تین مہینوں میں بدل گئے۔

بہتر حوروں کے متعلق سچائی:

اسے پتہ چلا کہ بہتر کی تعداد کہیں ظاہر نہیں ہوئی۔ نہ تو قرآن میں کہیں بہتر حوروں کا ذکر تھا نہ ہی ان کے پرکشش سینے کا:

“خدا لطیف ہے۔ “یہ جملہ بار بار دوہرایا گیا ہے،اور قرآن ہماری سوچ سے کہیں زیادہ لطیف ہے۔ مثال کے طور پہ جنت اور حوروں کے معاملے میں۔ یہاں بوسیدہ استشراقیت اپنی ٹانگ اڑاتی ہے۔ وہ لفظ جسے چار مرتبہ استعمال کیا گیا ہے وہ حوریں ہے، جو سیاہ آنکھوں والی، ابھرے سینے والی، حیسن کنواریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم اصل عربی میں ایک لفظ”حوریں” ہے۔ اس کا مطلب خوبصورت سینہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب فرشتوں کی طرح پاکیزہ ہو سکتا ہے۔ یا پھر یہ یونانیوں کے ہرکولیس کا ہم معنی ہو سکتا ہے جس کی جوانی دائمی ہے۔

لیکن سچائی یہ ہے کہ حتمی بات کوئی نہیں جانتا، یہی اصل بات ہے۔ آخرت کی دنیا کے متعلق کوئی بھی حتمی بات نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قرآن واضح کہتا ہے کہ ”جنت میں تمہاری نئی تخلیق ہو گی” اور تم “ایسی صورت میں بنائے جاؤ گے جو تم نہیں جانتے” جو اسے حور کے تصور سے کہیں زیادہ پرکشش محسوس ہوتا ہےکہ انسان کی نئی صورت میں تخلیق کی جائے گی۔ اور بہتر کا ہندسہ کہیں نظر نہیں آتا۔ قرآن میں کہیں بہتر حوروں کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ تصور 300 سال بعد وجود میں آیا، اور اسے اکثر اسلامی علما نے بادلوں میں بیٹھی ساز بجاتی ہوئی مخلوق کے طور پہ پیش کیا۔ جنت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ کنوار پن نہیں بار آوری ہے، فراوانی ہے۔ اس کےباغوں کو بہتی نہروں سے پانی ملتا ہے۔

قتال فی سبیل اللہ (کافروں کو قتل کرنے کی سچائی)۔

کافروں کو قتل کرنے کی قرآنی آیت کی طرف آتے ہیں۔ جی،ایسا کہا گیا ہے لیکن ایک خاص پس منظر میں: مکہ کے مقدس شہر کی متوقع فتح کے لیے جہاں لڑنا منع ہے وہاں یہ اجازت بہت سی شرائط کے ساتھ دی گئی ہے۔ ”تمہیں مکہ میں کفار کو قتل کر دینا چاہیے” تم ایسا تب کر سکتے ہو، تمہیں اجازت ہے ،جب رعایتی مدت ختم ہوجائےاور جب کوئی دوسرا معاہدہ موجود نہ ہو، صرف اس صورت میں جب وہ تمہیں کعبہ میں داخل ہونے سے روکیں، اور صرف اس صورت میں جب وہ تم پہ حملے میں پہل کریں۔ اور تب بھی خدا مہربان ہے؛ معاف کر دینا بہترین بات ہے۔۔۔ اس لیے لازما یہی بہتر ہے کہ تم ایسا مت کرو۔ اس کے لیے یہ شاید سب سے بڑی حیران کن بات تھی۔۔ قرآن میں کتنی لچک ہے ،ان دماغوں کے علاوہ جو بنیادی طور پہ غیر لچک دار ہیں۔

دیگر معاملات (اس سے بہت سے غیر عقلی باتوں کا خاتمہ ہوتا ہے جو ملاؤں کی خود ساختہ ہیں)۔

جیسا کہ قرآن وعدہ کرتا ہے کہ صبر کا انعام ضرور ملے گا،یہاں بہت سی حیران کن باتیں ہیں۔۔ ایک سماجی درجہ ہے، مثال کے طور پہ انسان خدا کی مخلوق کا نگران ہے۔ اس کی بائیبل میں کوئی مثال نہیں ملتی اور جہاں بائیبل خاص طور پر مردوں سے ضمیر متکلم یا ضمیر غائب میں مخاطب ہوتی ہے وہاں قرآن عورتوں کو بھی شامل کرتا ہے، مثلاً مومن مرد اور مومن عورتیں، معزز مرد اور معزز عورتیں۔

جب بہتر کا ذکر نہیں کیا گیا تو اسے تین سو برس کے بعد کیسے گھڑا جا سکتا ہے۔ حوروں کے متعلق تین سو سال کے بعد گھڑے گئے شہوت انگیز حوالوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اہم یہ ہے کہ اخلاقی تربیت پہ توجہ دی جائے۔ اسلام امن کا مذہب ہے یہ سماجی زندگی کو اہمیت دیتا ہے۔ نبی پاک ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں تمام پہلووں پہ بات کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں انسانی حقوق پہ بہت زور دیا گیا ہے۔

جب حضرت محمدﷺ نے عرفات کے میدان میں آخری خطبہ دیا تو وحی نازل ہوئی:

“۔۔ آج کے دن میں نے تم پہ تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پہ اپنی نعمت تمام کر دی، اور اسلام کو تمہارے مذہب کے طور پہ چنا ہے۔۔۔ “

قرآن 5:3

یہیں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ انسانی حقوق اور مساوات اہم ہیں۔ انسانی حقوق پہ زور دیا گیا کہ کسی کالے کو گورے یا کسی گورے کو کالے پہ رنگ ،نسل یا زبان کی بنیاد پہ فوقیت حاصل نہیں ہے۔ یہ وہ مساوات اور رواداری ہے جو اسلام اپنے سماج میں دیکھنا چاہتا ہے۔ آج کے دور میں اس کی ضرورت بہت شدید ہے تاکہ ایک اچھا اور اصلاحی معاشرہ پروان چڑھ سکے۔ اسلام کے پیغام کو درست انداز سے سمجھنے اور پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا عملی نفاذ صحت مند معاشرہ جنم دے سکے۔

لیزلے ھیزلٹن کا اصل خطاب ذیل کے لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).