آئندہ یونیورسٹیوں میں اچھے استاد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے


 خیبر پختونخوا کی موجودہ صوبائی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن، کالجز اور سکولوں کا نظام بہتر بنانے کے لئے جتنی کوششیں کی ہیں۔ اتنا ہی تعلیمی اداروں میں سیاسی اثر رسوخ کا اضافہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس  کا پتہ ہمیں روزانہ اخبارات سے چلتا رہتا ہے ـ  تعلیمی شعبے کی یہ کیسی بہتری ہے کہ ڈاکٹر اور ریسرچر دربردر ہو رہے ہیں ۔

جب اے این پی  حکومت نے ہر ضلع میں یونیورسٹی بنا ڈالی ۔ یہ اچھا کام بھی شائد سیاسی مقصد کے تحت ہی کیا گیا تھا ۔ مقصد یہ تھا کہ ہر ضلع میں یونیورسٹی ہو گی تو طلبا سیاست میں اپنا رسوخ بڑھایا جائے گا ۔ جگہ جگہ یونیورسٹیاں اور ان کے کیمپس بنا دیئے گئے ۔ پہلے سے موجود یونیورسٹی الگ دباؤ کا شکار ہو کر رہ گئیں ۔

مشال خان کے واقعے سے ایک اندازہ ہم نے لگایا ہی نہیں ۔ کیسے سیاسی لوگوں کو ان یونیورسٹیوں میں بھرتی کیا گیا ۔ ان ملازمین کی سیاست میں زیادہ دلچسپی، اپنے اصل کام کو نظرانداز کرنا اور نااہلی ، یہ سب مسائل ہی تو تھے جن پر مشال خان بولا کرتا تھا ۔ اس کا یہ بولنا بھی تو ایک وجہ بنی جس میں وہ اس طرح بے گناہ نشانہ بنا ۔

اے این پی نے جس طرح اپنے لوگ بھرتی کیے تھے وہی کچھ تحریک انصاف نے بھی کیا ۔ ہر ضلع کی یونیورسٹی کا بادشاہ وہاں کا ایم پی اے اور ایم این اے بنا پھر رہا ہے ـ ان لوگوں  نے اپنے چار  ووٹ  بنانے کے لئے نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں تعلیمی ادارے دے رکھے ہیں ۔یہ نااہل لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں جس سے یونیورسٹیاں تباہی کا شکار ہو رہی ہیں ۔

جس کے لیے سیاسی لوگوں تک رسائی آسان ہو اسے یہاں نوکری مل جاتی ہے ۔ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگار پھر رہے ہیں ۔ یہ لوگ  مایوس ہوکر ملک سے باہر نہ بھاگیں تو اور کیا کریں ؟  ایسے ہی ایک ڈاکٹر امیر حمزہ خان بنگش ہیں جنہوں نے 2016میں برطانیہ سے صحافت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ انہیں باہر ہی اچھی نوکری کی آفر ملیں لیکن وہ پشاور یونیورسٹی آ گئے ۔

ڈٓاکٹر بنگش گزشتہ دوسالوں سے بحثیت لیکچرر  پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ میں تعینات ہیں ۔ پشاور یونیورسٹی حال ہی میں تمام شعبوں میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نئی اسامیاں مشتہر کی گئیں ۔ لیکن شعبہ صحافت میں کسی نئی اسامی کا اعلان نہیں کیا گیا ۔  ایک قابل لیکچرر پروموشن سے رہ گیا ۔ یہ پروموشن ان کا حق تھی ۔

یونیورسٹی انتظامیہ سے جب مختلف ڈپارٹمنٹ کے لیے الگ پالیسی بارے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا اختیار ہے کہ ہم اپنی ضرورت اور مرضی مطابق فیصلے کریں ۔ انتظامیہ کا یہ بھی موقف ہے کہ وہ دباؤ میں آ کر فیصلے نہیں کرتی ۔ اپنے معاملات آزادی سے خود چلاتی ہے ۔ یہ کسی ایک یونیورسٹی کا مسئلہ نہیں ہے ۔ تمام کا ہی ایک ایک جیسا حال ہے ۔ پروموشن تعیناتی وغیرہ کی کوئی ایک سٹینڈرڈ پالیسی نہیں رکھی اور چلائی جاتی ۔

اس وقت اکثر یونیورسٹیوں میں انتظامی امور کی بڑی پوزیشنیں خالی پڑی ہیں۔ جن پر وائس چانسلرز صوبائی حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کے وزیر مشتاق غنی کے منظور نظر افراد ایکسٹرا چارج کے ساتھ کام چلا رہے ہیں ۔ اس ایڈیشنل پوسٹنگ کا حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ۔ یہ لوگ الٹا سرکار سے اتنی ہی مراعات لے رہے جتنی کوئی مستقل عہدیدار حاصل کرتا ہے ۔ وی سی کے پاس جن عہدوں کا ایڈیشنل چارج ہے وہ زیادہ مہنگے پڑ رہے کہ قانون کے مطابق وی سی سے اضافی خدمات کا زیادہ معاوضہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔

باہر سے اچھی آفر چھوڑ کر آنے والے لوگوں کا اتنا تو حق ہے کہ انہیں ترقی کرنے کا ایک معیاری نظام فراہم کیا جائے ۔ غیر یقینی مستقبل ہی کی وجہ سے ہر وہ استاد جس کے لیے باہر جانا ممکن ہے ۔ وہ باہر جانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ اگر یہی حالات رہے تو  آئندہ یونیورسٹیوں میں اچھے استاد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).