سیانا گڈریا اور سات احمق دیہاتی


ایک گاؤں میں سات دوست رہتے تھے۔ ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر بدھو تھا اور اس وجہ سے گاؤں میں کوئی ان کو کام نہیں دیتا تھا۔ تنگ آ کر انہوں نے سوچا کہ پردیس جاتے ہیں اور ادھر خوب دولت کما کر آئیں گے۔ ایک سیانے نے ان کو گن کر بتایا کہ تم سات ہو، اور جب بھی شام کو رکو تو گن کر تسلی کر لینا کہ پورے سات ہی ہو اور کوئی پیچھے نہیں رہ گیا۔

سفر شروع ہوا۔ پہلی منزل پر پہنچے تو سب نے سامان کھولا اور آرام کرنے لگے۔ ان کے سردار نے سب ساتھی اپنے سامنے کھڑے کیے اور گنے تو چھے نکلے۔ اسے خیال ہی نہیں رہا تھا کہ خود کو بھی گننا ہے۔ یہ جان کر سب کا پریشانی سے برا حال ہو گیا کہ ایک ساتھی کم ہے۔ باری باری سب نے گنا مگر حاصل جمع وہی چھے نکلا۔ سب رونے پیٹنے لگے کہ راستے میں ہمارا ایک ساتھی گم ہو گیا ہے۔

رونے کی آوازیں سن کر قریب سے گزرتا ہوا ایک گڈریا ان کے پاس رکا اور پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ احمقوں نے جواب دیا کہ جب ہم گھر سے نکلے تھے تو سات تھے، اب گن رہے ہیں تو چھے ہیں، ہمارا ایک ساتھی گم ہو گیا ہے۔ گڈریے کو یقین دلانے کے لئے سردار نے کھڑے کھڑے چھے ساتھی گن دیے۔

گڈریا یہ دیکھ کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ خوب احمق ملے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے کہا کہ میں تمہارا ساتواں ساتھی ڈھونڈ دوں گا، اس کے بدلے میں تم مجھے کیا دو گے؟ ساتوں نے کہا کہ ہم غریب ہیں، کیا دے سکتے ہیں، بس یہ کر سکتے ہیں کہ ایک برس تک تمہاری خدمت کریں۔ گڈریے نے یہ سن کر ان سب کو ایک قطار میں کھڑا کیا اور پورے سات آدمی گن دیے۔ احمقوں کا خوشی سے برا حال ہو گیا کہ ہمارا گمشدہ ساتھی مل گیا ہے، وہ گڈریے کے ساتھ ساتھ اس کے گھر کی طرف چل دیے۔

اگلی صبح گڈریے نے ایک احمق کو کہا ”تم میری بوڑھی ماں کا خیال رکھنا۔ اسے مکھیاں بہت ستاتی ہیں اور چین سے سونے نہیں دیتیں، تم اس پر کوئی مکھی نہ بیٹھنے دینا“۔ دوسرے احمق کو اس نے کہا کہ آج تم میری بکریاں چرانے لے جاؤ۔ میں اپنے دوستوں سے ملنے جاتا ہوں، شام کو تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا“۔ باقی پانچ کو اس نے کہا کہ شام کو واپس آ کر وہ ان کو کام دے گا۔

اب گڈریا تو اپنے دوستوں سے ملنے چل دیا۔ پہلا احمق اس کی ماں کو پنکھا جھلنے لگا مگر مکھیاں تھیں کہ اڑنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ احمق نے سوچا کہ ان کو اڑانے کی بجائے مار ڈالتا ہوں۔ یہ سوچ کر اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور گڈریے کی ماں کے منہ پر دے مارا جس پر بہت سی مکھیاں بیٹھی تھیں۔ بڑھیا وہیں انتقال فرما گئی۔

دوسرا احمق بکریاں لے کر نکلا۔ خود وہ ایک درخت کے نیچے سائے میں بیٹھ گیا اور بکریاں چرنے لگیں۔ دوپہر ہو گئی۔ گڈریے نے اپنا کھانا نکالا اور کھانے لگا۔ اس وقت تک بکریوں کا پیٹ بھر چکا تھا۔ وہ دھوپ سے بچنے کے لئے درخت کے سائے میں احمق کے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور جگالی کرنے لگیں۔ یہ دیکھ کر احمق کا غصے سے برا حال ہو گیا کہ بکریاں اس کی نقل اتارنے کے لئے اس کے گرد جمع ہو گئی ہیں۔ اس نے اپنی کلہاڑی نکالی اور تمام گستاخ بکریوں کو مار ڈالا۔

سہ پہر کو گڈریا وہاں آیا تو دیکھا کہ تمام بکریاں مری پڑی ہیں۔ اس نے احمق سے پوچھا کہ انہیں کس نے مارا، تو احمق نے جواب دیا کہ میں نے مارا، یہ مجھے کھانا کھاتے دیکھ کر میری نقل اتار رہی تھیں۔ گڈریا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ خیر وہ احمق کو کیا کہتا، اداس ہو کر اپنے گھر کی طرف چل دیا۔

گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس کی ماں مری پڑی ہے۔ اس نے مکھیاں اڑانے والے احمق سے پوچھا کہ ”اسے کیا ہوا ہے؟ “۔ احمق نے جواب دیا ”میں نے اس پر بیٹھنے والی تمام مکھیاں پتھر سے مار دی ہیں۔ اس کے بعد سے بڑھیا ہلی تک نہیں۔ لگتا ہے کہ اسے مدت بعد اتنی پرسکون نیند ملی ہے“۔

اب باقی پانچوں احمق بھی آ گئے۔ وہ کہنے لگے کہ ”اب ہمیں بھی کوئی کام دو“۔
گڈریا یہ سن کر ڈر گیا۔ کہنے لگا ”تم نے میری اتنی زیادہ خدمت کر دی ہے کہ اسے میں ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔ بس اب تم آزاد ہو۔ اپنی منزل پر جاؤ اور اپنا کام کرو۔ “

ساتوں احمق خوشی خوشی اپنے راستے پر چل پڑے کہ ہم اتنے سیانے ہیں کہ ایک سال کی خدمت ایک دن میں ہی کر ڈالی۔ گڈریے کو سبق مل گیا کہ احمق دوست سے سیانا دشمن بہتر ہوتا ہے۔
تو صاحبو، قصہ یہ ہے کہ دوسروں کو بے وقوف بنانے کے چکر میں رہنے والے کئی مرتبہ اپنا بڑا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو ہمارے سیاست دانوں سے پوچھ لیں۔
ایک قدیم دیسی حکایت۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar