’امریکہ بتائے کہ کن پرزوں کی پاکستان درآمد پر اعتراض ہے‘


فائل فوٹو

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے ان کمپنیوں کے حوالے سے حکومت پاکستان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا جن پر ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے پرزے پاکستان درآمد کرنے کے خدشات کے باعث پابندی عائد کی گئی ہے۔

دفتر خارجہ سے تعلق رکھنے والے بعض سینیئر حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حکومت امریکی حکام کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ امریکہ کو کن پرزوں کی پاکستان درآمد پر اعتراض ہے۔

’جوہری آلات کی تجارت‘ سات پاکستانی کمپنیوں پر پابندی عائد

ان حکام کا کہنا تھا کہ معاملے کی حساس نوعیت کے باعث حکومت پاکستان اس معاملے پر باضابطہ تفصیلی رد عمل تیار کر رہی ہے اس لیے وہ اس بارے میں اس وقت اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ ان حکام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ کمپنیاں ایسے پرزے درآمد کرتی رہی ہیں جن کا استعمال ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کا اصل مقصد تعلیم و تحقیق ہے۔

دفتر خارجہ کے ان حکام کے مطابق جن کمپنیوں پر الزام عائد کیا گیا ہے وہ امریکہ کے ساتھ نجی طور پر کاروبار کرتی تھیں جس کا حکومت پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

’اس کے باوجود اگر ہمیں تفصیل دی جائے کہ کون سے پرزے امریکہ سے پاکستان لائے گئے ہیں تو ہم اپنے طور پر تفتیش کر سکتے ہیں کہ یہ کس استعمال کے لیے پاکستان لائے گئے۔‘

ان حکام کے مطابق ایسے پرزوں کے معاملے میں جن کا ہتھیاروں اور تحقیق دونوں طرح کا استمعال ممکن ہے، درآمد کنندہ کمپنیاں اور حکومت بھی ان کے پر امن استعمال کی ضمانت دیتی ہے۔ ’ہم اس بارے میں ہر طرح کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں ان پرزوں کے بارے میں کچھ معلومات دستیاب کی جائیں۔‘

پاکستانی حکام نے کہا کہ بنیادی طور پر تو یہ برآمد کنندہ ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ اس کے ملک سے باہر جانے والا مواد پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہو گا۔

اس پاکستانی افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت بار یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کا نام استعمال کر کے افغاستان کی کمپنیاں بیرون ملک سے اس طرح کا سامان منگواتی ہیں۔

اس سوال پر کہ پاکستانی کمپنیوں پر امریکی پابندی کے باعث پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت پر کوئی اثر پڑے گا، تو ان حکام کا کہنا تھا کہ اس امریکی اقدام کا مقصد اس سارے معاملے میں بھارت کے موقف کی حمایت کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp