پاناما پیپرز: اصل معاملہ اور مجوزہ لائحہ عمل


 \"zeeshanپانامہ پیپرز نے اس وقت پوری دنیا میں ہل چل مچائی ہوئی ہے، اب تک تین سربراہان مملکت اپنی اپوزیشن کے شدید ترین دباؤ پر (نہ کہ کسی عدالتی تحقیقات کے نتیجے میں) مستعفی ہو چکے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کو پارلیمان میں شدید ترین تنقید کا سامنا ہے باوجود اس کے کہ ان کا کوئی آف شور اکاؤنٹ نہیں تھا مگر انہیں جو وراثت میں دولت ملی اس میں ایک ان کے والد کی آف شور کمپنی بھی تھی جسے وہ کافی عرصہ پہلے فروخت کر چکے تھے۔ پانامہ پیپرز کی تمام دستاویزات ہنوز سامنے نہیں آئیں مگر میڈیا کی اس رپورٹ کو عالمی حلقوں میں کافی سنجیدہ لیا جا رہا ہے-

 

اس سلسلے میں دو انکشافات کافی اہم ہیں۔ ایک یہ کہ جن لوگوں کے نام آئے ہیں ان کی اکثریت کا تعلق ترقی پزیر دنیا کی سیاست، بیوروکریسی اور فوج (افریقہ و لاطینی امریکہ) سے ہے۔ کاروباری دنیا کی کمپنیوں یا افراد کے نام بہت ہی کم ہیں۔ یوں پولیٹیکل اکانومی کا سب سے بڑا سوال دوبارہ سے مغربی تعلیمی اداروں اور تھنک ٹینکس میں زیر بحث ہے کہ وہ دولت جو بیرونی قرضوں، معاشی امداد، اور ٹیکسوں کی شکل میں یرقی پزیر ممالک کی حکومتیں وصول کر رہی ہیں وہ حقیقتاً کہاں خرچ ہو رہی ہے؟ یوں یہ نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ غریب معاشروں کی غربت کا سبب اپنی بنیاد میں معاشی کم اور سیاسی و انتظامی زیادہ ہے۔

\"image02\"دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جن لوگوں پر یہ الزام لگایا ہے ان کی اکثریت پہلے ہی عوامی و میڈیا کے حلقوں میں بدنام تھی۔ مثال کے طور پر چینی صدر کے برادر نسبتی جن کا نام ان پیپرز میں آیا ہے ان پر پہلے ہی چینی صدر کے لئے کرپشن کا الزام ہے، کہانی میں مزید دلچسپ صورتحال یہ بھی سامنے آنے والی ہے کہ چینی حکومت پانامہ پیپرز کے کرتا دھرتا اداروں کو معقول جواب دینے کے لیے کام کر رہی ہے اور ممکن ہے کہ کوئی قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے کہ جن لوگوں یا اداروں بشمول دی گارڈین نے جو الزامات لگائے ہیں وہ عدالت میں آئیں اور ثابت کریں- روسی صدر کے جس دست راست کا نام آ رہا ہے اسے ویسے ہی صدر پوٹن کا پرائیویٹ کیشئر سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی پانامہ پیپرز پر میڈیا اور تحریک انصاف کی طرف سے کافی شور مچایا جا رہا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ہو رہی ہے اور ستم یہ بھی ہے کہ سب سے بڑا اور واحد نشانہ نواز شریف ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اسے سیاسی ایجنڈا بنا دیا گیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ قومی سطح پر اس پر مکالمہ ہوتا، اگر کوئی مجرم ہے تو سزا دی جاتی اور آئندہ ایسے کاموں کی روک تھام کے لئے قانونی سازی کی جاتی اور انتظامی مسائل حل کئے جاتے۔

\"images\"تحریک انصاف کے گزشتہ احتجاج میں بھی یہی بڑی غلطی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ الیکشن میں بدانتظامی ہوئی تھی، کرنے کا اصل اور دیرپا اثر کا حامل کام یہ تھا کہ انتخابات کے انتظام میں معقول اصلاحات کی جاتیں، مگر نشانہ صرف نواز شریف کو بنایا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ نہ اصلاحات کا کوئی معقول اور دیرپا حل سامنے آیا اور نہ نواز شریف نے استعفی دیا۔ اب کی بار بھی ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کا نام پانامہ پیپرز میں آیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ متعلقہ ذرائع سے اصل دستاویزات مانگی جائیں، ان کی بنیاد پر تحقیقات ہوں کہ آیا جس دولت کا انکشاف کیا جا رہا ہے وہ قانونی ذرائع سے کمائی گئی ہے؟ اس پر ٹیکس دیا گیا ہے؟ اور کیا وہ دولت جائز ذرائع سے ان اکاونٹس میں منتقل کی گئی ہے؟ اگر ہاں تو جائیداد کا حق سب کو حاصل ہے کہ کوئی جہاں رکھے اس کی مرضی، اور اگر نہیں تو پھر تمام مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ مگر لگ یہی رہا ہے کہ تحریک انصاف اور میڈیا نے صرف نواز شریف کی طرف اپنے توپوں کا رخ کر رکھا ہے۔ اب ہو گا یہ کہ نہ نواز شریف استعفی دے گا اور نہ ہی یہ بیل منڈھی چڑھے گی۔

دیکھئے ایک لبرل معاشرے میں میڈیا کے کردار سے انکار نہیں مگر محض میڈیا کے کسی سکینڈل کی بنیاد پر حکومتیں گرانا کسی اچھی روایت کا ہرگز آغاز نہیں، پھر تو جمہوری روایات پر میڈیا رپورٹس کی برتری قائم ہو جائے گی،اس میڈیا کی جسے پاکستان میں اسٹبلشمنٹ کا گماشتہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے سیاسی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ ان حملوں کا ہرگز سامنا نہیں کر پائیں گے۔اگر آپ اس پورے منظرنامہ میں کسی ایک ادارے یا شخص کو نشانہ بنائیں گے اور میڈیا کی کسی رپورٹ کو خدا کا سوموٹو ایکشن سمجھیں گے تو آپ کی نیت اور مقاصد پر یقینا شک کیا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے انتہائی سنجیدہ لیا جائے اس سلسلے میں مؤثر قانون سازی کی جائے اور انتظامی مسائل کو دور کیا جائے۔ ذیل میں کچھ تجاویز دی گئی ہیں جو ترقی یافتہ لبرل معاشروں میں رائج ہیں، تاکہ مکالمہ کا آغاز ہو۔

1. سیاست کو معیشت سے حتی الامکان دور رکھا جائے۔ جتنا ریاست معیشت میں مداخلت کرے گی سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی کرپشن کا راستہ کھلے گا۔

  1.  تمام سیاستدانوں، بیوروکریسی، افواج پاکستان کے اعلیٰ افسران، معزز عدلیہ کے جج صاحبان، اور میڈیا ہاؤسز (بشمول بادشاہ گر ٹی وی اینکر صاحبان ) سمیت تمام فریقین کے اثاثے عوام کے سامنے ظاہر ہوں۔ اگر دوران اقتدار و اختیار ان اثاثوں میں اوسط شرح سے زائد کا اضافہ ہو تو لازم ہے کہ آمدن کے ذرائع تحقیقات میں لائے جائیں … اور وہ لوگ جو اپنے اثاثے چھپائیں ان کی نہ صرف جائیداد بحق ریاست ضبط کر لی جائے بلکہ تاعمر سیاسی و انتظامی میدان میں نااہل قرار پائیں۔

3. لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اثاثے اور فنڈز کے ذرائع عوام کے سامنے ظاہر کریں اور ان کا سالانہ آڈٹ ہو۔

4. فوجی اور سول انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے سیکرٹ فنڈز کے استعمال کو اوپن کریں۔ اگر وقتی طور پر عوام کے سامنے یہ حقائق نہیں لائے جا سکتے تو معلومات کے حق کی بنیاد پر ان دستاویزات کو ہر دس یا پندرہ سال کے بعد عوام کے سامنے ظاہر کیا جائے۔ ان پندرہ برس کے درمیان یہ ایجنسیاں اپنے سیکرٹ فنڈ کے استعمال میں متعلقہ پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔

5. قومی اسمبلی میں مالیاتی امور سے متعلق ہر قانون سازی کا cost & benefit analysis (نفع و نقصان کا تخمینہ) سامنے لایا جائے۔پارلیمنٹ لاجز سمیت جی ایچ کیو، سپریم و ہائی کورٹ، اور تمام متعلقہ وزارتوں کے سیکٹریٹ کی لائبریریاں ہر شہری کے دسترس میں ہوں اور اس میں ہر پبلک انفارمیشن مہیا کی جائے۔ تعلیمی اداروں کے طلباء، صحافی اور دانشور محققین اپنی تحقیقات کے سلسلے میں متعلقہ اداروں سے اعدادوشمار حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

6. آڈیٹر جنرل کی مکمل رپورٹ مع ضمیمہ جات کے پبلک کی جائے۔

7. انٹی ٹرسٹ لاء 2010 میں نافذ کیا گیا مگر اس کے دائرہ کار اور طریقہ کار میں ہنوز خامیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا لازمی ہے، اور تمام انتظامی مسائل فی الفور حل کئے جانے چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے بغیر نہ معیشت صحت مندانہ سرگرمیاں سرانجام دے سکتی ہے اور نہ ہی سیاست کرپشن سے پاک ہو سکتی ہے۔

یہ محض چند نکات ہیں جو پولیٹیکل اکانومی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتے۔ یقینا سیاست کا معیشت میں اور معیشت کا سیاست میں اثرورسوخ روکنا ہمارے جیسے معاشرہ میں انتہائی مشکل کام ہے، مگر یہ کام پولیٹیکل اکانومی کی پیچیدہ اور سنجیدہ سائنس کی مدد کے بغیر سرانجام دینا ممکن نہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی چھاتہ بردار اترے یا اتریں اور ہمارے تمام مسائل کو حل کر دے تو ایسا منظر دنیا نے ابھی تک نہیں دیکھا-اس تحریر کا مقصد شافی و کافی نسخہ پیش کرنا نہیں بلکہ دانشورانہ مکالمہ کو الزام تراشی اور تکے بازی سے نکال کر پولیٹیکل اکانومی کی ایک سنجیدہ سائنس کی طرف متوجہ کروانا ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments