نواز شریف کے اچانک نظریاتی ہونے پر اعتراض کیوں؟


مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ لوگوں کو میاں نواز شریف کے اچانک نظریاتی ہونے پر اعتراض کیا ہے؟
جب یہاں لوگ بیٹھے بٹھائے ارب پتی ہو سکتے ہیں۔ کسی جھوٹی سچی ڈگری کی بدولت جاہل سے عالم ہو سکتے ہیں۔
ایک عام رکن اسمبلی سے ملک کے سب سے بڑے پارلیمانی ادارے کے سر براہ ہو سکتے ہیں۔
ایک معمولی وزیر سے راتوں رات لمبی چوڑی ہاوسنگ سو سائیٹیز کے مالک ہو سکتے ہیں۔
مڈل کلاس بیو رو کریٹ سے اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے خادم ِ اعلی ٰ کی ناک کا بال ہو سکتے ہیں
چور، ڈاکو بھتے خور سے نیک نام ہو سکتے ہیں۔
تو پھر نواز شریف نظریاتی کیوں نہیں ہو سکتے؟

نظریہ کیا کسی کے باپ کی جاگیر ہے؟ کیا اس کے کاپی رائٹس پر نیلسن منڈیلا، ماؤ، چی گویرا، گاندھی، قائد اعظم محمد علی جناح نہرو، خان لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے مرحومین کا قبضہ ہے؟
کیا یہ نظریہ بیچا اور خر یدا نہیں جا سکتا؟
ناپا اور تولا نہیں جا سکتا؟

اس دنیا کی منڈی میں ایسا کیا ہے جو خریدا نہ جا سکے۔ بیچا نہ جا سکے؟
یہاں تو حب الوطنی سے لے کر ضمیر فروشی تک سارے کاروبار عین جائز اور قانونی ہیں۔
کوئی جتنا ان سودے بازیوں کا ماہر ہو اتنا ہی لائقِ تعظیم سمجھا جاتا ہے۔

اور تو اور دو قومی نظریے کو سرِ عام گالیاں پڑتی ہیں اور گلشن کا کاروبار بالکل نہیں رکتا بلکہ دھوم دھام سے چلتا رہتا ہے۔
کسی نظریاتی، غیر نظریاتی، سیاسی، غیر سیاسی، کسی قوم پرست ِ صوبہ پرست یا شخصیت پرست کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
کسی مذہبی کے ماتھے پر شکن نہیں ابھرتی۔
کوئی دانشور اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا۔

نہ کسی پاکستانی مارکہ این جی او کی باجی کے دل پر ہاتھ آتا ہے۔ نہ بیرونی ایجنڈے کی میڈموں کا دل مسوستا ہے۔
حالانکہ یہ دل ایک خاتونِ خانہ کا شوہر کو کھانا گرم کر کے دینے پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتا ہے۔
اور اس ازلی ظلم کے خلاف بھڑک بھڑک کر شعلوں کی طرح جلتا اور بجھتا ہے۔
تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
میرے قائدِ اعظم ثانی نے ایسا کیا جرم کر دیا کہ سب ان کے پیچھے ہی پڑگئے۔
کیا نظریاتی ہونا جرم ہے؟

مانا وہ اچانک نظریاتی ہوئے ہیں۔ مانا انہوں نے پورے تیس برس ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود نظریاتی ہونا ضروری نہیں سمجھا۔
مانا انہوں نے ماضی میں سیفما کے ایک اجتماع میں بھارتیوں سے خیر سگالی کے اظہار میں دو قومی نظریے کو اپنی روشن خیالی کی رو میں بہہ کر رد کر تے ہوئے، سرحدوں کو قائدِ اعظم کی فرسودہ سیاست کی تاریخی غلطی قرار دیا تھا۔
مانا وہ مودی کے یار ہیں۔ بھارتی بزنس مینوں کے لئے ان کے دل میں اتنا نرم گوشہ ہے کہ اکثر ان کے ذکر پر ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ تو بھئی ہمیں کیا۔ ان کی سیاست ان کی مرضی۔ ان کی سوچ ان کی مرضی۔ ہم کون ہوتے ہیں پوچھنے والے۔

ہم کون ہوتے ہیں یہ پوچھنے والے مشاہد حسین سید کو کس نظریے کے تحت دوبارہ نون لیگ میں شامل کیا؟
ہم کون ہوتے ہیں پوچھنے والے، جب آپ اقتدار کی کرسی پر براجمان تھے تو نظریاتی ہونے کا خیال کیوں نہ آیا؟
آپ نے 1997 کو کشمیری مجاہدین کی فہرست بھارت کے حوالے کس نظریے کے تحت کی؟
آپ نے اس نظریے کو اس وقت اختیار کیوں نہ کیا جب آپ مشرف سے ڈیل کر کے ملک سے باہر جا رہے تھے؟

موٹر وے جسے بنا کر آپ خود کو شیر شاہ سوری ثانی قرار دیتے ہیں اس میں چالیس ارب کی کرپشن آپ کے کھاتے سے کیوں نکل رہی ہے؟
آپ سستی روٹی اسکیم میں پچیس ارب کے گھپلے کے ذمہ دار کیوں قرار دیے جا رہے ہیں َ؟
5۔ 31 ارب ییلو کیب سکیم میں آپ کے نام کہاں سے نکل آئے؟
اور تو اور 29 ارب میٹرو بس میں بھی آپ کے نام سے چرا لئے گئے؟
شاید آپ کو یاد ہو 18 ارب کا کراچی شپ یارڈ اسکینڈل جو 1998 ء میں سامنے آیا تھا اور جسے دبا دیا گیا تھا۔

اس سے دو سال قبل ملک کی اعلیٰ عدالت پر حملہ بھی شاید آپ بھول چکے ہیں، اور اس وقت کے چیف جسٹس کے ساتھ بدسلوکی بھی۔
اس کے علاوہ اندر خانے زرداری سے ڈیلیں۔ اور مل بانٹ کر کھانے کی حکمتِ عملی، بھی شاید اسی بے نظریہ زمانے کے کارہائے نمایاں ہیں، جنہیں آپ کے مخالفین اٹھائے اٹھائے آپ کے پیچھے پیچھے ہیں۔
اور آپ جب نہایت معصومیت سے اپنے نظریاتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو کبھی کوئی منچلا حدیبیہ پیپر مل کا معاملہ اٹھا لاتا ہے اور کبھی آ پ کا اقامہ آپ کے نظریاتی ہونے کی چغلی کھانے لگتا ہے۔
کبھی آف شور کمپنیاں ا ور کبھی منی لانڈرنگ کیسز جو آج کے نظریاتی اور کل کے غیر نظریاتی میاں نواز شریف کے سامنے سوال بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ہم کس نواز شریف کی مانیں؟
کل کے نواز شریف کی یا آج کے نواز شریف کی؟

آج کا نواز شریف جو کسی اندرونی تبدیلی کی وجہ سے اچانک نظریاتی ہو چکا ہے اور اپنے نظریاتی ہونے کے ثبوت میں ووٹ کا تقدس بحال کرنے کا نعرہ لگا رہا ہے۔ ووٹ جس سے قوم اپنے نمائندے چنتی ہے۔
ووٹ جس کے کندھے پر سوار ہو کر میاں نواز شریف اور ان جیسے دیگر تاجرانہ ذہنیت کے مالک لوگ اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں
ووٹ جس پر برادری، قبیلے، مذہب ِ مسلک ِ رنگ، نسل، صوبائی اور علاقائی سیاست کا قبضہ ہے۔
ووٹ جسے چند سومیں خریدا جا سکتاہے۔ ووٹ جو کسی حلقے میں ایک سولنگ اور ایک سڑک پکی کرانے پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
جسے آئندہ کے وعدے اور غریب کی آنکھ میں بھرے جانے والے جھوٹے خواب کی چکا چوند سے کھیسے میں نہایت آسانی سے بھرا جاسکتا ہے۔
ووٹ جسے جاہل اور انپڑھ رکھ کر رائے عامہ کو اپنے حق میں رکھنے کا ایجنڈا ہر نظریاتی اور غیر نظریاتی پارٹی کے اس مینی فیستو میں شامل ہے، جسے عوام الناس سے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔

اس ووٹ پر ذات برادری، زبان کا بھی وزن ہے اوربھاری بھرکم فیوڈلز اور اونچے زمینداروں کا بھی۔ رہی بیورو کریسی اور ملکی انتظامیہ تو وہ بھی ووٹ کے قبضہ مافیا کا اہم پرزہ ہے۔
یہ ووٹ انتخابات کے دوران چار گلیاں پکی کرانے اور چند بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کے لالی پاپ پر آپ کے آگے بچھ بچھ جاتا ہے۔ آپ کے حق میں گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتا ہے۔ آپ کی محبت میں دیوانہ ہو کر مخالف جماعتوں پر پل پڑنے کو تیار رہتا ہے۔ یہ ووٹ گندا پانی پیتا ہے۔ سوکھی روٹی کھاتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور گیس کی قلت سے دوچار رہتا ہے۔
مگر گن پھر بھی آپ کے، یا اس پارٹی کے گاتا ہے جس کے بیلٹ بکس میں اسے جا کر رہنا ہوتا ہے۔ یہ ووٹ اندھا بھی ہے بہرا ور گونگا بھی ہے۔ اسی لئے آج تک قید میں ہے۔ اور اس قید کے خلاف احتجاج اسے سکھایا ہی نہیں گیا۔
یہی وجہ گر وہ احتجاج کرتا بھی ہے تو آپ کے لئے۔ یا آپ جیسوں کے لئے۔ نعرے اپنی آزادی کے لئے نہیں لگاتا آپ جیسوں کے لئے لگاتا ہے۔ آپ جیسوں کے جلسوں کی رونق ہو کر آپ جیسوں کی قدر وقیمت بڑھاتا ہے اپنی نہیں۔

شکر ہے آپ اچانک نظریاتی ہوئے اور آپ کو ووٹ کے تقدس کا نادر خیال آگیا۔ کوئی بات نہیں دیر آید درست آید۔
آپ کو خیال تو آیا کہ ووٹ مقدس بھی ہے۔ قیمتی بھی ہے۔
اور یہ کہ ووٹ کی بھی کوئی چھوٹی موٹی عزت ہے۔ ووٹ کی بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ ہو سکتا ہے چند ادھڑی پدھڑی خواہشیں بھی ہوں۔
ووٹ بھی ذرا برابر توقیر کا خواہش مند ہو۔
کیا آپ ان خواہشوں ان ضرورتوں کو جانتے ہیں؟

اگر جانتے ہیں تو آپ اور آپ کی پارٹی انہیں پورا کرنے کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟
آپ نے اپنے وزیر اعظم کو اس ضمن میں کیا ہدایات فرمائی ہیں؟
آپ کے وزراء جو دن رات آپ کی نا اہلی کے خلاف واویلا کرتے دکھائی دیتے ہیں، کیا انہیں بھی ووٹ کے تقدس کا ٹاسک دیا گیا ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں آپ یہاں بھی ووٹ کو اپنی مظلومیت ثابت کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں؟
کہیں ایسا تو آپ کو ووٹ کے تقدس کا نادر خیال، اپنے مقدس ہونے کی وجہ سے آیا؟

اگر ایسا ہے تو میاں صاحب رہنے دیں یہ نظریہ وضریہ، یہ گراؤنڈ آپ کا نہیں، آپ اسی پچ پر کھیلیں، جس پر گزشتہ تیس برسوں سے کھڑے چوکے چھکے لگا رہے ہیں۔
گرچہ اب آپ کو تالیاں نہیں پڑ رہیں، مگر خاطر جمع رکھیں، یہ خاموشی دیر تک نہیں رہے گی۔
ابھی ووٹ کو قید سے رہائی نہیں ملی چنانچہ جلد یا بدیر آپ نہ صرف تالیاں سنیں گے بلکہ آپ کی مظلومیت پر گریبان چاک کرنے والوں کے نالے بھی آپ کے ہمراہ ہوگے۔
جو اپنے نظریاتی ہو جانے والے لیڈر کی عظمت کے گن بھی گائیں گے۔
اورنعرے بھی لگائیں گے۔
اس لئے کہ ووٹ ابھی آزاد نہیں ہوا اس کی قید کے کتنے برس باقی ہیں۔ اس ضمن میں کسی مشہور ستارہ شناس سے رجوع کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).