ڈاکٹر مبارک علی اور تاریخی شعور کا احساس و آگہی


ڈاکٹر مبارک علی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ پاکستان کے پڑھنے لکھنے والے اور سیاسی حلقوں میں ان کی اپنی ایک پہچان ہے۔ تاریخ :کے حوالے سے لکھنا ان کا پسندیدہ موضوع ہے اور تاریخ ہی ان کا بنیادی میدان بھی ہے ان کی تقریبا۔ 07ستر کتابیں تاریخ کے کسی نہ کسی موضوع کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کی تصانیف چند اہم رجحانات کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ تاریخ کو محض بادشاہوں حکمرانوں یا سیاسی اشرفیہ کی باہمی چپقلشوں اور محلاتی سازشوں کے بیان تک محدود نہیں رکھتے بلکہ وہ عوام کو تاریخ کا اصل موضوع اور مواد تصورکرتے ہیں۔ ماضی کے معاشروں ان کی تہزیبی سرگرمیوں اور افکار و آثار کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتے ہیں۔ اس طرح سے ماضی کا ایک ہمہ گیر منظر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ خود کو ہر قسم کے تعصب سے دور رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے نتائج فکر بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن اور بعض امقات نا قابل برداشت ثابت ہوتے ہیں۔ دراصل ہمارے ملک میں علمی سطح پر اتفاق وا اختلافات بھی پروان نہیں چڑھ سکا جس کی وجہ سے لوگ ا اپنی راےٗ سے مختلف راےٗ کو سمجھنے اور برداشت کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ڈاکٹر مبارک علی کی بھی تمام کہی ہوئی باتیں سو فیصد درست ہوں لیکن وہ غیر عقلی تصورات اور مسلمات کا درجہ حا صل کر لینے والی باتوں کو جب ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان کی اس جرأت مندی کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے بلکہ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات پر سنجیدگی سے غور بھی کیا جاناچاہیے۔

ڈاکٹر مبارک علی کی اہم خدمت مشکل اور پیچیدہ موضوعات کو سادہ اور عام فہم زبان میں پیش کرنا ہے۔ جس کی بدولت ان کے قارئین کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ تاریخ کے حوالے سے ان کے موضوعات، تاریخ نویسی کیا ہے، مسلمانوں کی تاریخ نویسی، بر صغیرکی تایخ نویسی، اٹلز اور امریکی تاریخ نویسی کے رجحانات کو تحقیق کے آئینے میں غیرجانبداری سے کیا۔ اس طرح بر صغیر میں تاریخ نویسی کے رجحانات۔ ً کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ کا آلمیہ بھی بیان کرتے ہیں۔ یہ وہ موضوعات ہیں کہ صداقت سے ان کا حق اد ا کرتے ہیں۔ تاریخ نویسی کے ضمن میں وہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ تاریخ قدیم زمانے میں کس طرح لکھی جاتی تھی۔ ابتدا میں جب تاریخ تحریری شکل میں آئی تو اس وقت انسانی معاشرے میں بادشاہت کا دور دورہ تھا۔ لہذا تاریخ کا موضوع بادشاہ تھے یا اَولیا یا ان کے معجزے۔ یعنی تاریخ نویسی پر شخصیتوں کی چھاپ رہی اور عام آدمی دائرہ تاریخ سے دور تھا۔

ڈاکٹر مبارک علی نے عام آدمی کو تاریخکا شعور دیا تا کہ تاریخ بادشاہو ں یا خاص لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر شخص تاریخ کا حصہ ہوتا ہے۔ ابتدائے تاریخ میں مافوق الفطرت کی بھر مار تھی۔ وقت کے سات ساتھ تاریخ کے موضوعات میں وسعت آ گئی۔ تاریخ کو محض ماخذوں کی شہادت کی بنیاد پر نہیں بیان کرنا چاہے ان کے ساتھ ساتھ سر کاری دستاویزات، خط و کتابت، فرامین اور ذاتی مشقتوں کو بھی استعمال میں لا کر واقعات کو پرکھنا ضروری ہے۔ تاریخ نویسی سے معاشرے کی تبدیلیوں کا پتا چلتا ہے۔ تجارتی سر گرمیاں، ثقافتی ارتقار اور سیاسی فتوحات وشکستوں کا سلسہ تاریخ کا حصہ ہے۔ درحقیقت تاریخ نویسی معاشرے کے حالات کی بیداری ہو تی ہے اور مورخوں کے ذہن سے جنم لیتی ہے۔ اور ان کی تحریروں میں ان کا عہد، حالات و واقعات جھلکتے ہیں۔

تاریخ میں واقعات نہیں بدلتے۔ مگر ان واقعات کو بیان کرنے کا نقطہ نظر ہر زمانے میں بدلتا ہے۔ ہر مورخ تاریخ کو اپنے نظریے سے لکھتا ہے اور اس کی تحریروں کے ذریعے رجحانات کا جا ئزہ لیا جا سکتا ہے جو مورخ اپنے افکار کے ذریعہ واقعات میں بیان کرتا ہے۔ اس کی مثال ایک واقعہ محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملے ہیں۔

اس واقعہ کو مسلمان مورخ کے نقطہ نظر سے اور ہندو مورخ محض لوٹ مار سمجھتا ہے۔ سیکولر ذہن رکھنے والا مورخ ان حالات کو جائزہ لے کر حقائق کو بیا ن کرتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تاریخ کی بقیروتفسیر حالات ونظریات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ تاریخ نویسی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اس لیے تاریخ لکھنے کے لیے اس مقصد کو مد نظر رکھنا چاہے کہ اس سے عوام میں شعور پیدا ہو۔ یعنی تاریخی شعو ر کا ہو نا تا ریخ لکھنے پرھنے اور سمجھنے کا محرک ہے۔ عوام اپنے حقوق سے واقف ہوں اور ماضی میں وہ جن شخصیات کے استحصال کا شکا ر ہوئے اب ان کی حقیقت سب کے سامنے آنا ضروری ہے تا کہ آئندہ آنے والی نسلیں اس دھوکہ میں نہ رہیں اور تاریخ کا شعور رکھتے ہوئے خود اپنی تقدیر بنائیں اور دوسرے ان کی شخصیت کے ساتھ نہ کھیلیں۔ جہاں تاریخ معاشر ے میں شعور وآگاہی پیدا کرتی ہے وہاں یہ تنگ نظری بے عملی عناد کا باعث بنتی ہے۔ اس کا انحصار مورخ کے نظریات پر ہوتا ہے۔

وقت کے سا تھ معاشرے کے مختلف طبعتوں کے مفادات بھی بدلتے رہتے ہیں او ر ان کے مفادات کی بدولت تاریخ نویسی کے انداز بھی تبدیلی کا شکا ر ہوتے ہیں۔ مذہبی عقائد اور ان کا احیا ء ترقی کا نظریہ اور یورپی اقوام کی صنعتی ترقی اور کے نتیجے میں نو آبادیا تی نظام نے تاریخ نویسی میں ایک تبدیلی کو اجاگر کیا۔ نو آبادیاتی دور میں تاریخ کا سامراجی نظریہ یورپ میں مقبولیت کا حامل رہا۔ مارکس اور اینگلزنے تاریخ کا مادی اور جدلیاتی نظریہ پیش کر کے تاریخی عمل کو سمجھنے میں مدد دی۔ اس نظریے کی روشنی میں انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش اور جدو جہد کی تاریخ نظر آتی ہے، جس میں طبقاتی مفادات۔ سیاست، قانون، معشیت اور ثقافت سب پر چھائے ہو ئے نظر آتے ہیں۔ اس نظریہ نے عا م انسا ن کو تاریخ کا ایسا شعور دیا کہ انھیں احساس ہوا کہ تا ریخ میں صر ف بادشاہوں، جاگیر داروں، امراء، اور سر مایہ داروں کا تو ذکر ہے مگر ان کا نہیں جب تک ان میں تاریخی شعور نہیں تھا وہ یہی سمجھتے تھے کہ تاریخ بادشاہوں، امراء خواص کی ہوتی ہے اور عوام کا اس سے تعلق نہیں، لیکن اب وہ اس سے واقف ہوے کہ انہوں نے بھی تار یخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے لہذا ان کا بھی تذکرہ تاریخ میں آنا چاہے۔ ماضی کی روایت کو توڑے ہوے اب تاریخ ان کو فراموش نہیں کرے۔ جدید تاریخ نویسی میں نہ صرف ماضی میں ان کو صحیح مقام دیا جائے بلکہ موجودہ دور میں تاریخ ان کے تاریخی عمل محفو ظ رکھے کیوں کہ تاریخ کی تشکیل میں اب بھی یہ اتنے ہی سر گرم عمل میں جتنے ماضی میں تھے۔ یعنی تاریخ عوام سے ہے اور ان کے وجود سے خالی تاریح صرف مخصوص طبقہ کی نمائندہ ہی ہو سکتی ہے۔

برصغیر میں بھی تاریخ نویسی کا یہی رجحان رہا۔ ابتدا میں مسلمان مورخین نے تاریخ میں الہیاتی نظریہ اختیار کیا۔ (یعنی ہر بات کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے واقعات کو من و عن تسلیم کر لیا)مورخین نے بادشاہوں اور امراء کے عمل کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا۔ اور جو حکمران شریعت کے پابند نہ تھے ان کے کردار اور طرزحکومت میں انہیں ما سوائے برائیوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس تناظرمیں ضیاء الدین نے علاؤ الدین خلیجی اور محمد تخلق پر کڑی تنقید کی۔ جبکہ التمش، ناصر الدین محمود، بلبن، اورنگ زیب نیک و خدا ترس اور صالح مسلمان قرار دیے گئے۔
یہ تاریخیں شخصیت پرستی کے نظریہ کے تحت لکھی گئیں با اثر و حکمران طبقوں کی شخصیتوں کو بڑے مبالغہ کے ساتھ پیش کیا تا کہ لوگ ان کی خوبیوں سے متاثر ہوں۔

ضیا الدین برنی اس بارے میں لکھتے ہیں:
”انبیاء، خلفاء، سلاطین اور بزرگان دین دولت کے حالات و واقعات سے واقف ہونے کا نام تاریخ ہے۔ اس کے برعکس ادنیٰ اور کم ظرف، نا لائق، نا اہل، پست ہمت، گمنام، بے سروپا، کاہل وکم اصل لوگوں کو نہ تو تاریخ سے کوئی نسبت ہے اور نہ اس کا مطالعہ ان کا شغل و موضوع ہو سکتا ہے۔ “

آخری مغلیہ عہد میں تاریخ نویسی میں تبدیلیاں آئیں۔ مغل دربار کی طاقت و اہمیت کمزور ہو چکی تھی مورخین جواب تک دربار کے ملازم تھے۔ اپنی ملازمتیں کھونے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں بکھر گئے۔ اب مورخوں نے پہلی مرتبہ ملک ذہنی طور پر آزاد محسوس کیا، اس لیے وہ تاریخی واقعات کو بیان کرتے وقت بادشاہ، امراء اور منصب داروں پر تنقید کرنے لگے۔ اور اس کے علاوہ سماجی، معاشی اور معاشرتی سر گر میوں کا ذکر بھی ہونے لگا۔

تاریخ نویسی کے یہ رجحانات معاشرے میں حکمران طبقوں اقتدار کو مستحکم کر رہے ہیں۔ جن طبقوں کے ماضی کو ا’جاگر کیا گیا وہ حکمران طبقہ کا ماضی ہے عوام کا نہیں۔ ماضی کا یہ نظریہ تشہر پا رہا ہے۔ کہ شخصیتں تا ریخ ساز ہوتی ہیں۔ عوام نہیں۔ یعنی یہ ما ضی مخصوص لوگوں کا ہے عوام کا نہیں تو عوام اس پر فخر کیوں کریں جس کی تشکیل میں ان کا کوئی کام نہیں۔ ایک عام مسلمان کے لیے یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ اگر وہ سنہری دور لوٹ آیا تو کیا اس میں ان کے لیے کوئی بھی با عزت مقام ہے۔ یہ نظریات عوام کی حیثیت کو کمزور کر کے ان میں احساس کمتری پیدا کررہے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں اس کے مطالعہ کے بعد یہ خیال راسخ ہو جاتا کے کہ ان کی بہتری کے ذمہ دار حکمران، علماء اور صوفیا ء کی شخصیتیں ہیں۔ ہماری تاریخ نے ان خیالات و نظریات کے پر چار کے بعد عوام کو ذلت کی گہرائیوں میں ڈال کر ان کی امنگوں، ولولوں اور خواہشات کو با لکل ختم کر دیا گیا۔

تاریخ نویسی کے یہ رجحانات ہمارے معاشرے کے طبقاتی مفادات کی نما ئندگی کرتے ہیں۔ مفادات میں تو تبدیلی واقع ہوتی رہی مگر کسی بھی مرحلہ پر عوامی شعور میں اضافہ نہ ہوا بلکہ عوامی شعور و آگہی کو روکا گیا۔ مورخوں نے سلاطین کے مفادات و نظریات کے سانچے میں تاریخ کو ڈھالنے کا کام کیا اور کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی عوام میں تاریخی شعور بیدار کرتے ہوئے اس امر پر زور دیتے ہیں کہ ضروریات اس بات کی ہے کہ تاریخ کو ان طبقاتی مفادات کی زنجیروں سے آزاد کرایا جائے اور اسے تنگ و محدوددائرے سے نکال کر آزاد، وسیع اور کھلی فضا میں لایا جائے تا کہ اس کے ذریعے سوتے ہوئے عوامی شعور کو بیدار کیا جائے اور تاریخ میں اس کی جڑیں تلا ش کر کے انہیں بھی ایسی یاداشتیں دی جائیں جو ان کی عزت و توقیر میں اضافہ کریں۔ جبکہ ہماری تاریخی یاداشتیں معاشرے کے طبقوں کی نہیں بلکہ حکمران طبقوں کی ہیں۔ ایسی صورتحال میں تاریخ نے عوام کو اگر ماضی میں باعزت مقام نہیں دیا تو وہ بغیر ماضی کے کھوکھلی زندگی بسر کر نے پر مجبو ر ہو جائیں گے۔ اورنہ ہی ان سے یہ توقع کی جائے گی کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جابرانہ اور آمرانہ حکومتوں سے جنگ کر سکیں۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ تاریخ کی جدلیاتی اور طبقاتی نقطہ نظر تعبیر و تفسیر کی جائے۔ تاریخی واقعات کے پس منظر میں طبقاتی مفادات کی نشاندہی کر کے ان کی اصل حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے اس عمل سے تاریخ کی حقیقی اور صحیح تصویر عوام کے سامنے آئے گی۔ یہی تاریخ کی وہ تفسیر ہو گی جو ان میں شعور و آگہی پیدا کرے گی۔ در اصل یہی شعور ہی عوام میں تاریخی شعور کو بیدار کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).