دیوانگی یا خودکشی۔ آپ کا انتخاب کیا ہوگا؟


\"Muhammad-Ishfaq\"

بیکاری کے دن تھے، پنڈی بینک روڈ پہ نیشنل بنک کے سامنے برگد کا قدیم درخت جس کے آس پاس کی جگہ کو اب کینٹونمنٹ بورڈ نے بہت خوبصورت بنا دیا ہے، اس کے نیچے چند پتھر کی بنچیں پڑی ہوئی تھیں اور چاٹ والے کی دو کرسیاں، جن میں سے ایک پہ میں براجمان تھا۔ چاٹ والے کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کسی طرح اٹھا دے مگر کرسی کون چھوڑتا ہے۔

وہ آیا اور مجھے سلام کر کے سامنے والی بنچ پہ بیٹھ گیا۔ پٹھان، ملگجے سے لباس میں، عمر پینتیس چالیس کے قریب، صحت مند مضبوط جسم، بکھرے بال، کھچڑی داڑھی، ایسے حلیے کے مزدور بہت عام ہیں۔ بیٹھتے ہی اس نے مجھے کچھ کہا جو میں سن نہیں پایا۔ میرے پوچھنے پر اس نے دوبارہ اشاروں کے ساتھ اپنی بات دہرائی۔ ’سخت بھوک لگی ہے‘۔ جیبیں ٹٹولیں تو مبلغ پینتالیس روپے برامد ہوئے۔ دہی بھلے کی پلیٹ اس وقت تیس کی تھی، کام چل سکتا تھا۔ دہی بھلے اس نے جس طرح کھائے مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ واقعی بھوکا تھا۔ پلیٹ خالی کر کے وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا، بہت معصوم سی مسکراہٹ، \"Banyan-tree-in-Ahata-Kirpa-Ram-Bank-Road-Rawalpindi\"تصنع، مصلحت اور ضرورت سے پاک۔ سگریٹ مانگا، میں نے ایک خود لگایا ایک اسے دیا۔

’اس کے ایک استاد جی نے اسے لوہے کو سونا بنانا سکھایا تھا۔ مگر وہ سونا بناتا نہیں تھا۔ اس کی بیوی کا ایک رشتہ دار ان کے گھر آیا۔ وہ بڑا خان تھا۔ اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ وہ لوہے کو سونا بنا سکتا ہے۔ بڑے خان کا سریے کا کاروبار تھا اس نے اسے مجبور کیا کہ وہ اپنے بیوی اور دو بچوں سمیت اس کے پاس چلا آئے۔ وہ بیوی کے مجبور کرنے پہ چلا گیا۔ ’میری بیوی بہت پیاری ہے، بہت پیاری۔۔۔بووووہت پیاری‘۔ بڑے خان نے اس سے اس کی بیوی چھین لی۔ اس نے کہا کہ مجھے سونا بنا کے دو، میں بیوی تب واپس کروں گا۔ اس کے دونوں بچے ماں کے بغیر روتے رہتے تھے۔ اس نے تنگ آ کر دونوں کو مار ڈالا، مگر خان کو سونا بنا کر نہیں دیا۔ بڑے خان کے ایک دوست کے پاس جن تھا، اس نے اسے جن کے حوالے کردیا۔ جن اسے ایک پہاڑ ہندوکش میں پھینک گیا۔ وہاں سے وہ پیدل چلتا کابل پہنچا۔ کابل اسے اس کا دوست ملا جو اسے لے کر پشاور آگیا۔ وہاں اس نے اپنے دوست کو ایک پاؤ سونا بنا کے دیا، دوست نے اسے دو ہزار روپیہ دیا اور وہ پنڈی چلا آیا۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ مزدوری کرکے پیسے جمع کرے گا اور بڑے خان سے اپنی بیوی چھڑوا کر لے آئے گا۔ ’میری بیوی بہت پیاری ہے، بہت ہی پیاری۔۔۔۔بوووووہت پیاری۔‘

پچیس منٹ لگے مجھے یہ سمجھنے میں کہ جس شخص کی میں باتیں سن رہا ہوں، وہ پاگل ہے۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ نہیں شاید میں پاگل ہوں۔

کام پہ جاتے لال کرتی سے روزانہ گزر ہوتا تھا۔ وہاں پہ ایک پاگل تھے، شاید ہیں اب بھی، اللہ زندگی دے۔ عمر پینتالیس، پچاس، مگر صاف ستھرے معزز سے، پینٹ شرٹ پہنے ہوئے، کھچڑی بال سلیقے سے کٹے ہوئے، شیو کبھی کلین کبھی بڑھی ہوئی۔ دبلے پتلے دراز قامت۔ کبھی بہت دیر ایک ہی جگہ کھڑے رہتے، کبھی بہت تیز قدموں سے چلتے دکھائی دیتے، گویا کوئی بہت اہم کام نبٹانے جا رہے۔ اپنے جاننے والوں کو، ان کے جاننے والے تو سبھی تھے مگر شاید چند مخصوص لوگوں کو وہ ماتھے پہ ہاتھ رکھ کر سلام بھی کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ کبھی کبھار ہاتھ ملا لیا کرتے۔ بولتے نہیں تھے، کبھی بولتے بھی تو مجھے سمجھ نہیں آتی تھی۔ مگر باڈی لینگویج سے محسوس ہوتا کہ پوچھ رہے کہ کیسے مزاج ہیں، اور سب ٹھیک ٹھاک؟ میں بھی اسی طرح پرجوش انداز میں سرہلاتا، مسکراتا انہیں جواب دیتا۔ کبھی بالکل ہی انجان بن جایا کرتے، تو مجھے مایوسی سی ہوا کرتی تھی۔

ایک روز سردیوں کی صبح دور سے ان پہ نگاہ پڑی تو بہت بے چین سے دکھائی دیے، گویا کسی کے انتظار میں ہوں۔ بغل میں کچھ دبا رکھا تھا۔ میں جیسے ہی قریب پہنچا، تیزی سے میری جانب بڑھے، بغل میں سے کاغذوں کا ایک پلندہ نکال کر میرے حوالے کیا، مجھ سے ہاتھ ملایا اور کچھ غوں غاں کرتے رہے اور ہلتے رہے۔ شاید مجھے ان کاغذات کے متعلق کچھ سمجھا رہے تھے، بہت پرجوش انداز میں۔

فخر سے میرا سینہ پھول گیا، کتنا خوبصورت احساس تھا۔ ایک دیوانے نے مجھے اس قابل سمجھا تھا کہ وہ مجھے اپنے راز میں شریک کرے۔

میں نے وہ پلندہ بہت احتیاط سے رول کیا، سینے سے لگایا، سرہلا ہلا کر اور جھک جھک کر ان کا شکریہ ادا کیا اور دفتر چلا آیا۔ لنچ بریک تک کام نبٹا کر میں نے ان کے کاغذات کھولے۔ مجھے جانے کیوں امید تھی کہ ان میں مجھے کچھ خاص چیز ملے گی، کوئی راز کی بات، کوئی بھید، کوئی اسرار۔ ساٹھ ستر کاغذ تھے، سب پہ ٹیڑھے میڑھے، بے ترتیب انداز میں انگریزی حروفِ تہجی، کہیں کچھ اعداد۔ یکے بعد دیگرے میں ایک ایک کاغذ کو سامنے رکھ کر اس پہ غوروخوض کرتا رہا۔ کوئی پوشیدہ رمز تلاش کرتا رہا۔ دو گھنٹے سر کھپایا، آخر اس نتیجے پہ پہنچا کہ آفٹر آل وہ اتنے پاگل نہیں جتنا میں۔ شاید اسی لئے کاغذات انہوں نے مجھے دیے تھے، میں انہیں زیادہ ڈیزرو کرتا تھا۔ باقی جو الم غلم میرے آفس پڑا رہتا تھا اس کے ساتھ وہ کاغذات بھی بہت عرصہ محفوظ رہے۔ کبھی کبھار پتہ نہیں کس امید پہ میں انہیں نکال کر نئے سرے سے ان کا جائزہ لینے لگتا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ میں نے پاگلوں کی تلاش شروع کردی۔ جس طرح کبھی میں مختلف اوقات میں ہیجڑوں، پوڈریوں، ملنگوں اور طوائفوں کی تلاش کرتا رہتا تھا۔ مگر پاگلوں کو شناخت کرنا ان سب کی نسبت دشوار کام ثابت ہوا۔ ان کا کوئی مخصوص حلیہ نہیں اور ان کی اقسام بہت ہیں۔ مگر لگن سچی ہو تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ میری دلچسپی البتہ ہمیشہ سے انسانوں میں رہی ہے۔ میری نگاہ میں خدا کی تلاش بہت فالتو سا کام ہے، آپ پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ نے اسے کھویا ہی کیوں؟ اور اگر کھو ہی چکے تو اب ڈھونڈتے کاہے کو ہیں؟ اور مل بھی گیا تو کیا کرلیں گے، پھر تو جو کرنا ہے خدا ہی کرے گا، اور جب سب کچھ خدا ہی نے کرنا ہے تو پھر آپ ایویں کیوں پھرتیاں دکھا رہے ہیں؟ آپ نے اسے کھویا ہے، اس نے آپ کو نہیں کھویا۔

خیر عرض یہ کر رہا تھا کہ یہ جو دیوانگی ہوتی ہے نا یہ دو طرح سے انسانوں کو شکار کرتی ہے۔ ایک دیوانگی آسیب کی طرح اترتی ہے، اور اپنے شکار کو بے دست و پا کر کے رکھ دیتی ہے۔ یہ وہ ہیں، جن کے لئے پاگل خانے بنائے جاتے ہیں، جو سڑکوں پہ آپ کو آوارہ گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ جو یا تو پیدائشی اس آسیب کا شکار تھے یا جنہوں نے کچھ ایسا دیکھ لیا، کچھ ایسا سہہ لیا کہ جس کے بعد زندہ رہنے کا واحد طریقہ پاگل پن ہی رہ جاتا ہے۔

لیکن ایک دیوانگی وہ ہوتی ہے جو آپ پہ الہام کی طرح نازل ہوتی ہے، ٹکڑوں کی شکل میں۔۔۔۔ قطرہ قطرہ، ذرا ذرا۔ یہ جس پہ نازل ہورہی ہوتی ہے نہ اسے کچھ غیرمعمولی دکھائی دیتا ہے نہ اس کے اردگرد کے لوگوں کو۔ مگر روز بروز، تھوڑا تھوڑا وہ شخص دیوانگی کے کنویں کی سیڑھیاں اترتا چلا جا رہا ہوتا ہے۔ اسے پاتال میں جانے سے روکا جاسکتا ہے، مگر روکتا کوئی کم ہی ہے۔ اس طرح کے پاگل بہت تیزی سے بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ان میں سے کچھ بلاوجہ بہت زیادہ ہنستے رہتے ہیں، کچھ بلاوجہ بہت خاموش ہوجاتے ہیں، کچھ بلاوجہ بہت بولتے رہتے ہیں، درمیان میں اچانک چپ سے ہوجاتے ہیں، اور پھر اندر کے سناٹے کے ڈر سے پھر سے بولنے لگتے ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھئے، شاید ہر تیسرے شخص کی آنکھوں میں آپ کو وحشت دکھائی دے۔ شاید ہر چوتھے شخص کے چہرے پہ دیوانگی رقصاں ہو۔

ایک بہت مقبول سیاسی لیڈر ہیں جن کے چہرے پہ، جن کی آنکھوں میں آپ کو وہ وحشت دکھائی دیتی ہے، جنوں کے آثار۔ میں نے اس خیال کی تصدیق کے لئے ان کی ڈھیروں وڈیوز دیکھی ہیں۔ اور جب سے یہ احساس ہوا، تب سے وہ پہلے سے زیادہ اچھے لگنے لگے ہیں۔ ہر روز وہ شخص جانے اپنے اندر کی کتنی بلاؤں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ ہر رات اس کے سر میں جانے کتنی آوازیں بولتی ہیں۔ مگر ہر صبح وہ اٹھ کر زندگی کی جنگ لڑنے لگتا ہے، خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے۔ جس دن اس نے اپنے اندر کی جنگ جیت لی اس دن وہ اپنے باہر کی لڑائی میں بھی فتح یاب ہوجائے گا۔ اس دن وہ سچ مچ لیڈر بن جائے گا۔ تب تک اس جنگ کے آثار اس کے چہرے پہ کم از کم مجھے دکھائی دیتے رہیں گے۔ کیونکہ کبھی کبھار جب میں آئینے میں خود کو دیکھتا ہوں تو وہی وحشت، وہی جنوں مجھے اپنی آنکھوں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ نارمل لوگ بہت کم ہوتے جارہے ہیں، نارمل لوگوں کو شاید مر ہی جانا چاہئے۔

زندگی کبھی آپ کے سامنے صرف دو راستے رکھتی ہے۔۔۔دیوانگی یا خودکشی۔ آپ کا انتخاب کیا ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments