جلیانوالہ باغ کی چیختی روحیں


\"inam-rana-3\"پنجاب ہمیشہ سے خطہ رہا ہے میلوں ٹھیلوں کا۔ اور بہار تو کسان کے لئے فصل پر کی محنت کی وصولی اور ممکنہ خوشحالی کے تصور میں ڈوبنے کا موسم ہے۔ سو اسی فصل اور سردی سے جان چھوٹنے کا جشن وہ بسنت اور وساکھی (بیساکھی) کے میلے کی صورت مناتا ہے۔ یہ جشن صرف اس کسان مرد کا ہی نہیں ہوتا جو سارا وقت موسم کی سختی اپنے بدن پر برداشت کر کے زمین کو اپنا پسینہ پلاتا رہا اور لہلاتی کھیتی کا انعام پایا۔ یہ جشن تو اس عورت کا بھی ہوتا ہے جو اس سارے وقت اس مرد کو اخلاقی قوت پہنچاتی رہی، اس کے لئے شا ویلے کی روٹی لے کر جاتی رہی، خود آدھی روٹی کھا کر اس کو اور بچوں کو پوری روٹی دیتی رہی؛ اب اس کے پوری روٹی کھانے کا موسم ہے، وہ زیور جو گروی رکھ کر بوائی کرائی تھی اسے چھڑانے کا ویلا ہے۔ اور رہے بچے، تو ہر موسم ہی ویسے تو ان کا میلہ ہے مگر جب ماں اور باپ کبھی اکٹھے خوش ہو رہے ہوں تو وہ وقت واقعی میلے کا ہے۔ اس روز، تیرہ اپریل سن انیس کو باغ جلیانوالہ میں اکٹھے ہوئے کئی ہزار بھی دراصل قریبی دیہاتوں سے شہر امبرسر (امرتسر) وساکھی کا جشن منانے ہی آئے تھے جسے سکھ دھرم نے ایک مذہبی تہوار بنا دیا تھا۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ جو فصلیں انھوں نے بوئیں تھیں، انھیں کاٹنا انھیں نصیب نہ ہو گا۔

\"jallianwala-bagh-sign\"شہر کی فضا خراب تھی۔ جنگ عظیم اوّل کے کیے جھوٹے وعدے جب پورے نہ ہوے تو جنگ میں بہتر تعلقات کی امید لیے شریک پنجابیوں نے اسے وعدہ خلافی جانا۔ رولٹ ایکٹ نے پورے ہندوستان میں ردعمل پیدا کیا مگر پنجاب نے تو اسے دل پر لیا۔ گورنر ڈائر کو لگتا تھا کہ \”ستاون کے غدر\” جیسی ایک اور بغاوت فضا میں ہے اور ابھی کچھ ہی دن قبل پورا لاہور سڑکوں پہ تھا جب بیس ہزار لوگ انارکلی میں جمع تھے۔ گیارہ اپریل کو جب چند شرپسندوں نے ایک انگریز خاتون مارسیلا شیروڈ کی مبینہ آبروریزی کی تو کرنل ڈائر نے پوری آبادی سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ دفعہ چتالیس (144) لگی اور اجتماع ممنوع پایا۔ ہر ہندوستانی کو اس گلی سے پیٹ کے بل گزرنا حکم قرار پایا کہ ڈائر کے بقول \”ہندوستانی اپنی دیویوں کے سامنے یونہی رینگتے ہوے جاتے ہیں اور میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ ایک انگریز خاتون کی حرمت دیوی کے برابر ہے\”۔ شہر امرتسر میں جاری اس کشمکش سے وہ دیہاتی واقف نہ تھے جو وساکھی منانے گردوارہ گولڈن ٹیمپل آئے تھے۔ جب پولیس نے وساکھی کی عبادات وقت سے پہلے ہی ختم کرا دیں تو یہ سب باغ میں آ گئے جو تفریح کا مقام تھا۔ شاید وہ واقف بھی نہ تھے کہ ڈاکٹر بشیر اور دیگر کانگرسیوں کی ایما پر آج کچھ لوگ اسی باغ میں رولٹ ایکٹ اور سیف الدین کچلو کی گرفتاری کے خلاف اجلاس کریں گے۔ کرنل(عارضی برگیڈئیر) ڈائر جانتا تھا کہ پندرہ بیس ہزار کا یہ مجمع مکمل سیاسی نہیں۔ مری میں پیدا ہونے والا ڈائر بخوبی واقف تھا کہ بیساکھی کیا ہوتی ہے مگر وہ تو ہندوستان کو
\"capture_1428913465\"پیغام دینا چاہتا تھا، کہ راج قائم رہنے کے لئے ہے۔ اپنے پینسٹھ گورکھا اور پینتیس پٹھان اور بلوچی سپاہیوں کے ساتھ جب اس نے دس منٹ تک اس اجتماع پر گولیاں برسائیں تو افسوس ایک ہاتھ بھی گولی چلاتے ہوے نہ کانپا۔ چرچل کی الفاظ میں \”گولیاں سیدھی چلیں، وہ دائیں بائیں تتر بتر ہوے تو گولیاں بھی دائیں بائیں چلیں، وہ لیٹ گئے تو گولیاں زمین کی طرف چلنے لگیں\”۔ ایک کنواں تھا اس باغ میں، سنا ہے جان بچانے کو کودنے والوں سے اتنا بھر گیا کہ لوگ اس پر بھاگنے لگے۔ پندرہ سو کے قریب لوگ مارے گئے جن میں بچے بھی تھے، عورتیں بھی اور مرد تو تھے ہی۔ وہ بھی تھے جو احتجاج کو آئے تھے اور وہ بھی جو فقط بیساکھی کا میلہ دیکھنے آئے مگر خود تماشا بن گئے۔

ڈائر نے یہ ظلم۔ فقط دہشت کا پیغام پھیلانے کو کیا۔ ایک کو سزا دو تاکہ سب محتاط ہو جائیں۔ حیرت ہے کہ جس کے اپنے ملک میں آزادی اظہار کے لئے ہائیڈ پارک تھا وہی اس باغ میں اس حق کو برداشت نہ کر سکا۔ سن اکیس میں \”گلوب\” میں اس نے لکھا کہ آزادی اظہار ہدایت یافتہ لوگوں کے لئے ہے جو ہندوستانی نہیں ہیں۔ ہندوستان کے لئے ایک گیارہویں کمانڈمنٹ (موسوی حکم) کی ضرورت ہے، \”تم احتجاج نہیں کرو گے\”۔ چرچل کی تحریک پر کرنل ڈائر کو قبل از وقت ریٹائر کیا گیا مگر جب وہ برطانیہ پہنچا تو اس کو \”عوام \” کی طرف آج کے مطابق دس \"bagh1\"لاکھ پاؤنڈ کا عطیہ دیا گیا اور خواتین کی طرف سے ایک تلوار اس خطاب کے ساتھ کہ ڈائر پنجاب کا نجات دہندہ ہے۔ مارننگ پوسٹ سے اسے \”یورپی خواتین کی عصمت کا محافظ\” لکھا۔ افسوس ایک قوم کا نجات دہندہ اکثر دوسری قوم کا قصائی نکلتا ہے۔ سن ستائیس میں یہ قصائی یوں مرا کہ نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔ نائجل کولٹ نے \”امرتسر کا قصائی\” میں لکھا ہے کہ وہ باقی کی عمر اپنے اس عمل کو درست قرار دینے کی کوشش یوں کرتا رہا کہ جیسے خود کو مناتا رہا ہو۔ اک دوست سے اس نے کہا کہ چھ ماہ ہو گئے میں سو نہیں پاتا کہ سوتے کی وہ واقعہ دوبارہ بیتنے لگتا ہے۔ بستر مرگ پر اس نے کہا کہ بہت سے لوگ اسے درست یا غلط کہتے ہیں۔ میں صرف مرنا چاہتا ہوں تاکہ خدا مجھے بتائے کہ میں نے درست کیا یا غلط۔ افسوس ایسے لوگ اکثر مذہب میں تاویل ڈھونڈتے ہیں، سنا ہے جنرل ضیا بھی بہت نمازیں پڑھتا تھا۔ ڈائر سمرسٹ میں مرا اور مجھے یقین ہے کہ خدا کے حضور ان تمام روحوں پر کے آزادی اظہار پر کوئی قدغن نہ ہو گی جنھیں اس جرم میں اس نے مار ڈالا۔

\"1336780_Wallpaper2\"مگر کچھ روحیں آج بھی کنویں میں بند چیخ رہیں ہیں۔ سوال کرتی ہیں۔ وہ اس جنگ آزادی کے متوالوں کو روحیں ہیں جو پاکستان یا موجودہ ہندوستان کی نہیں بلکہ ہم سب کے ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ آج جب جلیانوالہ دنیا بھر میں استعارہ بن چکا، جب وہ ساری دنیا کا مشترکہ اثاثہ بن چکے تو وہ سوال کناں ہیں کہ امرتسر سے کچھ کلومیٹر دور لاہور والے اب ان کو یاد کیوں نہیں کرتے۔ کیوں وہ بھلا دئیے گئے صرف اس وجہ سے کہ امرتسر اب پاکستان میں نہیں۔  امرتسر بھلے ہندوستان میں ہو، جیلیانوالہ باغ تو ہر اس دل میں ہے جو آزادی کی قدر جانتا ہے۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
13 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments