سستی اور معیاری ادویات: خیبر پختونخوا بمقابلہ پنجاب


اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خیبر پختونخوا بہت سارے ایسی ادویات خریدنے جا رہی ہے جن کو کم تر کوالٹی (inferior brands) کہنا غلط نہیں ہوگا۔ ان کے اپنے ہی لسٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ کمزور کمپنیوں کو فلٹر کرنے میں ناکام رہی ہیں حتیٰ کہ جان بچانےوالی ادویات میں بھی۔ جبکہ پنجاب نے صرف اچھی شہرت کی حامل کمپنیوں کو مقابلے میں حصّہ لینے دیا ہے جس سے زیادہ تر ادویات (خاص کر جان بچانے والی ادویات) بین الاقومی یا مقامی لیکن اچھی شہرت کی حامل کمپنیوں سے خریدی جائیں گی۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت حکّام نے اپنی اس لسٹ کے حوالے ایک اوردلچسپ دعویٰ یہ کیا ہے کہ ہم پنجاب کے مقابلے میں ڈیڑھ بلین روپے کی بچت کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ اس لسٹ میں خیبر پختونخوا کے ادویات کی ممکنہ طور پر خریدی جانی والی ادویات کی مقدار (متوقع کھپت) نہیں لکھی گئی ہے۔ رابطہ کرنے پرانکےایک فارماسسٹ نے یہ انکشاف کیا کہ قیمتوں کے فرق کو پنجاب کے متوقع کھپت (estimated consumption) سے ضرب دے کر بچت کی رقم معلوم کی گئی ہے۔ اگر یہ حقیقت ہو تویہ انتہائی مضحکہ خیز ہے اور یہاں ایک پرانا لطیفہ کافی فٹ آتا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک کنجوس آدمی خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا تو بیوی نے خوشی کی وجہ پوچھی۔
آدمی نے کہا: آج میں نے دس روپے کی بچت کی ہے۔
بیوی نے پوچھا وہ کیسے تو آدمی نے کہا۔ جب میں آج دفتر سے گھر کے لئے نکلا تو بس روانہ ہو گئی تھی۔ میں نے اس کے پیچھے دوڑ لگائی لیکن جب تک میں بس تک پہنچتا تب تک گھر آگیا اور یوں دس روپے کی بچت ہو گئی۔
بیوی نے جلدی سے کہا:بے وقوف! کسی ٹیکسی کے پیچھے بھاگ جاتے تو تین سو روپے کی بچت ہو جاتی۔

ایسے لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا نے بھی اپنے بس کی بجاے پنجاب کے ٹیکسی کے پیچھے دوڑ لگا کر یہ بچت کی ہے۔ لیکن میرے خیال سے اگر وہ انڈیا جیسے بڑے ملک کے ممکنہ مقدار سے ضرب دیتے تو شاید اتنی بڑی بچت ہو ہی جاتی کہ پشاور میں بننے والی میٹرو مفت میں پڑجاتی۔

بہر حال خوش آئند بات یہ ہے کہ ماضی میں سسٹم میں موجود خامیوں اور فارماسسٹوں کی کمی کی وجہ سے اس سارے عمل میں گھپلے کا جو خطرہ رہتا تھا وہ اب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صحت کے شعبے میں ہونے والی اصلاحات سے کافی حد تک کم ہوگیا ہے۔ جو باقی صوبوں کے لئے ایک قابل تقلید مثال ہے۔ البتہ خیبر پختونخوا کو اپنے ادویات کی خریداری کے قوائد میں ایسی ترامیم کی ضرورت اب بھی ہے جس سے کم از کم جان بچانے والی ادویات کی اعلی کوالٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کا ہے جو اس بات کا خیال رکھے کہ صرف بہترین فارماسیوٹیکل کمپنیاں اور دوائیاں ہی رجسٹر ہوں تا کہ عوام کی صحت کے ساتھ ساتھ صوبوں کو خریداری میں بھی آسانی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2