اچھی عورت کا سفر


ویسے تو عورت پہ چسپاں ہونے والے سارے ہی لیبِل رنگین اور دلچسپ ہوتے ہیں۔ جو کہ معاشرے۔ نظام۔ حاکمیت۔ اور عالمی اعتبار سے عورت کی اہمیت اور حیثیت کو متعین کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اُسے جانداروں کے کون سے گروہ میں رکھا جائے۔

میرے خیال میں عورت بڑی عجیب و غریب مخلوق ہے۔ اور عورت پن بڑا اچھوتا فلسفہ خیال کیا جاتا تھا کہ قدرت نے اُسے کائنات کی خوبصورتی اور نشونما میں اضافہ کے لئے انسانی روپ میں تراشہ لیکن نظام نے اس کے کردار اور خصوصیات سے واقف ہوتے ہوئے اُس کی نفسیات کو انوکھی شکل دے دی اور اُس کے انسان ہونے کی توقع یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اُسے وفا کی پُتلی۔ قربانی کا پیکر۔ عزتوں کی رکھوالی۔ صبر وشُکر کی جیتی جاگتی تصویر جیسے القابات سے نواز کے نظام نے اُس کے ذہن پر کبھی نہ کُھلنے والے آہنی قُفل سجا دیے۔

عورت نے اپنے وجود کو بھول کر آچھی بن جانے کی جدوجہد کو کامیابی کی ضمانت مانا۔ اور یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم جیسے القابات اپنے اوپر حرام کر تے ہوئے اُسے ہمیشہ کسی اور صنف کے لئے مخصوص مانا۔ وہ یہ بھی نہ جان پائی کہ عملی طور پر وہی ان کی صحیح حق دار ہے۔ اور اس ادراک سے یہ ناواقفیت سراسر اُس کے اپنے فطری حقوق کی پائمالی ہے۔

زمانہ بدل رہا ہے آج عورت عزت کی طلب گار ہے اور اپنے آپ کو بھی اشرف المخلوقات میں شمار کرتے ہوئے اسے اپنا حق سمجھتی ہےنہ کہ نظام یا کسی اور سے ملنے والی کوئی رعایت۔
سچ تو یہ ہے کہ اُسے یہ احترام کسی اور سے نہیں بلکہ آپ سے چاہیے اور اُسے اپنے اندر ہی تلاش کرنا ہوگا۔ عورت ہمیشہ اپنے کو دانکیے جانے والے کرداروں میں زندہ رہی۔ بیٹی، بہن، ماں اور بیوی بنے کو بہترین جانتی رہی کیوں کہ نظام نے اُس کو مُنتخب کرنے کا حق دیا ہی نہیں!

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت خود طے کرے کہ آیا وہ انسان ہے اور اُس پر عائد کی جانیوالی پابندیاں اُسے قبول ہیں
وہ اپنے آپ کو کس رول میں دیکھنا پسند کرتی ہے۔
عورت کو حق ہے کہ وہ سانس لے۔ اپنی حفاظت بھی خود کرے اور اپنی من چاہی زندگی کا انتخاب کرتے ہوئے جئے۔

میں جانتی ہوں کہ یہ ایک غیر روایتی سوچ ہے اور میں ایک غیر روایتی عورت۔ تقریباً نصف صدّی دوسروں کو خوش کرنے کی جدوجہد میں گزارنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ تو میرا کام تھا ہی نہیں۔ کیوں کہ ہر ایک کو خوش رکھنے کی زمّہ داری اُس کی اپنی ہے نہ کہ کسی دوسرے کی۔

مرد کے لئے ہر ذمہّ داری سنبھال رکھنا اُس کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور خود عورت کے ساتھ بھی۔
جوں جوں زندگی کی کنّی کو مُشاہدہ اور تجُربے کی دھار لگ رہی ہے بادلوں کے اُس پار کے منظر سُجھائی دینے لگے ہیں اور بچپن میں سُنی گئی کہانی “ چُڑیا لائی دال کا دانہ اور چِڑا لایا چاول کا۔ پھر دونوں نے مِل کے کھچڑی پکائی اور ملُ کے کھائی “ پر یقینِ محکم قائم ہوتا جاتا ہے۔

فوزیہ اشتیاق
Latest posts by فوزیہ اشتیاق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).