ٹیکس ایمنسٹی اسکیم،معاملہ مشکوک ہے


وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ایک ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعظم نے خود پریس کانفرنس کر کے اس اسکیم کے اعلان کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ یہ کوئی کریڈٹ کی بات نہیں ہے۔یہ کوئی معرکہ یا بڑی کامیابی نہیں ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو ن لیگ کی حکومت کے پانچ سالہ دور کی کارکردگی کی علامت ہے۔

یہ حکومت کی جانب سے اس بات کا اعتراف ہے کہ وہ ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس چوروں کو پکڑنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کالا دھن اور بلیک منی والوں کو قانون کے دائرے میں لانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان ان کے سامنے ہتھیار ڈال رہی ہے کہ ہم تم کو نہیں پکڑ سکے اس لیے تم لوگ ہی خود آجاؤ۔ ناکامی کا اعتراف اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا۔

یہ پاکستان میں کوئی پہلی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں ہے، اس سے پہلے بھی مختلف حکومتوں نے ان گنت اسکیمیں دی ہیں۔ خود اسی دور میں تاجروں کے لیے بھی ایک اسکیم دی گئی جس میں تاجروں کو رضاکارانہ طور پر ٹیکس دینے کی درخواست کی گئی لیکن یہ اسکیم نا کام ہو گئی اور کسی بھی تاجر نے اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔

یہ درست ہے کہ اس وقت اپوزیشن کی جماعتیں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف بھی اس اسکیم کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خود پیپلزپارٹی نے بھی اپنے دور حکومت میں ایسی اسکیم دی تھی جو کامیاب نہ ہوئی تھی۔ جہاں تک تحریک انصاف اور عمران خان کا تعلق ہے تو ان کو ایک ہی فائدہ ہے کہ ان کا دور اقتدار ابھی نہیں آیا۔

اس لیے وہ کوئی بھی دعویٰ کر سکتے ہیں لیکن یہ بھی تو سب کو معلوم ہے کہ ماضی میں خود عمران خان بھی ایسی ہی ایک اسکیم کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اس لیے جس نے خود اپنا دھن کسی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے دھویا ہو وہ آج کس منہ سے اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ میں یہ پوائنٹ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ صرف ن لیگ ہی نہیں اس حمام میں سب برابر ننگے ہیں۔ہماری حکمران افسر شاہی خود ہی ٹیکس دینے پر یقین نہیں رکھتی تو وہ ٹیکس اکٹھا کیسے کر سکتی ہے۔

پاکستان میں ٹیکس کلچر نہیں ہے۔ ہمارا کاروباری طبقہ ٹیکس دینے پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ تاجر ٹیکس دینے پر یقین نہیں رکھتے۔ ملک کا نوے فیصد کاروبار زبانی اور کچی رسیدوں پر چلتا ہے۔ ایسے میں ٹیکس کیسے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ لاکھوں نہیں کر وڑوں کا لین دین زبانی اور نقد ہوتا ہے۔ جب سے حکومت نے بینکوں میں ٹرانزیکشن پر ٹیکس لگایا ہے ہمارا تاجر لاکھوں روپے کیش اپنے پاس رکھتا ہے اور بنکوں میں رقم جمع کروانا مناسب نہیں سمجھتا کہ ٹیکس کٹ جائے گا۔ لوگ بینک  میں رقم رکھنے کے بجائے لاکر میں کیش رکھتے ہیں۔

اگر حکومت ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے بجائے سارے لاکرز کی تلاشی لے لے تو بہت سا کالا دھن برآمد ہو جائے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور افسر شاہی خود ٹیکس چور ہے اس لیے ایسا کوئی اقدام ہو ہی نہیں سکتا۔ اس اسکیم کا بنیادی فلسفہ ہی  غلط ہے۔ اتنے سالوں میں ہم یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ یہ ٹیکس چور لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے۔ ایسی اسکیمیں ماضی میں بھی ناکام ہوئی ہیں اب بھی ناکام ہی ہونگی۔

یہ بات بھی درست ہے کہ ٹیکس اکٹھا نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ٹیکس کے نظام پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ اس نظام سے دور ہی رہنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ایسی اسکیمیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ ہم ٹیکس اکٹھا نہ ہونے کا ذمے دار ملک کی سیاسی قیادت کو ٹھہراتے ہیں۔

ہمارا موقف ہے کہ قیادت خود ٹیکس نہیں دیتی اس لیے عوام بھی ٹیکس نہیں دیتے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ غیر جمہوری ادوار میں بھی ٹیکس اکٹھا کرنے کی تمام اسکیمیں اور حربے ناکام ہو ئے ہیں۔ مشرف کا دور اس کی بہت بڑی اور واضح مثال ہے۔ اس ضمن میں غیر سیاسی اور سیاسی دور کسی کو استثنا حاصل نہیں ہے۔

جن ممالک نے کالا دھن پکڑنا ہوتا ہے وہ چوروں کے لیے عام معافی کا اعلان نہیں کرتے بلکہ ٹیکس چوروں کو پکڑنے اور کالا دھن پکڑنے کے اقدامات کرتے ہیں۔ اس ضمن میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت نے ملک میں بڑے کرنسی نوٹ بدل دیے اور پرانے نوٹ دیکر نئے نوٹ حاصل کرنے کے لیے دھن سفید ہونے کی شرط عائد کی۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام سے کالا دھن سفید رکھنے والوں کی اکثریت مر گئی تھی۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسے اقدام سے یہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم دینے والے خود  شکنجے میں آ جائیں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم موجودہ حکومت سے یہ امید لگا لیتے ہیں کہ یہ ٹیکس کا نظام ٹھیک کرے گی جب کہ ن لیگ کی حکومت کا ووٹ بینک ہی تاجر ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ن لیگ اپنے ووٹروں کے خلاف ہی کوئی ایکشن لے۔ اسی لیے حکومت نے کبھی سخت ٹیکس ریفارمز کی حمایت نہیں کی۔ جواب میں پیپلزپارٹی نے بھی کچھ نہیں کیا حالانکہ تاجر اور کاروباری لوگ اس کا ووٹ بینک نہیں ہیں لیکن ان افراد سے اس کے مالی مفاد وابستہ رہتے ہیں۔ اس لیے اس کے بھی ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

جہاں تک وزیر اعظم کے اس موقف کا تعلق ہے کہ سیاستدان اور افسران اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس معاملے میں قوم سے سچ نہیں بولا گیا۔ اسکیم میں لفظ سیاستدان نہیں لکھا ہوا بلکہ پبلک آفس ہولڈر لکھا ہوا ہے۔ یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ جیسے نواز شریف اس وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں۔

سیاستدانوں کے بھائی کاروباری پارٹنرعزیز و اقارب دل بھر کے اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح ان کے بالغ بچے بھی اس اسکیم سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اسی لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس اسکیم کا بنیادی مقصد ان کا خود کو بچانا ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ حسین نواز اور حسن نواز بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کو اپنے آخری ایام میں یہ اسکیم دینے کی کیا ضرورت تھی۔ وزیر اعظم کو کابینہ کی منظوری کے بغیر اس اسکیم کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جلدی کس بات کی تھی۔ اس کو آرڈیننس کے تحت لانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر وزیر اعظم کی یہ منطق مان بھی لی جائے کہ حکومت کے پاس اپنے آخری دن تک بھر پور اختیار سے کام کرنے کا مینڈیٹ ہوتا ہے تو کیا پارلیمنٹ کو اپنے آخری دن تک مکمل مینڈیٹ کے ساتھ کام کرنے کا اختیار نہیں۔

جب حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت ہے تو اس ایمنسٹی اسکیم کو قومی اسمبلی سے کیوں منظور نہیں کروایا گیا۔ شاید اس لیے کہ اس کے سینیٹ میں رک جانے کا امکان تھا۔ لیکن کیا ایک جمہوری حکومت کی طرف سے آرڈیننس کے ذریعے ایسی اسکیم لانا جمہوریت کی توہین نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ لگانے والی ن لیگ کی حکومت نے کیا اب خود پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے پارلیمنٹ کی توہین نہیں کی ہے۔

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والوں نے کیا اب خود ووٹ کی تضحیک نہیں کی ہے۔ کیا یہ بادشاہت  نہیں ہے کہ ایک وزیر اعظم پارلیمنٹ اور کابینہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی متنازعہ اسکیم کا اعلان کر دیتا ہے۔ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ نئی اکنامک ایڈوائزری کمیٹی نے بھی خود کو اس سے دور رکھنے کا ہی فیصلہ کیا اور اس نے اس کی باقاعدہ توثیق نہیں کی۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر اتنی جلدی کیا اور کیوں تھی۔

کیا یہ بھی کسی فرد واحد کو فائدہ دینے کے لیے تو نہیں لائی گئی۔ میرا نہیں خیال اس سے ن لیگ کے ووٹ بینک کو کوئی فائدہ ہو گا کہ ہم کہیں کہ ن لیگ الیکشن جیتنے کے لیے یہ اسکیم لائی ہے۔ اس لیے یہ کس کے اشارے پر اتنی عجلت میں آئی ہے۔یہ ہی سب سے بڑا سوال ہے۔ بات سامنے آ جائے گی۔ بس انتظار کرنا ہو گا۔ باقی تو سب قیاس آرائیاں ہیں۔ لیکن حالات و واقعات اور اس کے اعلان میں عجلت نے سارے معاملے کو ہی مشکوک بنا دیا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).