’ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں‘


میاں ثاقب نثار

SUPREME COURT OF PAKISTAN

پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمارے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں، جن کے پاس یہ اختیار ہے ان کے پاس شاید وقت نہیں کہ وہ قانون سازی کریں۔

منگل کو ضلع کچہری کوئٹہ میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے مقدمات کو نمٹانے میں تاخیر کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیا۔ انھوں نے وکلا پر زور دیا کہ وہ تاریخ لینے اور ہڑتال کلچر کا خاتمہ کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ جب حقوق انسانی پر نوٹس لیتے ہیں تو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ عدلیہ کے معاملات کو ٹھیک نہیں کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’امید ہے چیف جسٹس نے میری باتوں کو سمجھا ہو گا‘

’عدلیہ غیر جانبداری سے اپنا کام جاری رکھے گی‘

’کسی فیصلے کے لیے دباؤ نہیں، ہم کسی منصوبے کا حصہ نہیں‘

نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہمارے قوانین بہت پرانے ہو چکے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کنٹریکٹ ایکٹ سنہ 1872 میں بنا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ میں سنہ 1861 کا پولیس ایکٹ رائج ہے۔

ثاقب نثار نے کہا کہ ہمارے قوانین موجودہ وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ہیں۔ ’عدلیہ کے پاس قانون سازی کا اختیار نہیں جن کے پاس یہ اختیار ہے ان کے پاس شاید وقت نہیں ہوتا کہ وہ ان کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کریں۔

انھوں نے اس موقع پر ہزارہ قبیلے کو درپیش صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹارگٹ کلنگ پر ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ انھیں تحفظ فراہم کریں۔

اس سے قبل چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان میں پانی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں زبوں حالی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت دوسرے روز بھی جاری رکھی۔

سماعت کے دوران ان شعبوں میں فراہم کی جانے والی سہولیات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp