”ایک دن کی زندگی“ پونے دو سو صفحات کا بیانیہ


”ایک دن کی زندگی “ نیا ناول ہے جسے آزاد مہدی نے لکھا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہ کوئی بھی کتاب تبھی چھپ کر پڑھنے والوں تک پہنچتی ہے جب لکھنے والا اسے لکھ لیتا ہے۔ لکھنے کے بعد ایک دو بار خود پڑھتا ہے۔ زبان و بیان کے ماہر احباب سے مشورہ کرتا ہے۔ اس کی خوب نوک پلک سنوار لیتا ہے۔ جہاں جہاں اس کی نوکیں، کنارے اور چولیں بیٹھنا مناسب ہیں انہیں بٹھا لیتا ہے۔ اپنے تئیں جان لیتا ہے کہ اسے جو کہنا تھا کہہ چکا!
ہمارے دوست آج کے آزاد مہدی جو ماضی میں کبھی ابن منظور، رہ چکے ہیں اور شاعری سے بھی دل بہلاوا کرتے رہے ہیں۔ بالآخر راز ہستی پا گئے اور کہانی اور ناول نگاری کی طرف رجوع کر لیا۔ یہ ناول ’ایک دن کی زندگی‘ ان کا چوتھا ناول ہے۔ ’میرے لوگ ، دلال، اس مسافر خانے میں‘ اور اب متذکرہ ناول ’ایک دن کی زندگی‘۔ یہ ناول اپنے اصل اور اپنے خمیر میں بالکل جداگانہ حیثیت کا ناول ہے۔ یہ ایک طویل بیانیہ ہے جو ایک سو چھہتر صفحات پر محیط ہے۔ اس کے کل ملا کر چھ کردار ہیں، مصور، طوائف (کچھ اس کی ہم جولیاں) آزاد مہدی اور پڑھنے ، جو ہم میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی میں بھی، یعنی آپ بھی۔ میں سمجھتا ہوں وہ کہانی یا وہ ناول، جسے پڑھتے ہوئے خود اس کا پڑھنے والا، اس کا حصہ نہیں بن جاتا۔ پوری طرح نہ بھی سہی، بہت حد تک ناکام ہی کہلائے گا۔پر یہ ناول اور اس کا لکھنے والا دونوں کامیاب رہے ہیں۔ اگرچہ پورا ناول ایک ہی سانس میں لکھا گیا لگتا ہے۔ کامیابی مگر اس کی یہ ہے کہ پڑھنے والے سے ایک ہی سانس میں پڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ اس کی خاصیت ہے …. مگر یہ کہا جائے کہ آزاد مہدی کے یہاں ایک خاص ماحول اس کے ہر ناول میں نظر آتا ہے اور اس کے کردار بھی اسی ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں تو کچھ غلط نہیں ہو گا۔ مثال کے طور پر ہیرا منڈی یا اس کا نواح، طوائف، اس کی عام اور روزمرہ ضروریات کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ۔ لیکن اس کی ناولوں میں جو زندگی بیان ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ کسی صاحب نظر کا پتہ دیتی ہے۔


”آرٹ کی حرمت اور اس کے لطیف احساسات اپنی جگہ پر لیکن زندگی آرٹ سے بھی اکتا جاتی ہے“۔
”وہ آرٹ میں دوسرے اور تیسرے درجے کا فاعل تھا۔ زندگی بھی اسے اتنے ہی درجے پر ملی تھی۔ اگر اس کی خواہشات بطور فنکار کے آرٹ کے میدان میں وا ہو جاتیں تو ہمیں پکاسوسے ہاتھ دھونے پڑتے“۔
”آرٹ میں لیجنڈ نہ بن پانے کا دکھ تو اسے پہلے ہی تھا اب ٹھکانہ کھو جانے سے زندگی کی باگ ہاتھ سے چھوٹ رہی تھی۔ ان دونوں دکھوں نے مل کر اسے پہلے حاسد بنایا پھر مسخرا اور پھر اداکار ….“
یہ مصور کے بارے میں ہے جو اپنی حقیقی زندگی میں کسی سٹیج پر تو مسخرے یا اداکار کا کردار نہیں نبھا رہا لیکن اپنی زندگی کے گردوپیش میں جہاں اس کے ایک پہلو سے طوائف چمٹی ہوئی ہے وہاں وہ ہمیں کبھی مسخرا نظر آتا ہے اور کبھی مسخرا اداکار“۔
”وہ ایسے بیوقوف مردوں کے واقعات بیان کرتے ہوئے ہنس رہی تھیں جو عین موقع پر ان کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے بوکھلا گئے تھے اور مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگے تھے“۔ یہ طوائف کی ہم جولیوں کی ایک نجی محفل سے اقتباس ہے۔ اور خود طوائف جس کے ماضی میں سند لگاتے ہوئے اس نے ہمیں بتایا ہے اور اپنے بتانے کے ڈھنگ میں اس کا ماضی دکھایا ہے۔ ” وہ دیکھ رہی تھی، اپنے بھائیوں کو، ماں اور باپ کو جو گھر کے صحن میں ایک دوسرے کے قریب آتے ہوئے یا کوئی مشورہ کرتے ہوئے یا کسی بات پر ہنس رہے تھے ۔ان کے عقب میں سوکھے اپلوں کا دھواں چولہے سے مسلسل ایک سیدھ میں آسمان کی طرف اٹھ رہا ہے ۔ وہ منڈیر پر کھڑی اس بلند ہوتے دھوئیں میں تالیاں بجا رہی ہے تاکہ تھوڑا سا دھواں ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں تبدیل ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ وہ اپنے بچپن کی ان کوششوں پر مسکرا دی۔“
”اگر مرنا ضروری ہے تو آﺅ …. پھر سے ایک صحن میں دکھائی دیں۔ سب اپنے اپنے پردیس سے آﺅ اور بتاﺅ کہ تم کہاں ہو؟ ہماری کھڑکیاں، دروازے اور برتن پھر سے کھنکھناتے ہیں۔“
اور ایک آخری اقتباس ناول کے ایک عمومی کردار ماشکی کی زبان سے جو گویا ہمارے سینوں سے اڑتی دھول پر مو¿ثر اور معطر پانی کے چھینٹوں سمان پڑتا ہے۔
”پھر اس نے شانے اچکائے اور بولا۔ ”میں اپنے ضمیر سے اتنی اجازت ضرور لوں گا کہ میں اندھیرے میں ان کا کان ٹٹول سکوں تاکہ میری آواز کو صحیح سمت نصیب ہو کیونکہ آج کل کانوں کی لاپرواہی عام ہے۔ آوازیں سڑکوں اور پٹڑیوں پر تھک کر گرتی جا رہی ہیں، کان اور سماعت یکجا نہیں ہو رہے، یہی قحط ہے۔“
”ایک دن کی زندگی“ اپنی ساکھ اور ساخت میں خوبصورت نثر میں گندھا ہوا ناول ہے۔ زندگی کے معاملات سے جھوجھتے عام انسانوں کی کہانی۔ وہ وظیفہ جو آزاد مہدی نے دنیا بھر کے ادب کے تراجم پڑھنے کی صورت میں ادا کیا ہے۔ گاہے گاہے اس کے ناولوں میں اس کی جھلک ملتی ہے۔ یعنی کہانی کی بنت، اسلوب، زبان اور فلسفیانہ مباحث کی صورت میں۔ فی الحال خوشی کی دو باتیں ہیں، آزاد مہدی نے اچھا ناول لکھا ہے ۔ اردگرد اچھے ناول لکھے جانے اور چھپنے کی خبریں آرہی ہیں۔ معاشرے میں تبدیلی کی ایک نشانی یہ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments