یہ لمحے یہ پل ہم برسوں یاد کریں گے


روز دیر رات دبئی کے ریڈیو پر 90 کی دہائی کی گانے بجتے ہیں۔ کمار سانو کی آواز سماعت سے کیا ٹکراتی ہے اور آنکھوں سے برساتیں برس پڑتی ہیں۔ مانو جیسے ماضی کے بخیے ادھڑتے چلے جاتے ہیں۔ دو گانے جب بھی بجتے ہیں لگتا ہے یونیورسٹی کی چھکڑا بس میں سفر کر رہی ہوں۔ ایک چھئیاں چھئیاں اور دوسرے نصرت فتح علی کی کچے دھاگے کے گانے۔ مسٹر ہزبینڈ کا یہ حال ایس پی بالا کے گانوں سے ہوتا ہے۔ گانے بجتے ہیں اور ان سے جڑی انگنت کہانیاں ہم ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ اپنا یہ حال دیکھ کر مجھے اپنے رشتے کے وہ ماموں اور دادا یاد آتے ہیں جو 40 اور 50 کی دہائی کی سیاہ و سفید فلموں کے سحر سے کبھی باہر ہی نہ نکل پائے۔

وی سی آر اس زمانے میں سب کے پاس نہ تھا سو یہ حضرات کڑکتی گرمی کی دوپہروں میں فلموں کی کالی کیسٹیں ساتھ لئے ہمارے گھر چلے آتے۔ کھڑکیوں کو پردوں سے ڈھانپا جاتا۔ ماحول بنتا اور یہ سیاہ و سفید فلمیں دیکھی جاتیں۔ لتا کے گیتوں پر وہ سر دھنتے رہتے اور میں سمجھ نہیں پاتی تھی کہ ان اندھیری فلموں میں ان کو دکھتا کیا ہے؟ برسوں بعد انکشاف ہوا کہ ان فلموں میں ان کا گزرا وقت اور جوانی پھنسی ہے۔ مجھے 10 سال کی عمر میں یہ پرانے گانے فلموں کے ناموں کے ساتھ ازبر تھے مگر ان گانوں نے دل میں گھر نہیں کیا شاید اس لئے کہ وہ گیت میرے زمانے کے تھے ہی نہیں۔ میرا زمانہ ابھی آیا ہی کہاں تھا۔ مگر پھر میرا زمانہ اناً فاناً آیا اور چلا بھی گیا اور پتہ بھی نہ چلا۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور پھر ایک دن اچانک سری دیوی بھی چل بسی۔ تب احساس ہوا کہ کتنا وقت گزر گیا اور ساتھ ہی سری دیوی کی چتا پر رہا سہا بچپن بھی جل کر بھسم ہو گیا۔ آٹھ سال کی عمر میں ہوا ہوائی پر ناچتے ناچتے نہ جانے کب چاندنی کے سفید لباس سے عشق ہو گیا۔ ۔ ۔ کسی سہیلی کی سالگرہ ہو اور جب تک نو نو چوڑیاں اور مورنی گانے پر ناچ نہ لیتے محفل میں رنگ ہی نہ جمتا۔

مجھے آج بھی چھٹی جماعت میں اپنی سہیلی کا نو نو چوڑیاں پر رقص یاد ہے۔ بڑے اہتمام کے ساتھ نیلا لہنگا پہنے چھوٹے بالوں میں زبردستی پراندہ جمائے وہ اس دھوم سے ناچ رہی تھی کہ اس کا پراندہ اس کے چھوٹے بالوں سی آزاد ہو کر ہوا میں اڑتا ہوا کسی چابک کی طرح ہمارے منہ پر زور سے آلگا تھا۔ اس کا رقص وہیں چھوٹا اور ہم سب زور زور سے ہنسنے لگ گئے۔ میں تو آج بھی مسٹر ہزبینڈ کو کہتی ہوں زندگی میں ایک بار سوئٹزرلینڈ لے چلو۔ بڑی حسرت ہے کہ یش چوپڑہ کی چاندنی کی طرح پیلی ساڑھی پہن کر میں بھی سوئزرلینڈ کے سبزہ زاروں میں گھوموں۔

میرے بچپن میں ہمارا ایک شیدی نوکر (سندھ میں قدیم دنوں میں آئے ہوئے حبشی شیدی کہلاتے ہیں) خاصہ زنانہ طبیعت کا مالک تھا سری دیوی کا اس قدر مداح تھا کہ بڑی حسرت سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ”ہائے! کاش میں سری دیوی ہوتا“۔ سوچتی ہوں ابھی ہمارے گھر ہوتا اور سری دیوی کی موت کی خبر سنتا تو دیکھنے جیسا منظر ہوتا۔ چھاتی پیٹتا بین کرتا۔ یہ سوچ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ سری دیوی کی موت پر کئی لوگوں نے برا مانا کہ آخر اس کافر عورت کا ایسا کیا کارنامہ تھا کہ اس کا سوگ منایا جائے۔ ایک دوست نے کہا سوگ تو اس گزرے وقت کا ہے جب پورا ہفتہ جمعرات کے انتظار میں گزرتا کہ کوئی فلم دیکھنا نصیب ہو۔ اور فلم سری دیوی کی ہو تو کیا کہنے۔ اس زمانے میں اتنی نفرتیں نہیں تھی یا پھر وہ عمر ایسی تھی کہ ہمارے دل میں نفرت کے لئے جگہ ہی نہ تھی۔ سو کیا کافر کیا مسلمان کیا ہندوستان اور کیا پاکستان۔ کیا دن تھے وہ فرصت کے جن کو جی آج بھی ڈھونڈتا ہے۔ سری دیوی کی موت کے بعد کئی دن ٹی وی کے سامنے دن رات سوگ مناتی رہی۔ تنگ آکر مسٹر ہزبینڈ نے کہا بس بھی کرو اب۔ جواب میں بس یہی کہہ پائی کہ یہ سوگ سری دیوی کا نہیں اس گزرے زمانے کا ہے جو نجانے کب گزر گیا اور خبر بھی نہ ہوئی۔

امی اکثر کہتی ہیںں وقت کی قدر کرو اس سے جڑے ہر شخص سے محبت کرو ایک دن اچانک بیٹھے بیٹھے خیال آئے گا کہ یا الّلہ کتنا وقت گزر گیا اور خبر بھی نہ ہوئی۔ میری عمر کے لوگ دکھنے میں تو جوان لگتے ہیں اور اکثر ہمارا منوں خون بڑھ جاتا ہے جب کوئی عمر سن کر یہ بول دے کہ ہائے لگتا ہی نہیں کہ آپ کی یہ عمر ہے مگر اس خوشی پر پانی پھر جاتا ہے جب چند ہی لمحوں میں گھٹنوں کا یا کمر کا خاموش درد جاتی ہوئی جوانی کی یاد دلاتا ہے۔ کیونکہ ابھی تو میں جوان ہوں تو اس بارے میں بات کرنا میرے ہم عمر لوگوں میں ابھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جوانی کے جوش میں کبھی خود سے کہیں چھوٹے افراد کے ساتھ غلطی سے بیٹھ جائیں تب ان کی لا اُبالی باتیں اور بے قابو ہنسی یاد دلا جاتی ہیں کہ اب نہ جنوں رہا ہے اور نہ ہی پری۔

کبھی کبھی سب دوست پرانی یادیں تازہ کرنے بیٹھتے ہیں تو یہی کہتے ہیں کہ کاش زندگی کا بھی رموٹ کنٹرول ہوتا تو ایک بار پھر پیچھے جا کر وہ زندگی جیتے۔ ان بچھڑے اپنوں سے مل پاتے جو زندگی کے سفر میں کھو دیے۔ مگر پھر ان لوگوں کا کیا جو ان بچھڑے اپنوں کے ازالے میں اوپر والے نے ہمیں دیے۔ نئے رشتے نئے دوست۔ وقت کو تو نہیں روک سکتے مگر گزرتے وقت کو اچھی یادوں میں تو بدل سکتے ہیں۔

مگر جوانی ہے کیا؟ کیا یہ صرف جسم کی حد تک محدود ہے؟ میں نے کئی لوگ دیکھے ہیں جو عمر سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور ایسے بھی دیکھے ہیں جو ساٹھ سے اوپر ہیں مگر کئی نوجوانوں سے زیادہ بہتر زندگی جی رہے ہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ دراصل جوانی جسم کی نہیں دماغ کی ہوتی ہے۔ بس گاڑی کا انجن چلتا رہے۔ اسے زنگ نہ لگنے دینا چاہیے۔ انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، بدلتے وقت کو سمجھنے اور اس کے ساتھ چلنے کی قابلیت اسے جوان رکھتی ہے۔

تو گویا مرد کی جوانی کا راز یہ ہے کے وہ گھر فارغ نہ بیٹھے اور عورت کی جوانی کا راز اس کی خودمختاری ہے۔ بس مشین چلتی رہے انجن گرم رہے۔ جیو اور شان سے جیو کہ اپنے تمام تر پاگل پن کے ساتھ جو وقت گزرا ہے وہ تو نہیں لوٹے گا مگر جو ہے اس کو سنوارو۔ اسے خوبصورت بنانے کی کوشش کرو کیونکہ یہ آج کل میں تبدیل ہوگا۔ اور گزرا کل ایسا ہو کہ جب وہ یاد آئے تو آنکھوں میں نمی ہو اور ہونٹوں پہ ہنسی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).