عاشق نوجوان، ہندو لڑکی، گمراہ مولوی اور مجبور باپ


مجھے پھانسی مل جاتی تو اچھا تھا۔ اس نے بڑے دکھ سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

اس کے لہجے میں سارے جہاں کا درد اور اس کی آنکھوں میں بلا کی اُداسی تھی۔ ایسی بھرپور اُداسی جسے دیکھ کر دیکھنے والا بھی اُداس ہوجائے

وہ اپنے باپ کے ساتھ آیا تھا۔ وہ مجھے سیدھے سادے سے آدمی لگے تھے، دُبلے پتلے، سر پر جالی والی سفید ٹوپی، چھوٹی اور تمیز سے تراشی ہوئی داڑھی اورآنکھوں پر قیمتی عینک کا فریم۔ انہوں نے قیمتی سی گھڑی بھی پہنی ہوئی تھی۔ مجھے ڈاکٹر حمید نے فون کرکے ان کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ اسے لے کرآئیں گے۔ حمید کا شمار شہر کے ان گِنے چُنے ان ڈاکٹروں میں ہوتا تھا جو نہ صرف یہ کہ علاج کرتے ہیں بلکہ مریض اور مریض کے خاندان کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات بھی رکھتے ہیں ۔ پورا خاندان حمید کامریض تھا۔ کھاتے پیتے لوگ تھے وہ، کراچی کی سبزی منڈی میں سبزی کی آڑھتی کرتے تھے سلمان نے کسی ہندو لڑکی کا اغوا کیا تھا، اس سے شادی کی تھی جس کے بعد ایک بچی کی پیدائش ہوئی پھر وہ لڑکی ایک دن بھاگ گئی تھی۔

میں نے قصہ تو سن لیا تھا لیکن میرا خیال تھا کہ میں مریض اوراس کے خاندان کی زبان سے ہی ساری باتیں دوبارہ سے سنوں توبہتر ہوگا، مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ پورا خاندان کس قسم کے زبردست دباﺅ کا شکار ہوگا۔

وہ سب ہی دباﺅ کے شکار تھے، ان دونوں کو بلانے سے قبل میں اس کے باپ کوپہلے سے بلا کر ان کی باتیں سن چکا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کئی دفعہ خودکشی کرنے کی کوشش کرچکا ہے۔ اب اسے ہر وقت کسی نہ کسی کے زیرنگرانی رکھنا پڑتا ہے۔ گھر میں بھی اس پر نظر رکھنی پڑتی ہے کہ کہیں وہ باورچی خانے سے چھری نکال کر اپنے آپ پر وار نہ کرڈالے۔ کمروں کے دروازوں کی چٹخنیاں نکال دی گئی ہیں کہ مبادا وہ کسی کمرے میں بند ہوکر اپنے آپ کو پھانسی نہ دے لے۔ ہر وقت اس کے ساتھ ایک ملازم رہتا ہے۔ اکلوتا بیٹا اور اس کا یہ حشر کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ ماں اور بہنیں ہر وقت آنسو بہاتی رہتی ہیں ۔ نہ جانے کس کی بددُعا یا کسی کی نظر لگی ہے کہ یہ سب کچھ ہو گیا ہمارے ساتھ۔ انہوں نے بڑے درد بھرے الفاظ میں مکمل کہانی سنائی تھی۔

وہ مشرقی پاکستان سے لُٹے پٹے کراچی آئے تھے۔ مشرقی پاکستان میں اچھا کاروبارتھا۔ بہار سے وہ لوگ مغربی پاکستان کے بجائے ڈھاکہ چلے آئے تھے۔ وہاں ہی ان کے باپ نے محنت کی اور آہستہ آہستہ کرکے کاروبار جمایا تھا۔ کم عمری سے ہی وہ اپنے والد کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ دیکھتے دیکھتے ہی انہوں نے وہ سب کچھ حاصل کرلیا تھا جس کی ہرآدمی کوشش کرتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں سب کچھ مِلا تھا ہم لوگوں کو۔

بڑی محنت کی تھی ہمارے خاندان نے صبح سے شام تک کام کرتے تھے اور اﷲ نے اس کا پھل بھی دیا۔ اچھے پیسے کمائے، دوست عزیز، رشتہ دار سب کی مدد بھی کی۔ مکان بھی بنایا اور سوچا بھی نہ تھا کہ رُت ایسے بدلے گی کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

بنگلہ دیش تو ایک بڑا دیش بنا مگر نہ جانے کتنے چھوٹے چھوٹے دیش تباہ و برباد ہوگئے۔ بچے یتیم ہوئے، بیویاں بیوہ ہوگئیں اوراپنے جوان بچوں کی موتوں کا ماتم کرتے ہوئے مائیں اپنا آپ کھوبیٹھیں ۔ بہن بھائیوں کو یاد کرتی ہیں اوربھائی اپنی بچھڑی ہوئی بہنوں کے بارے میں ڈراﺅنے خواب دیکھ دیکھ کر نہ جانے کیسے زندگی گزاررہے ہیں ، کیوں ہوتا ہے ایسا۔کچھ سالوں کے بعد وہی کہانی دُھرائی جاتی ہے۔ ان کے لہجے میں بڑا کرب تھا۔

شکر ہے ہمارے خاندان کی دونوں جوان لڑکیاں میری دونوں بہنیں اغواءنہیں ہوئیں بلکہ گولی کا نشانہ بن کر مرگئیں ۔ میں ، میری ماں اورمیرے والد ان کے لیے فاتحہ پڑھ لیتے تھے، انہیں یاد کرکے رولیتے تھے، اب میں بھی انہیں یاد کرتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں کہ وہ کہیں جنت میں سکون سے آرام سے رہ رہی ہوں گی۔ میں ان کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان نہیں ہوتا ہوں ۔

مجھے اس قسم کی کہانیاں سننے کا شوق تھا، میرا خیال تھا کہ مریضوں اور مرض کو سمجھنے کے لیے اور اس کے بعد علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام تصیلات کو جمع کیا جائے، ان کی چھان پھٹک کی جائے تو بہت ساری ذہنی گروہوں کو کھولنے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ذہنی مریضوں کا علاج ان گتھیوں کو کھولے بغیر ممکن نہیں ہے۔

مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر انہوں نے پھر کہنا شروع کیا تھا کہ جوکچھ بھی ہُوا دونوں جانب ہُوا، کیا بہاری کیا بنگالی، کیا فوجی اورکیا مکتی باہنی، کوئی بھی انسان نہیں رہا تھا۔ وحشت، دہشت، درندگی اور ظلم کے درجے نہیں ہوتے ہیں ، ڈاکٹر صاحب جیسے چوری اوربے ایمانی کے درجے نہیں ہوتے ہیں چور کو جانتے بوجھتے ہوئے چور نہ سمجھنا، بے ایمان کی بے ایمانی کی حمایت کرنا، چوری اور بے ایمانی سے زیادہ بڑے جرم ہیں ۔ جرم چاہے بڑا ہو یا چھوٹا جرم تو جرم ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح سے ظلم وستم، وحشت، دہشت، درندگی کی حمایت کسی بھی وجہ سے کی جائے وہ بھی وحشت، دہشت، درندگی ہی کہلائے گی۔ نہ جانے کیا ہوگیا تھا لوگوں کو۔ پاکستان کو بچانے کے لیے ایک بھی بنگالی کا قتل نہیں ہونا چاہیے تھا اوربنگلہ دیش بنانے کے لیے ایک بھی بہاری کو مارنا نہیں چاہیے تھا۔ کاش کسی لڑکی کی عزت نہ لوٹی جاتی، کاش کسی کو بھی ذبح نہیں کیا جاتا، کیا ضرورت تھی ان سب چیزوں کی۔ ان کی بات میں وزن تو بہت تھا مگر حقیقی دنیا میں توایسا نہیں ہوتا ہے۔ ایسا ہُوا بھی نہیں ہے اورشاید ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔

لوگ بالادستی کے لیے لڑیں گے، قومیں ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گی، ایک دوسرے کی ماﺅں بہنوں کی حرمتوں کوپامال کریں گی، کبھی قومیت کے نام پر کبھی مذہب کے نام پر کبھی ملک بچانے کے لیے اور کبھی اپنی اناﺅں کی تسکین کے لیے۔ انسان تو یہی کرتے رہے ہیں ۔ ہزاروں سال کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے، میرے ذہن میں بھی اسی قسم کے خیالات آتے رہتے تھے۔

دو بہنوں کا دکھ لے کر اورسب کچھ ڈھاکہ میں چھوڑ کر میں اپنے خاندان کے ساتھ نیپال کے راستے کراچی پہنچ گیا تھا اور کراچی کے اورنگی ٹاﺅن میں زندگی ویسے ہی شروع کردی تھی جیسے میرے باپ نے ڈھاکے میں شروع کی تھی۔ وہاں میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا، یہاں انہوں نے میرا ہاتھ بٹایا۔ یہاں بہت جلد اﷲ کی مہربانی سے ہم لوگوں کو سب کچھ مل گیا۔ میں نے وہی کام یہاں کی سبزی منڈی میں شروع کردیا تھا۔ یہی ایک کام مجھے آتا تھا جو میں اچھے طریقے سے کرسکتاتھا پھر اورنگی ٹاﺅن چھوڑ کر گلشن اقبال جا بسنے میں بہت دیر نہیں لگی ہم لوگوں کو۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4